میں ایک از کارِ رفتہ سپاہی، متوسط طبقے کا عام پاکستانی ہوں۔ میں عمران خان کی حمایت کرتا ہوں۔ کیا میں شخصیت پرست ہوں؟ کیا میں جمہوریت اور اس کے لوازمات سے بے بہرہ ہوں؟ یا کہ میں عمران خان کا محض ایک کرکٹ فین ہوں؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ عمران خان اپنی دلکش شخصیت کے باوجود کبھی بھی میرے پسندیدہ ترین کھلاڑیوں میں شامل نہیں رہے۔ میں تو وسیم راجہ بننا چاہتا تھا کہ انہی کی تقلید میں لیفٹی، نہ ہونے کے باوجود میں آج بھی بائیں ہاتھ سے ہی بلّے بازی کرتا ہوں۔ فوج میں شمولیت اختیار کی تو کرکٹ کا شمار ان دنوں آرمی کے آفیشیل کھیلوں میں نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ کرکٹ کی بجائے میری توجہ دیگر کھیلوں کی طرف مبذول ہو تی چلی گئی۔ میرے اولین کرکٹ ہیروزیکے بعد دیگرے ریٹائر ہوتے چلے گئے مگر عمران خان ایک عظیم کھلاڑی کی حیثیت سے 1992ء کے ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی قومی ٹیم کے کپتان کے طور پر موجود تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ میری نظر میں وہ ایک کرشماتی اور میچ وننگ کرکٹر کا درجہ کھو چکے تھے۔ میں آج بھی نصرت فتح علی خان کی سحر انگیز قوالیوں کے علاوہ عمران خان کی ورلڈ کپ میں ذاتی کارکردگی کو معجزانہ فتح کی بنیادی وجوہات نہیں سمجھتا۔ عمران خان کی وکٹری سپیچ نے تو مجھے بے حد مایوس کیا تھا۔
مجھے عمران خان کی شوکت خانم ہسپتال کے لئے چلا ئی جانے والی مہم سے بھی کبھی خاطر خواہ دلچسپی نہیں رہی۔ ایک روزہمیں پتا چلا کہ عمران خان نے تحریکِ انصاف کے نام سے سیاسی پارٹی قائم کر لی ہے توبیشتر پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی اس خبر کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملک پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں بٹا ہوا تھا۔ نواز شریف کئی ایک قومی اداروں کے سربراہوں کو گھر بھیج کر سسٹم میں اپنے پنجے پوری طرح گاڑ چکے تھے۔ بے نظیر مایوس ہو کر بیرونِ ملک جا چکی تھیں۔ طاقت کے مراکز میں دور دور تک شریف فیملی کا کوئی حریف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مہنگائی، معاشی بدحالی، اقربا پروری، کرپشن اور اداروں سے کشمکش جیسے کئی عوامل مگر ملک کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کررہے تھے۔ آخری مہینوں میں حکومت عوامی تائید پر نہیں، مافیا ہتھکنڈوں کے بل بوتے پرکھڑی تھی۔
مشرف نے غیر مقبول حکومت کو گھر بھیجا توپوری قوم خوشی سے جھوم اٹھی۔ نظیر بھٹو سمیت اہم سیاسی رہنمائوں نے فوجی بغاوت کا خیر مقدم کیا۔ بے نظیر کے اہداف تو ذاتی تھے، جن کا حصول جب ممکن ہوتا نظر نہ آیا تو لندن میں اسی نواز شریف کے ساتھ دوبارہ جا بیٹھیں۔ تاہم عمران خان ہم جیسوں کی طرح مشرف سے بے لاگ احتساب کی امید لگا بیٹھے تھے اور بری طرح مایوس ہوئے۔ فوجی حکمران جب جمہوریت کا لبادہ اوڑتے ہیں تو ان کے زوال کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب پاک فوج قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے اتر چکی تھی اور قوم اپنی اور پرائی جنگ کے سوال پر ایک بار پھربری طرح تقسیم تھی۔ الیکٹرانک میڈیا پھل پھول رہا تھا۔ چند اوسط درجے کے صحافی جو ٹی وی سکرینوں سے راتوں رات میڈیا سٹارز، بن چکے تھے، دہشت گردی سے نبرد آزما پاک فوج ان کا خاص ہدف رہتی۔ عمران خان ایک مخصوص اینکرپرسن کے پروگرام میں اکثر دیکھے جاتے۔ موصوف اینکر پرسن کو تو پاک فوج سے نفرت ورثے میں ملی تھے، تا ہم عمران خان کی گفتگو ہمارے لئے بیزاری کا سبب بنتی۔
