پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک کی ڈیڈی لائن دی ہے اور کہا کہ وزیر اعظم عمران خان 31 جنوری تک استعفیٰ دیدیں ورنہ فروری کے پہلے ہفتے پی ڈی ایم کا اجلاس بلایا جائے گا اور لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا، اپوزیشن جماعتوں نے پہلے دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ حکومت دسمبر نہیں دیکھے گی پھر کہا کہ حکومت جنوری نہیں دیکھے گی اب بات فروری تک چلی گئی ہے۔ جب بات فروری تک پہنچی تو حکومت نے بھی ایک دھماکہ کردیا اور سینیٹ الیکشن فروری میں کرانے کا اعلان کردیا اور اب ایک ہفتے سے جو بحث ہو رہی ہے وہ سینیٹ الیکشن پر ہو رہی ہے، تمام تجزیہ نگار اس پر بات کر رہے ہیں کہ سینیٹ الیکشن فروری میں ہو سکتے ہیں یا نہیں، اعتزاز احسن نے ایک اور دھماکہ کردیا کہ الیکشن فروری میں ہوسکتے ہیں اور اگر اپوزیشن استعفے دے بھی دے تب بھی سینیٹ الیکشن نہیں رکیں گے، ماہرین قانون اس نقطے پر بات کر رہے ہیں کہ کیسے الیکشن ہو سکتے ہیں۔ طریقہ کار کیا ہو گا۔ کہا جا رہا تھا کہ پی پی شاید استعفے نہ دے کیونکہ وہ اپنی سندھ حکومت کیوں قربان کر ے، اس بات میں وزن اس وقت اور ہو گیا جب پی پی نے سندھ میں خالی ہونے والی صوبائی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانے کی در خواست دیدی۔
اگر پی پی نے قومی اور صوبائی سیٹوں سے استعفے ہی دینے تھے تو سندھ میں صوبائی سیٹوں پر الیکشن کروانے کی درخواست کیوں دی، اس بات سے ان تجزیہ نگاروں کی سوچ کو تقویت ملتی ہے، جو کہتے ہیں پی پی استعفے نہیں دے گی، علاوہ ازیں پی پی نے سینیٹ الیکشن لڑنے والوں سے درخواستیں بھی مانگ لی ہیں، الیکشن کمیشن نے دو قومی اور 4 صوبائی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانے کا اعلان کردیا، اس سے لگ رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن فر وری میں نہیں ہو رہے کیونکہ ضمنی الیکشن کے بعد ہی سینیٹ الیکشن ہونگے اور ضمنی الیکشن فروری میں ہونگے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے لانگ مارچ کی کال دے رکھی ہے، لانگ مارچ فروری میں ہوگا، اب سوال یہ ہے کہ فروری میں سردی ہوگی کیا لانگ مارچ کے شرکا فروری میں اتنی ٹھنڈ میں اسلام آباد میں بیٹھ سکتے ہیں۔ عمران خان نے جب دھرنا دیا تھا، اگست میں اس وقت موسم اچھا تھا، لوگ بیٹھ گئے لیکن اتنی ٹھنڈ اپوزیشن ارکان برداشت کرلیں گے، جواب ہے بہت مشکل ہے، تو کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ لانگ مارچ نہیں رانگ مارچ ہو گا، اپوزیشن کے جلسوں کا آخری جلسہ لاہور میں تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ آر ہوگا یا پار ہوگا۔
لاہور جلسہ جس کی دو ماہ سے تیاریاں جا ری تھیں اور کہا یہ جا رہا تھا کہ یہ جلسہ حکومت کیخلاف ریفرنڈم ہو گا۔ لیکن آزاد تجزیہ نگاروں کے مطابق لاہور میں اپوزیشن بڑا شو کرنے میں ناکام رہی، جلسے کو فلاپ نہیں کہا جا سکتا لیکن کامیاب بھی نہیں کہا جا سکتا، 30 اکتوبر 2011 کو جب مینار پاکستان پر عمران خان نے جلسہ کیا تو وہ جلسہ ایک بڑے جلسوں کیلئے مثال بن گیا، تب سے یہ روایت چلی کہ کتنی کرسیاں تھیں کتنے آدمی تھے۔ یہ روایت شروع کی ن لیگ نے، پرویز رشید ان دنوں میں کرسیاں گن کر اور جگہ ایک فٹ کے حساب سے ماپ کر ایک فٹ میں کتنے بندے آسکتے ہیں، حساب لگایا کر تے تھے۔ اس جلسے کو دیکھ کر اب دوسرے جلسوں کو جج کیا جاتا ہے کہ جلسہ کتنا بڑا ہے، لاہور کے جلسے کو چھوٹا جلسہ کہا گیا تو اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگانا شروع کردیا کہ چینلز کو کسی نے ڈائریکشن دی ہے کہ جلسے کو چھوٹا کہنا ہے، مریم نے بی بی سی کی تعریف کی اور کہا کہ بی بی سی اور الجزیرہ نے ہمارے جلسے کو اچھا دکھایا اور دو روز قبل پریس کانفرنس میں بھی مریم نے بی بی سی کی تعریف کی لیکن گلگت میں جلسے کے وقت جب بی بی سی نے مریم کا انٹرویو کیا اور بی بی سی نے لکھا کہ مریم نے کنڈیشنل حامی بھر لی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ عمران کو ہٹا دے تو اسٹیبلشمنٹ سے بات ہو سکتی ہے اس وقت یہی بی بی سی تھا جس پر ن لیگ نے تنقید کی کہ کہ بی بی سی پر دبائو ڈال کر یہ بات کہی گئی تو سیاست میں کوئی بھی کسی سے ہر وقت خوش نہیں رہتا، جو مطلب کی بات ہے اسے لیا جاتا ہے اور اگر خلاف بات ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ منفی رپورٹنگ ہے۔
