کمیونزم کی پسپائی اور سوویت خطرہ تحلیل ہو جانے کے باوجودنیٹو اتحاد قائم اور150000امریکی فوجیوں کی یورپ میں تعیناتی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تیسری عالمی جنگ کے بادل چھٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعدامریکہ کی جانب سے روس سمیت سوویت یونین سے آزادی پانے والی ریاستوں کے لئے مختص امریکی امداد کو ان ممالک میں مغربی جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے فروغ سے منسلک کر دیا گیا۔ نوّے کے عشرے کے دوران ریاست ہائے امریکہ نے دنیا کو اپنے طرز کی جمہوریت، کے ذریعے بدلنے کا باقاعدہ فیصلہ کر لیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ نے جمہوریت، انسانی حقوق اور دیگر آزادیوں کے فروغ کے نام پر دنیاکوکس حد تک بدلا ہے؟ کیا جمہوریت اور آمریت کے نام پر دیگر ملکوں سے امریکہ کا رویہ مبنی بر انصاف رہا ہے؟ امریکہ نے جن آمرانہ حکومتوں، کا تختہ پلٹا، کیا ان ممالک کے عوام پہلے سے بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا عراق میں امریکی مداخلت کے بعد برباد ملک کے عوام آج آمرانہ دور سے بہتر حالت میں جیتے ہیں؟ آمروں کو ہٹا کر عوام کو آزادی عطا کرنے کی خاطر ہی عراق کے بعد شام اور لیبیا کی باری آئی۔ حالیہ تاریخ میں ایک قدیم و آباد خطے کوامن، جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے فروغ کے نام پریو ں بے دردی سے برباد کئے جانے کی کیا کوئی اس سے بڑی مثال ملتی ہے؟ ایرانی عوام کی زندگیوں کو جو اجیرن کیا گیا ہے کیا یہ اُن انسانی اقدار سے میل کھاتا ہے جن کا پرچارمغرب کرتا ہے؟
اربوں ڈالرز افغانستان میں جھونکے گئے۔ نوے کے عشرے میں امریکی آئل کمپنی کی افغانستان کے راستے پائپ لائن اجارہ داری کی جب تک امید قائم رہی، طالبان کے رو یے بھی قابلِ برداشت رہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کی امیددم توڑنے لگی تو ہی افغانستان میں عورتوں سے برے سلوک پر اعتراضات بھی اٹھنے لگے۔ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول کے لئے پاکستان کے تعاون کی ضرورت پیش آئی تو ماضی کے فوجی آمروں کی طرح جنرل مشرف کی قریبی حلیف مان لیا گیا۔
سال 2004ء تک جب خطے میں امریکی اہداف کے راستے میں پاکستان کے سلامتی کے اداروں کی انڈیا پر مرکوز، سوچ آڑے آنے لگی تو پاکستانی عوام کی Perception Management کے لئے 1.5بلین ڈالرز سالانہ مختص کئے گئے۔ سال2006ء میں بھارتی ایماء پر ایک مربوط عالمی نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے اس نیٹ ورک کاحدف پاکستان کو سویلین بالادستی کے فقدان، میڈیا پر پابندیوں، اقلیتوں اور عورتوں پر زیادتیوں کے حوالوں سے دبائو میں لانا تھا۔ راتوں رات اب یہی کام افغانستان سے متعلق شروع کر دیا گیا ہے، جہاں لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ بھوک اور افلاس کے مارے افغانیوں کی امداد کو جمہوری حکومت کے قیام، عورتوں سے سلوک اور مغربی طرز کی آزادیوں سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اس بدقسمت ملک میں عظیم انسانی المیہ جنم لیتا ہے تو مغرب کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
امریکہ نے پاکستان کی مدد سے چین کے ساتھ روابط استوار کئے تھے۔ کئی عشروں بعدا مریکی صدر بش سینئر نے بھی چین کے ساتھ کھلی تجارت کے فروغ کا فیصلہ کیا تھا۔ خیال تھا کہ چین میں آزاد معاشی ادارے ترقی کریں گے تووہاں ایک دن امریکی اقدار پر مبنی معاشرہ قائم ہو جائے گی۔ خود پسندی کی اس قدر احمقانہ مثال تہذیبوں کے عروج و زوال کی تاریخ میں سے ڈھونڈنا مشکل ہے۔ بعد ازاں اس نظریئے سے ہٹتے ہوئے مخاصمانہ پالیسی کو اختیار کیا گیا۔ چین کو خطے میں محدود کرنے کے لئے سال 1999ء میں بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک الائنس پر کام کا آغاز کیا گیا۔ آج کل کئی دیگر مغربی اورپیسفک ممالک سے مل کر نت نئے چین مخالف اتحاد بنائے جا رہے ہیں۔