سال 2008ء میں نواز شریف پاکستان واپس لوٹے تو پاک فوج سے سنحت ناراض تھے۔ انتخابات ہوئے تو زرداری کی حکومت قائم ہو گئی۔ زرداری صاحب کے دورِ اقتدار میں ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی داستانیں زبان زدِ عام تھیں۔ شہباز شریف نے اگرچہ زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی خواہش کا ایک آدھ بار اظہار کیا، بڑے میاں صاحب نے مگر بوجہ اکثر چپ ہی سادھے رکھی۔ جو کام فوجی آمر عشروں میں نہیں کر سکے تھے، زرداری صاحب نے اپنے پانچ سالوں میں بخوبی انجام د یتے ہوئے پنجاب سے پیپلز پارٹی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔ اکتوبر 2011ء میں عمران خان نے مینار پاکستان کے سائے میں جلسہ رکھا تو لاکھوں کی تعداد میں تعلیم یافتہ مڈل کلاس لاہور یوں کا سیلاب امنڈ آیا۔ عمران خان تبدیلی کا خواب دیکھنے والے پاکستانیوں کی امید بن کر سامنے آچکے تھے۔ سال 2013ء کے انتخابات میں مجھ جیسے کئی تھے جو خود چل کر کوریئر کمپنی کے دفترپہنچے اوردور دراز علاقوں سے عمران خان کو ووٹ ڈالا۔
میاں صاحب اقتدار میں واپس لوٹے توپاک فوج سے بیزاری ان کے چہرے پرہمہ وقت عیاں رہتی۔ وزیر اعظم بن کر خود تو زیادہ نہ بولتے مگر مشرف کے خلاف مقدمہ بازی اور کئی دیگر معاملات کی آڑ لے کرچند منہ پھٹ حکومتی وزراء عسکری اداروں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ دو بڑے میڈیا ہائوسز حکومت کی پشت پر کھڑے تھے۔ ایک صحافی پر کراچی میں حملہ ہوا تو عسکری اداروں کو کھلم کھلا نشانے پر رکھ لیا گیا۔ پاکستان کی معیشت زمین بوس ہو چکی تھی تاہم حکومت کی تمام تر توجہ اداروں کو زچ کرنے پر مرکوز تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ا ن پُر آشوب دور میں رینکس اینڈ فائلز کے اندر ہر سطح پر غم و غصہ اور بے چینی کاعمومی احساس پایا جاتا تھا۔ چیف کوئی بھی ہوتا، اندرونی دبائو سے لاتعلقی ممکن نہ تھی۔ سال2014ء کے دھرنے نے میاں صاحب کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ پانی ناک تک پہنچا تو تنکوں کا سہارا ڈھونڈتے نظر آئے۔ دھرناختم توہو گیا مگر وزیرِ اعظم ہائوس میں کارفرما میڈیا سیل کے ذریعے اداروں کے خلاف بُنی جانے والی بھونڈی سازشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ اس اعصاب شکن دور میں ہی با لآخر ایک دن آسمان سے پاناما نازل ہوگیا۔ اس کے بعد سب تاریخ ہے۔
اب یہاں مجھے یہ اعتراف کرنا ہے کہ عمران خان کا حمایتی ہونے کے باوجود میں اُن کی شخصیت کے سحر میں کبھی بھی گرفتار نہیں رہا۔ میں نے انہیں اپنا رہبر ورہنماء پچاس لاکھ گھروں اورپانچ کروڑوں نوکریوں کی امید سے بھی نہیں چنا تھا۔ میں وباء کے عالمی موسم میں حکومت کو درپیش معاشی مجبوریوں سے آگا ہ ہو ں مگر حکومتی کارکردگی، بالخصوص پنجاب کے بندوبست سے بھی سخت بیزار ہوں۔ مجھے عمران خان سے درجنوں دیگر شکایات بھی ہیں۔ اس سب کے باوجود مگر میں اب بھی یہی چاہتا ہوں کہ ان کی حکومت قائم رہے۔ ان کی حکومت قائم رہے تو میں مہنگائی کے غضبناک جھٹکے بھی سہنے کو تیا ر ہوں۔ میں پاکستان کی تباہی کے عشرے میں مگر ہر گزواپس لوٹنا نہیں چاہتا۔ میرے اس اعترافی بیان کو آپ چاہیں تو ایک از کارِ رفتہ سپاہی اورایک مڈل کلاس پاکستانی کا المیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