تحریکِ پاکستان نے زور پکڑا تو اشتراکیت پر مائل نہرو کے متعدد بیانات پر مسلمان جاگیر دار متفکر ہوئے اورتحریک کے آخری برسوں میں کچھ عوامی دبائو کے تحت تو کچھ ذاتی مفادات کی خاطر جوق در جوق مسلم لیگ کا حصہ بننے لگے۔ نئی ریاست وجود پذیر ہو ئی توسیاسی اشرافیہ چند بڑے جاگیر دار خاندانوں پر مشتمل تھی۔ بطور گورنر جنرل قائد اعظم کی مایوسی کی جہاں ایک وجہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی نااہلی اور اقرباء پروری تھی تو دوسری طرف روایتی جاگیر دارسیاستدانوں کا گروہی مفادات کے تحفظ کی خاطر باہم گٹھ جوڑ بھی آخری ایام میں آپ کے آزردہ خاطر رہنے کی وجہ بنا۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں کے مطالبات کے باوجود، یو پی کے مہاجر وزیر اعظم ابتدائی برسوں میں انتخابات کے انعقاد سے گریزاں رہے تو انہی جاگیر دار خاندانوں کا گٹھ جوڑ پیشِ نظر تھا۔
ساتھ پڑوس میں وزیرِاعظم نہرو اپنے ایجنڈے پر کامیابی سے عمل پیرا تھے۔ نوابوں، مہاراجوں اور جاگیرداروں کی جاگیریں اصلاحات کی نذر ہو گئیں تو وہیں ذہین سویلین قیادت نے طاقتور فوج کواس کے پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رکھا۔ جنرل ایوب نے اقتدار سنبھالا تو لینڈ ریفارمز کا ڈول ڈالا مگر نوابوں، خانوں، وڈیروں اور سرداروں کے سامنے بے بس نظر آئے۔ ستر کے عشرے میں حالات نے پلٹا کھایا تو بھٹو صاحب کہ خود ایک فیوڈل تھے، اسلامی ہی سہی مگر سوشلزم کا نعرہ لے کر مزدوروں، کسانوں اور ہاریوں کے کاندھوں پر سوار آندھی بن کر مغربی پاکستان میں اُٹھے۔ حکومت ملی تو سرمایہ داروں سے کارخانے چھین لئے، بینکاروں کے بینک قومیا لئے، جاگیرداروں کی جاگیریں مگرہاریوں میں حسبِ وعدہ تقسیم نہ کر سکے۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا توبھٹو صاحب کے زیرِ عتاب سرمایہ داروں کی بن آئی۔ پنجاب کے چوہدری، سندھ کے وڈیرے، حتی کہ سرحد و بلوچستا ن کے کئی سردار، نواب اور خوانین بھی عام معافی تلافی پا کرانتخابات سے پہلے بھٹو صاحب کے احتساب کے لئے یک زبان ہو گئے۔ جنرل ضیاء سے جان چھڑانا مشکل ہوا تو وہی سب جنہوں نے مارشل لاء کے نفاذ پر آنکھیں موند لی تھیں اب انہیں جمہوریت کی یاد ستانے لگی۔
دیہی سندھ میں تحریک اٹھی تو لینڈ لارڈ سیاسی خاندانوں اور بائیں بازو سے وابستہ جمہوریت پسند سیاستدانوں سے اکتا کر فوجی حکمرانوں نے پنجاب سے ایک روایت پرست غیر سیاسی خاندان کو سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا۔ بہاولپور حادثے کے بعد ملک میں جمہوریت بحال ہوئی توبے نظیر اقتدار میں آگئیں۔ بھٹو خاندان سے بد گمانی مگر ادارے کی یادداشت میں گھل چکی تھی۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کا دستِ شفقت شریف خاندان کے سر پر ہی رہا۔
