یہاں کسی کی ذات کو زیرِ بحث لانا ہر گز مقصود نہیں تھا، لیکن میاں نواز شریف پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہیں جنہیں یوں نظر انداز کرناممکن نہیں۔ میاں صاحب گزشتہ چالیس برسوں میں وطنِ عزیز کو در پیش ہر بحرانی صورتِ حال کا مرکزی اور مستقل کردار رہے ہیں۔ آج قوم ایک بار پھر گرداب میں ہے اور میاں صاحب اپنے سامنے موجود ہر شے کو تہہ وبالا کرنے پر تلے ہیں۔
اسّی کی دہائی کے کسی پہلے سال اپنے زیرِ تعمیر مکان پر کھڑے جنرل جیلانی لاہوری صنعت کار کے نوجوان بیٹے سے یوں متاثر ہوئے کہ اسے سیاست کے لئے مانگ لیا۔ شہباز شریف مگر خاندان کے کاروباری معاملات کے نگران تھے۔ باپ نے عرض کی کہ بڑا بیٹا حاضر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف اپنی معمولی صلاحیتوں کی بناء پرخاندانی کاروبار کا محض شعبہ تعلقاتِ عامہ دیکھتے تھے۔ اداکاری کا شوق چرایا تو فلمسٹار رنگیلا کے حوالے کر دیا گیا۔ کچھ ہی روز میں معذرت کے ساتھ لوٹادیاگیا۔ کرکٹ کوچ کا بندوبست کیا گیا توجسمانی سستی آڑے آئی۔ پولیس کی وردی پہننے کو جی مچلا تو والدنے جنرل جیلانی سے ہی درخواست کر کے کچھ دن کے لئے آپ کو محکمہ سول ڈیفنس میں سیکٹر کمانڈر لگوادیا۔ کسے خبر تھی کہ پنجاب کے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھنے والا بھولا بھالا، نوجوان آنے والے عشروں میں پاکستانی سیاست کے خدو خال بدل کر رکھ دے گا۔
شجاع نواز کے مطابق میاں نواز شریف کا سیاست میں قدم رکھنا پاکستان میں سیاست اور کاروبار کے اختلاط کانقطہ آغاز تھا۔ حسن عباس کے مطابق نوجوان نواز شریف سرکاری میٹنگز کے دوران کسی ایک نکتے پرزیادہ دیر توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ عابدہ حسین، اکبر بگٹی کی جانب سے کوئٹہ میں بلائی گئی اپوزیشن کی ایک میٹنگ کا احوال لکھتی ہیں کہ میاں صاحب اس اہم میٹنگ کے عین درمیان میں اٹھے اور برابر والے کمرے میں بیٹھے ٹیلی فون پر کسی کورفیع صاحب کے گیت گا کر سناتے ہوئے پائے گئے تھے۔ جنرل مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کو کبھی ایک بار بھی اپنے ہاتھ سے لکھتے یا خود سے کچھ پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے فضائی حادثہ کے بعد میاں صاحب نے پہلی بار اپنے جوہر دکھاتے ہوئے حیران کن سرعت کے ساتھ مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔ اس کامیابی کے پسِ پردہ ان کو یقینا ان قوتوں کی مدد حاصل تھی جن کے مہرے کی حیثیت سے میاں صاحب کئی سالوں حکومتوں سے اندر اور باہر ہر سازش کا مرکزی کردار رہے۔ تاہم بعد ازاں میاں صاحب کو وسطی پنجاب کے روایت پسند شہریوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ وہ موچی درازے میں کھڑے ہو کر شستہ مزاج خاتون وزیرِ اعظم کو ناموں سے پکارتے اور خوب داد سمیٹتے۔
سرتاج عزیز لکھتے ہیں کہ یہی وہ وقت تھا جب میاں صاحب پر اعتماد ہوتے چلے گئے اور اس کے نتیجے میں اپنے انتہائی محدود حلقے میں ذاتی انا پر مبنی صوابدیدی فیصلے کرنے کے عادی ہو گئے۔ غیر ملکی سربراہوں سے ادارہ جاتی نہیں، ذاتی اور خفیہ تعلقات کو ترجیح دینے لگے۔ اپنی دوسری باری میں، ملک کے تین اہم ترین عہدے داروں کو یکے بعد دیگرے گھر بھیج کر میاں صاحب نے ثابت کر دیا کہ ملکی نظام کے ہر شعبے میں ان کی جڑیں گہرائی میں اتر چکی تھیں۔ تاہم کچھ عرصہ بعد مشرف کے ہاتھوں ان کی بر طرفی پرعمومی ردّعمل نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی جڑیں عوامی تائید نہیں، بلکہ کرپٹ نظام سے پیوستہ تھیں۔ میاں صاحب کی برطرفی پر آج کی پی ڈی ایم سے ملتے جلتے اتحاد نے مشرف مخالف تحریک شروع کی۔ ایک صبح مگر اتحاد کے سربراہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے تو میاں صاحب جیل سے اپنے خاندان سمیت جدہ کے سرور محل منتقل ہو چکے تھے۔ بعد ازاں خاندان کی درخواست پر مشرف حکومت نے انہیں لندن سفر کی اجازت دی۔ لندن میں قیام کے یہی ماہ و سال تھے جب میاں صاحب نے افراد کے ساتھ ساتھ پورے ادارے سے مخاصمت کی ٹھانی۔ جنرل مشرف کے اقتدار کو زوال آیا تو میاں صاحب بھی واپس لوٹے۔
