امریکی انخلاء میں حالیہ غیر معمولی تیزی کے نتیجے میں طالبان بھی ہر دن بدلتی صورت حال کے پیشِ نظر اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ضلع در ضلع فتوحات کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین مذاکرات بھی جاری ہیں۔ ماضی کے برعکس اس بار طالبان نے اپنی کارروائیاں بڑے شہروں پر سامنے سے حملہ آور ہونے کی بجائے آبادیوں سے پہلو بچاتے ہوئے مختلف شاہراہوں اور ان آ بادیوں کو ملانے والی چھوٹی بڑی سڑکوں کو کاٹنے اور دور پار چوکیوں پر قبضہ تک محدود رکھی ہیں۔ تاہم بگرام بیس خالی کئے جانے کے فوراََ بعدطالبان نے شمال میں تاجک سرحد کے ساتھ واقع اضلاع اور سرحدی چوکیوں پر قبضے کے بعداپنا رخ ملک کی جنوبی سرحدوں کی طرف موڑا۔ قندھار بیس خالی کئے جانے کے بعد طالبان شہر سے چند میل دور پنج وائی ضلع پر قابض ہو چکے ہیں۔ افغانستان کا دوسرا بڑا شہراب طالبان کے محاصرے میں ہے۔ آنے والے دنوں میں طالبان اگر پاک افغان سرحدی چوکیوں کو قبضے میں لے لیتے ہیں تو بڑے شہروں کے محاصرے کے علاوہ ملک کا سرحدی کنٹرول بھی ان کے پاس آجائے گا۔ دوسری طرف بتایا جاتا ہے کہ کابل سرکار اپنی عسکری افرادی قوت اور اثاثہ جات کو دور دراز چوکیوں کے دفاع میں جھونکنے کی بجائے کابل میں مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔ کابل پر سرکاری فوجوں کی عمل داری کی صورت میں ہی وہاں پر موجود حکمران دنیا کے سامنے اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے معاملے میں فریق (stake holder)ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان بھی جانتے ہیں کہ کابل پر قبضہ ماضی کے بر عکس اس بار آسانی سے ممکن نہیں، لہذٰا ا مکان یہی ہے کہ سرحدی اور شہری محاصروں کے ذریعے طالبان حکومت کو زچ کئے رکھیں گے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ملک ایک بار پھر90 کی دہائی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ماضی کی طرح نسلی اور مسلکی بنیادوں پر علاقائی گروہ بندیوں proxy wars کے دَور کا آغاز دُور نہیں۔ خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین افغانستان کوایک بڑی خانہ جنگی کا شکار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان افغانستان میں داخلی خون ریزی کے نتیجے میں خود کو لاحق خطرات سے آگا ہ ہے۔ چنانچہ تمام تر بیان بازی کے باوجود اس موقع کو پاک امریکہ تعلقات کو تذویراتی گہرائی میں بدلے جانے کی خواہش ہمارے پالیسی سازوں کے دلوں میں اب بھی موجود ہے۔ ایک حالیہ اہم بریفنگ میں طاقتور حلقوں کی جانب سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا گیا تو تمام حاضرین نے اس کی دل کھول کر تائید کی۔ دوسری طرف پچھلی صدی کے بر عکس، امریکہ کا ہدف قدیم شاہراہ ریشم سے ابھرنے والاسوشلزم نہیں بلکہ چین اور ایران ہیں۔ پاکستان ان دونوں میں سے کسی ایک کے خلاف امریکی اتحادی بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ صدر اوبامہ کے اقتدار سنبھالتے ہی جب افغانستان میں مزید دستوں کی تعنیاتی کے باب میں امریکی سویلین عہدیداروں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شدید کشمکش جاری تھی تو بطور نائب صدر جو بائیڈن نے الگ سےکائونٹر انسرجنسی پلس، نامی منفرد نظریہ پیش کیا تھا۔ جس کے ایک پہلو کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوجی دستوں کے ذریعے افغانستان کی سرحد القائدہ عناصر کے لئے ناقابلِ عبور بناتے ہوئے پاکستان کے اندر تنظیم کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاناتھا۔ اب جب کہ جو بائیڈن صدر ہیں، تو خوش قسمتی سے امریکی سمجھتے ہیں کہ القائدہ کمزور ہوکر مغرب کی حد تک اپنی خطرناک حیثیت کھو چکی ہے۔ چنانچہ امریکی اب براہِ راست افغانستان میں موجود رہنے کی بجائے، بقول صدر بائیڈن over the horizon پالیسی میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ اس باب میں انہیں پاکستان سے تعاون درکار ہے۔ امریکی صدر کا وزیر اعظم پاکستان سے بے اعتنائی پر مبنی رویہ پاک امریکی تعلقات میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس کڑے وقت میں امریکی صدر کسی اور کو نہیں براہِ راست عمران خان کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بظاہر طالبان کسی بھی بڑی سطح کے مذاکرات کسی بھی پیشگی شرط کے ساتھ شروع کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق بھی کسی سوال پر بات کرنے کو آمادہ نظر نہیں آتے۔ تاہم طالبان یہ بھی جانتے ہیں کہ مذاکرات کے بغیر محض خون ریزی کے نتیجے میں قائم ہونے والے حکومت کا قیام اور دوام اندریں حالات ممکن نہیں۔ یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ طالبان ماضی میں اپنی عالمی تنہائی کے نتائج کو بھی نہیں بھولے۔ چنانچہ طالبان کی ماضی کی نسبت زیادہ جہاندیدہ قیادت، قطر اور ترکی مذاکرات میں خود کو ایک فریق تسلیم کئے جانے کے نتیجے میں ملنے والی عالمی قبولیت، (legitimacy)کو کھونا نہیں چاہتی۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ اپنی حالیہ فتوحات کے دوران طالبان نے ماضی کے برعکس اس بار کئے گئے، معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی حالیہ کاروائیوں کے دوران کسی ایک غیر ملکی پر بھی حملہ نہیں کیا۔ اندازہ یہی ہے کہ ترکی میں طے شدہ مذاکرات سے انکار بھی مجوزہ امریکی انخلاء کے پیش نظر کچھ وقت کے حصول کے لئے تھا۔ اس وقت کو طالبان نے خوب استعمال کیا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں جب طالبانقیادت ایران میں افغان حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات میں مصروف تھی توجہاں یقینا وہ اس عمل میں ایک پر اعتماد فریق کی حیثیت سے شامل رہی ہو گی، وہیں اس پر اعتمادی کے باوجود مذاکرات کے بعد طالبان کی طرف سے ایک ماہ کے اندر امن کی جانب پیش قدمی کے لئے ایک منصوبہ پیش کرنے کا عندیہ دیا جانا، معنی خیز ہے۔
پوری دنیا کے ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیا ںproxies کو اپنے قومی مفادات کی نگہبانی کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ہمارے بد قسمت پڑوس میں چھوٹے بڑے ممالک نے گذشتہ چار عشروں سے مذہب، مسلک اور سیاسی نظریات کے نام پر اور بعد ازاں تیل اور گیس پائپ لائنوں سے منسلک معاشی مفادات کے حصول کی خاطر جس بے دردی سے اپنے اپنے حمایت یافتہ جتھوں کو اس لا متناہی جنگ میں جھونکے رکھا ہے، تاریخ اقوامِ عالم میں ایک محدود خطے میں محدود عرصے کے اندر اس درجہ بے رحمی کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اس باب میں خود افغانستان میں آباد نسلی اور لسانی گروہ بھی اپنے ملک کی تباہی سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ اس تباہی کے نتیجے میں ہی بتایا جاتا ہے کہ نصف سے زائد افغانیوں کے جسموں پر زخم کا کوئی ایک نشان موجودہے۔ ایک تہائی کے قریب جسمانی اعضاء سے محروم ہیں۔ دل و جان کس قدر گھائل ہیں، اس امرکا اندازہ ممکن نہیں۔ طالبان کی حالیہ کامیابیوں پر پاکستان میں بغلیں بجانے والوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں خود ہمیں ایک بار پھر لاتعداد مہاجرین کا سامنا ہو گا، جنہیں ایران کی طرز پر سرحدی کیمپوں تک محدود رکھنا اسی قدر دشوار ہو گا، جس طرح پاکستان کے اند ر ایک بار پھر پھوٹ پڑنے والی انتہا پسندی پر قابو پانا۔