چین کا اثرو رسوخ کس حد تک محدود ہوا، اس سوال پر بحث الگ ہے، کیا مودی کا ہندوستان جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور مذہبی رواداری کے باب میں سال 1999ء کے بھارت سے بہتر ہے؟ مغربی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق جمہوریت بھارت میں زوال پذیر ہے۔ مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران خود صدر بائیڈن کو گاندھی جی کے افکارکا تذکرہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ بات طے ہے کہ امریکہ خطے میں چین کے اثر ورسوخ کو محدود کرنے کے لئے بھارت کی ہر طرح سے پشت پناہی کرتا رہے گا۔
صدر بائیڈن کا صدر ٹرمپ کی چین سے محاذآرائی کو اگلے درجے پر لے کر جانا اس امر کا اظہار ہے کہ چین سے دشمنی اب امریکی قومی پالیسی کا حصہ ہے۔ امریکہ چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے اقدامات کرتا رہے گا۔ سفارتی، معاشی اور جدید ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ناکامی کے بعد یہ کام اب وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کے نام پر کررہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ خود مختار ریاستوں کے جمہوری ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے صادر کرے، اور امریکی مفادات پر مبنی یکطرفہ فیصلوں میں اپنے زیرِ اثر ممالک کو بھی شامل ہونے پر مجبور کرے۔ حال ہی میں امریکہ اور اس کے زیرِ اثر مغربی ممالک کی جانے سے چین میں سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ اور صدر بائیڈن کی طرف سے بلایا گیا ایک سو جمہوری ممالک، کا سمٹ دنیا کو ایک بار پھر تقسیم کرنے کی برہنہ کوششوں کے سوا کچھ نہیں۔
روزِ اول سے ہمارے ہاں اقتدار کے حصول اور دوام کے لئے امریکی حمایت ضروری سمجھی جاتی رہی ہے۔ لندن میں مقیم سابق وزیرِ اعظم اُس وقت صدر کلنٹن کے قریب ہوئے جب امریکہ بھارت تزویراتی اتحا دکے لئے اقداما ت ہو رہے تھے۔ لندن میں ان کی میل ملاقاتیں اور صاحبزادی کے چند ٹویٹس اب بھی بلا مقصد نہیں ہیں۔ زرداری صاحب اگرچہ اپنے دورِصدارت میں امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان افغان سرحد پر تنائو کی بناء پر امریکہ کے لئے کچھ خاص خدمات سر انجام نہ دے سکے اور میمو گیٹ وغیرہ جیسے معاملات میں الجھ کر رہ گئے تھے، اگلی نسل کے لئے امریکی خوشنودی کا حصول ضرور اُن کے پیشِ نظرہوگا۔ اس کے برعکس عمران خان کو صدر بائیڈن کی ٹیلی فون کال تک نہ آنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ درونِ خانہ سب جانتے ہیں کہ فون کال سے لے کر کیمپ ڈیوڈ میں لنچ تک امریکی کچھ مفت میں نہیں دیتے۔
پاکستان نے امریکی صدر کے جمہوری سمٹ، سے دور رہ کر ایک مشکل فیصلہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ درمیانے درجے کی یورپی طاقتیں بھی امریکہ سے براہِ راست محاذ آرائی سے گریز کرتی ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے لئے یقیناََ اس فیصلے کے نتائج ہوں گے۔ معاشی مشکلات اپنی جگہ، پاکستان پر جمہوریت، انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے باب میں بھی دبائوبڑھے گا۔ پاکستانی قیادت کو آنے والے دنوں میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