2013ء کے انتخابات میاں صاحب جیتے تو فوج کے سربراہ نے ماڈل ٹائون میں جا کر ان سے ملاقات کی اور ادارے کے بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد آپ کوئٹہ کینٹ تشریف لائے تو عام روایت سے ہٹ کر چھائونی میں جابجاخیرمقدمی بینرز آویزاں کئے گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ فوج سے بدگمان وزیرِ اعظم کی دلجوئی مقصود ہے۔
اندازہ مگر یہی ہے کہ میاں صاحب کو ابھی کچھ پرانے حساب چکتا کرنے تھے۔ مشرف پر مقدمہ کی آڑ میں اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے چند حواریوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ ایک صحافی پر حملہ ہوا تو میڈیا ہائوس کی آتش فشاں بہتان بازی کے بعد غلیل اور دلیل، جیسی جملے بازی تخلیق کی گئی۔ سلامتی کے اداروں کے ساتھ مل کر ملک کو درپیش خطرات سے نبرد آزما ہونے کے بجائے انہیں عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لیے ایک دوسرے اخباری گروپ کا سہارا لیا گیا۔ ہیجان انگیز دھرنوں، اعصاب شکن عدالتی کارروائیوں، سزائوں، پراسرار علالت، اس کے نتیجے میں لندن روانگی، ایک سال کی خاموشی اور مبیّنہ طور پر حال ہی میں خفیہ سودے بازی کی ناکام کوشش کے بعدوہ اداروں پر سرِ عام حملہ آور ہو گئے۔ کرونا کے وار شدّت پکڑ رہے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستانی معیشت بھی لرزاں ہے۔ سرحد پر مودی غرّا رہا ہے۔ ہمارا گمان مگر یہی ہے کہ باپ بیٹی اپنی بقاء نظام کے انہدام میں ہی دیکھتے ہیں۔ میں کہ ایک عامی، ایک نیم خواندہ متوسط شہری، ایک از کار رفتہ سپاہی، میاں صاحب سے متعلق اُس دن بھی خوش گمان نہیں تھا جب وہ ایک فوجی آمر کے دستِ راست کے طور منتخب وزیرِ اعظم کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے، پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ بن بیٹھے تھے۔ آج جبکہ انسانی حقوق کے علمبردار لبرلز، بائیں بازو کے نام نہاد جمہوریت پسند، اور عشروں پرانے اپنے عزائم میں سلامتی کے اداروں کو رکاوٹ سمجھنے والے علیحدگی پسند، میاں صاحب اور ان کی بیٹی سے تمام تر امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں، میں باپ بیٹی کی لچھے دار باتوں کو اب بھی منافقت پر مبنی چالبازی ہی سمجھتا ہوں۔ مجھے کل کی طرح آج بھی یقین ہے کہ باپ بیٹی کو راستہ مل جائے توہمارے مولانااگلی صبح مرحوم نوابزادہ نصراللہ کی طرح آنکھیں ملتے ہوئے ہڑبڑا کر اٹھیں گے۔
ڈیگومیراڈونا کے گول آف دی سنچری، پر وکٹر ہیوگو کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی کمنٹری کو کروڑوں بار سنا جاچکاہے۔ عظیم کھلاڑی کی دس سیکنڈز پر محیط جادوگری پر فی ا لبدیہہ بولے گئے یہ الفاظ امر ہوچکے ہیں، میراڈونا، تم کہکشاں کے کس ستارے سے ہمارے پاس اترے تھے!، حال ہی میں اس کمنٹری کوسن کربے اختیار مجھے اپنے نواز شریف یاد آگئے۔ یا یوں کہئے کہ ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز کو درپیش ایک اور ہیجانی صورت حال کے مرکز میں ایک بار پھر نواز شریف کو دیکھ کر مجھے وکٹر ہیوگو یاد آگئے۔ اے نواز شریف، تم کہکشاں کے کس ستارے سے ہمارے پاس اُترے تھے!،