ایک زمانہ تھا جب دائیں بائیں بازو کی کٹر مذہبی اور خالص سیکولر متحارب پارٹیاں اپنے اپنے نظریاتی اختلافات بالائے طا ق رکھتے ہوئے قوم پرست گروہوں کے ساتھ مل کرمحض بغض بھٹو میں ضیاء الحق کے گرد جمع ہو گئی تھیں۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ چالیس سال بعد ایک بار پھر انہی کرداروں کی اگلی نسلیں اُسی فوجی آمر کی پیداوار تاجر خاندان سے تمام تر امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ اتنا ضرور ہوا کہ گزرتے برسوں کے ساتھ دائیں بائیں بازو کی تمیز معدوم ہو گئی ہے۔ افغانستان کے اندر عورتوں کی حالتِ زار کا سوچ سوچ کر گھر بیٹھے آبدیدہ ہوتے رہتے ہیں۔ اسی گریہ زاری کو سن کر فاطمہ بھٹو نے پوچھا ہے کہ کیا طالبان کے آنے سے پہلے اشرف غنی کی حکومت میں افغانستان عورتوں کے لئے زمین پر جنت کا ٹکڑا تھا؟ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کل ہی یاد آیا ہے کہ اشرف غنی ایک کرپٹ شخص تھا۔ پوچھا گیا تو بولے، اس کا رہن سہن غیر معمولی ہے،۔ کئی سال مگرامریکی اسی اشرف غنی کی پشت پر کھڑے رہے۔ جس طرح اشرف غنی کی بودو باش سے ڈونلڈ ٹرمپ نے مدتوں آنکھیں بند کئے رکھیں، امریکیوں کو فی الحال لندن کی خیرہ کن جائیدادوں سے بھی کوئی مسئلہ در پیش نظر نہیں آتا۔ طاقتور مغربی ممالک، مودی کے ہندوستان، قائدِ اعظم کے پاکستان سے نفرت کرنے والے قوم پرست گروہوں اورمغرب زدہ لبرلز کی تمام تر امیدیں اب بھی اُسی آسودہ حال خاندان سے وابستہ ہیں، طاقتور قومی فوج سے جو خوفزدہ ہے۔
امریکیوں نے پوچھا، پاکستانی ہم سے اس قدر نفرت کیوں کرتے ہیں؟ سال 2004ء میں جان کیری نے 1.5بلین ڈالرکی خطیر رقم سے پاکستانی قوم کیلئے Perception Management نامی پراجیکٹ کا آغاز کیا تھا۔ قبائلی علاقوں سے نوجوانوں کو مغربی دارالحکومتوں میں لے جانے کے خفیہ پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔ آج کل انہی سبز چرا گاہوں کے خواب افغانی ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر افرادکو دکھائے جا رہے ہیں، امریکی جہازوں کے پروں سے لٹکے کابل کے رن وے پر پھسل پھسل کر جو جانیں دے رہے ہیں۔ سال 2006ء میں ہی انڈین کرانیکلزکی داغ بیل ڈالی گئی۔ مخصوص میڈیا کارندوں اور مغربی این جی اوز کے مشترکہ اہداف مقرر ہوئے۔ طویل المدت ہدف تو ہر ایک کے مختلف ہیں، سامنے کا مقصد مگر مشترک ہے۔ سیاست، میڈیا اورسوشل میڈیا میں متحرک اس منظم نیٹ ورک کے ارکان افغان نیشنل آرمی کے انجام پر شب وروز ماتم کناں ہیں۔ اپنے ملک میں مستحکم پاک فوج کا وجود انہیں مگر کھٹکتا ہے۔
ایک صاحب کہ کچھ سال پیشتر جنہوں نے جسٹس افتخار چوہدری کے خاص صحافتی ہرکارے کی شہرت پائی تھی، آج کل خود کوکورٹ صحافیوں کا رنگ لیڈر بتلاتے ہیں۔ اوروں کے ساتھ مل کر ایک صبح عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست پیش کی۔ درخواست کو فوری طور پر منظور کیا گیا اور نوٹسز جاری ہو گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج، فوج کے جرنیل، چار پانچ عشروں پر محیط پیشہ وارانہ تجربہ جن نامور صحافیوں اور وکلاء کی پشت پر ہو، وہ ایکٹیوسٹ، نہیں، پروفیشنلز، کہلاتے ہیں۔ کسی بھی پروفیشنل کی زندگی میں self-actualizationایک ایسا مقام اور مرتبہ ہے کہ جہاں پہنچ کر دبنگ رویے نہیں، رویوں میں توازن، تدبر اور وقار اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔ پیشِ نظر رہے کہ سال 1998ء میں بھی یہی خاندان تھا کہ جس نے سپریم کورٹ کو دو حصوں میں بے رحمی سے کاٹ ڈالا تھا۔