اب کئی وہ صحافی جو ن لیگ کے قریب سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے بھی لاہور کے جلسے کو بہت بڑا جلسہ نہیں کہا۔ پاکستان میں ہر پارٹی کی اپنی جمہوریت ہے لیکن ایک بات سب میں کامن ہے کہ جو میں کہوں اسے مانو ورنہ آپ سارے یا بکے ہوئے ہیں یا پریشر میں کام کر رہے ہیں، اگر سارے ٹی وی چینلز کہ دیتے کہ لاہور کا جلسہ تاریخ کا سے بڑا جلسہ تھا۔ ڈیڑھ سے دو کروڑ لوگ جلسے گاہ کے اندر تھے اور اس سے زیادہ باہر سڑکوں پر تھے تو اپوزیشن خوش ہوتی اور کہتی کہ اب بات ٹھیک کی جا رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہی المیہ ہے کہ جو صحافی ان کے حق میں بات کرے وہ آزاد اور جو مخالفت میں بات کرے وہ بکے ہوئے ہیں یا پریشر میں ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن ن لیگ نے پچھلے 20یا 22 سال میں مینار پاکستان پر جلسہ نہیں کیا کیونکہ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی، ان کا اپنا شہر اپنا گڑھ تھا جلسہ کرنے کی ضرورت کیا تھی، چھوٹے چھوٹے جلسے کر کے بھی ن لیگ سیٹیں لے جاتی ہے تو اتنا خرچہ کیوں کیا جائے، سال ہا سال بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ن لیگ کو لاہور میں بڑا جلسہ کرنا پڑا جو بڑا نہیں کہلا سکا۔ حالانکہ لاہور کے علاوہ پنجاب، سندھ اور کے پی سے بھی بندے لائے گئے لیکن امپیکٹ نہیں پڑا۔
مینار پاکستان کی ایک خاص اہمیت ہے جب بھی کوئی تحریک چلائی جاتی ہے تو مینار پاکستان کو چنا جا تا ہے یہ اس لئے ہوتا کہ وہ تحریک اس کے ایجنڈے کو ایک ہائپ مل جائے، یہ بھی کہا جا رہا کہ جہاں جلسہ ہوا وہ حلقہ حمزہ شہباز کا تھا اور حمزہ اور شہباز شریف کا دھڑا اور مریم نواز کا دھڑا ایک پیج پر نہیں تھے حمزہ شہباز نہیں چاہتے تھے کہ ان کے حلقے میں ایک بڑا جلسہ ہو اور مریم ان سے آگے نکل جائے۔ بڑے جلسے کی روایت عمران خان نے ڈالی اور پورے پاکستان میں جہاں بھی جلسے کئے بڑے جلسے کئے اور اتنے بڑے جلسے کئے کہ مثال بنتے گئے اب کوئی بھی جلسہ ہوتا ہے تو مقابلہ کیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کا جلسہ کتنا بڑا تھا اور اپوزیشن کا کتنا بڑا تھا۔ اب عمران خان کے جلسے مثال بن چکے ہیں اور اپوزیشن کے جلسے کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں اب بھی چاہوں تو ان سے بڑا جلسہ کر سکتا ہوں۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ لاہور جلسے کے بعد اپوزیشن اس تعداد کے ساتھ وزیر اعظم کا استعفی مانگ سکتی ہے کیا حکومت پر اس جلسے سے فرق پڑا تو حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ اس جلسے نے ان کے حوصلے بڑھا دئیے اور اپوزیشن کے جلسوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اب اپوزیشن نے لاہور کے جلسے کا تاثر زائل کرنے کیلئے دو اور جلسے رکھ لئے ہیں لاڑکانہ کا جلسہ بڑا بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بلاول بھٹو اپنے آبائی حلقے میں ایک بڑا پاور شو کر کے ن لیگ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ن لیگ کے گڑھ لاہور سے بڑا جلسہ پی پی کے گڑھ لاڑکانہ میں ہو گا۔
اب اپوزیشن حکومت کو استعفوں سے ڈرانا چاہتی ہے۔ خبر یہ بھی تھی کہ شہباز شریف ابھی معاملے کو اس نہج پر لے جانے کے قائل نہیں۔ لگتا یہ ہے کہ شہباز شریف اور بلاول کی ملاقات میں یہی طے پایا استعفے ابھی پینڈنگ رکھے جائیں اور حکومت پر کسی اور طرح سے دیائو بڑھایا جائے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری کشیدگی اور لفظی جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات سیاسی ماحول کو مزید آلودہ کررہے ہیں۔ پریس کانفرنسوں میں اپنے سیاسی مخالفین پر گھناؤنے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ دھرنوں اور لانگ مارچ سے تو حکومت جانے والی نہیں ماضی میں ہم نے دیکھا کہ کئی دھرنے ہوئے لیکن حکومت نہیں گئی طاہر القادری نے پی پی کیخلاف دھرنا دیا۔ عمران خان نے ن لیگ کی حکومت کیخلاف دھرنا دیا اور یہ دھرنا طویل ترین تھا لیکن کیا ہوا حکومت نہیں گئی۔ فضل الرحمان نے تحریک انصاف کیخلاف لانگ مارچ کیا اور دھرنا دیا حکومت نہیں گئی اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ لانگ مارچ سے حکومت نہیں جانے والی۔