مریم نواز کے انٹرویو پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا ن لیگ اپنے بیانیے سے منحرف ہو رہی ہے، مفاہمت کی بات شروع کر دی ہے۔ مریم نے بی بی سی کے ساتھ انٹرویو سے ایک دن قبل ایک انٹرویو میں بالکل مخالف بات چیت کی۔ بی بی سی سے بات میں مریم نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس جعلی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ مریم نواز جلسوں میں کہتی رہی ہیں کہ ہماری لڑائی عمران سے نہیں اسے لانے والوں سے ہے۔ یہ لڑائی 2بڑوں کے درمیان ہے، بچوں کا اس میں کوئی کام نہیں۔ لیکن اب بڑوں کی لڑائی میں بچوں کو گھر بھیجنے پر بات آ گئی ہے۔ سارا بیانیہ الٹ ہو گیا، نواز شریف جو رونا روتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومتیں گراتی رہی ہے کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ اب اسی اسٹیبلشمنٹ کو کہہ رہے ہیں کہ عمران حکومت کو گھر بھیجیں۔ ن لیگ کے تمام عہدیداران سرعام کہتے رہے ہیں کہ ہم آئین کی بالادستی چاہتے ہیں ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے۔ اب نیا بیانیہ سامنے آیاہے، آئینی بالادستی کی جنگ، آئین توڑ کر، کیا یہ ہونا چاہیے۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ راتوں رات اچانک ن لیگ پر پریشر کہاں سے آیا۔ کیا بلاول کے بیانات سے ن لیگ پریشر میں آ گئی کیونکہ آئی جی سندھ والے واقعے پر بلاول نے فوج کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو خوش آئند قرار دیا۔ لیکن نواز شریف نے اسے مسترد کیا۔ پھر بلاول نے ہی بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ نواز شریف نے اچانک فوجی افسروں کے نام لئے وہ میرے لئے شاکنگ تھے۔ پی ڈی ایم میں کسی شخصیت کا نام نہ لینے کی بات ہوئی تھی۔ گلگت بلتستان میں الیکشن مہم میں بھی بلاول بڑے بڑے جلسے کر رہے تھے۔ بلاول نے اپنی تقریروں میں صرف حکومت اور عمران خاں کو ہدف تنقید رکھا۔ ن لیگ کو یہ خدشہ ہو چلا تھا کہ بلاول اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوتا جا رہا ہے اور ن لیگ تنہا ہوتی جا رہی ہے ایسے میں مریم نواز کو مذاکرات کی بات کا پتہ پھینکنا پڑا۔ ملک میں جو صورتحال چل رہی ہے وہ کہیں نہ کہیں بات چیت پر ہی آکے رکے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ جو شرائط مریم پیش کر رہی ہیں کہ کیا وہ دوسرے فریق کو بھی قبول ہے۔ مریم کی شرط یہ ہے کہ حکومت کو گھر بھیجا جائے پھر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ اب ظاہر تو یہ ہے کہ حکومت کو گھر کون بھیجے۔ تحریک عدم اعتماد سے حکومت جانے والی نہیں، استعفوں سے بھی نہیں جائے گی تو کیا طریقہ ہے؟
مریم کے بیان کے بعد ن لیگ کا موقف ہے کہ مذاکرات سے ہم نے کبھی بھی انکار نہیں کیا ہمارا کہنا ہے کہ نیشنل سکیورٹی پر فوج سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ یہ ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ اگر کسی پارٹی کا کوئی لیڈر کوئی بیان دے دے تو اس کی پارٹی کے تمام ارکان بلا سوچے سمجھے اس بیان کا دفاع شروع کر دیتے ہیں۔ پہلے الطاف حسین بیان دیتے پوری ایم کیو ایم اس کی حمایت میں آ جاتی۔ اب نواز شریف کوئی بھی بیان دیدیں پوری ن لیگ اس کے دفاع میں آ جاتی ہے۔ پی پی اور تحریک انصاف کا بھی یہی حال ہے اب جبکہ ملکی حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ تمام جماعتوں کو چاہیے کہ حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے۔ مدت پوری ہونے کے بعد پھر حکومت کی خامیوں کو عوام کے سامنے رکھیں عوام کو قبول ہو گا تو دوبارہ ووٹ نہیں دے گی جو عوام کا فیصلہ ہو وہ قبول کر لیا جائے۔
بی بی سی نے مریم کا انٹرویو کیا تو شروع میں بی بی سی کی جو تحریری خبر تھی اس میں لکھا تھا کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہو سکتے ہیں بشرطیکہ جعلی حکومت کو گھر بھیجا جائے لیکن جو انٹرویو نشر کیا گیا اس میں یہ جملہ اس طرح نہیں تھا لیکن کچھ دیر بعد تحریری انٹرویو سے بھی یہ الفاظ حذف کر دیے گئے بعد میں اس جملے کو یوں لکھا گیا کہ اگر یہ جعلی حکومت ختم ہو جائے تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ گھر بھیجا جائے والی لائن ختم کر دی گئی۔ اس سلسلے میں ن لیگ کا موقف ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ اس حکومت کو گھر جانا چاہیے۔ مریم نے یہی کہا یہ نہیں کہا کہ گھر بھیجا جائے ہم عوامی دبائو، تحریک عدم اعتماد اور اجتماعی استعفے سے حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف صاف نظر آ رہا ہے کہ ان تینوں طریقوں سے حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، دوسری طرف حکومت اگر اپنی گورننس بہتر بنائے۔ مہنگائی کم کر دے تو وہ عوامی پریشر سے بچ سکتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس صرف ایک ہی پوائنٹ ہے کہ ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہو چکی ہے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے، یہ حکومت عوامی امنگوں پر پوری نہیں اتر سکی، اس لئے اسے چلے جانا چاہیے۔
مریم نواز نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کے قریبی ساتھیوں سے بات چیت کے لئے رابطے کئے گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ جب کسی مصدقہ ذرائع سے مذاکرات کی پیشکش ہوئی ہی نہیں تو پھر بلاول یا فضل الرحمن اس پر غور کیوں کریں، اصولاً تو یہ پیشکش پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمان کو ہونی چاہیے تھی۔ تو پھر اسٹیبلشمنٹ نے صرف ن لیگ کے لوگوں سے رابطہ کیوں؟ کیا آخر کیا مجبوری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اتنا بڑا قدم اٹھائے اور نواز شریف کے بیانیے کو درست ثابت کر دے کہ ملک میں ووٹ کی کوئی عزت نہیں۔ حکومتیں گرانے اور بنانے میں فوج کا ہاتھ ہے۔ کیا ملک میں واقعی ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ حکومت کا جانا ضروری ہو گیا ہے یا اپوزیشن والے اپنے مقدمات سے بچنے کے لئے حکومت گرانے کی ضد میں لگے ہوئے ہیں۔