چھٹی کا تصور لڑکپن سے مخصوص ہے۔ مجھے کچھ کچھ یاد ہے کہ جمعہ کے دن آدھی چُھٹی ساری ہوتی تھی تو سکول سے گھر کے سارے راستے گونجتے تھے۔"آدھی چھٹی ساری " میاں مکھی ماری۔
آدھی چھٹی کا مزا پوری چھٹی سے بھی بڑھ جاتا تھا۔
چھٹیاں چھوٹوں کی طرح مزے میں بڑوں سے بھی بڑھ جاتی ہیں جو چھٹیاں سرکاری ہوتی ہیں وہ تو ہوتی ہی ہیں، وہ جو غیر سرکاری ہوتی ہیں ان کا لُطف کچھ اور ہوتا ہے۔ اب ہفتے کی چُھٹی کا لطف اتوار سے بھی زیادہ لگتا ہے۔ میں نے جو اتنے دن کالم کی غیر حاضری کی ہے جو میری فطری مجبوری بھی تھی کہ میں پورا کالم لکھ نہ سکا۔ میں کچھ اس طرح بیمار پڑا کہ بیمار لگتا بھی نہ تھا۔ ایک جملہ یہ لکھا کہ بیماری اور صحت مندی کے درمیان کالم نہیں لکھا جا سکتا۔ کالم نگاری کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ یہ کسی صورت میں بھی لکھا جا سکتا ہے مگر بہت چھوٹی چھوٹی وجوہات ہیں کہ کالم لکھا جا سکتا ہے اور نہیں بھی لکھا جا سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اب سے کچھ عرصہ بعد اُردو میں صرف کالم نگاری ہے جو آگے بڑھے گی اور کالم نگاری پر کتابیں نظر آئیں گی۔ اب بھی شاعری پر کتابیں دکھائی دیتی ہیں اور کالم نگاری میں ہر نوجوان شاعری سے اپنی تخلیقی سرگرمی کا آغاز کرتا ہے۔ شاعری ہوتی ہے یا کالم نگاری۔ کالم آسانی سے چھپ جاتا ہے کیونکہ یہ اخبار میں زیادہ تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔ آدمی آسانی سے ہر موضوع پر غزل نظم یا افسانہ نہیں لکھ سکتا۔ جبکہ شاعری ہو سکتی ہے موضوع ہو یا نہ ہو مگر نوجوان لوگ شاعری کر لیتے ہیں اور کالم بھی لکھ لیتے ہیں۔
یہ جملہ مذاقاً لکھ رہا ہوں کہ کالم اور شاعری کے لئے موضوع کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ?بات چاہے کوئی بھی ہو شاعری بھی ہو جاتی ہے اور کالم بھی لکھا جا سکتا ہے۔ مجھے بار بار اپنا یہ جملہ دہرانا پڑتا ہے کہ کالم نگاری سالم نگاری ہے۔ ایک وقت آ سکتا ہے کہ کالم کے علاوہ کہیں کچھ اور نظر نہ آئے۔ اب بھی کم از کم دو صفحے کالموں کے لیے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں کہیں کسی غزل پر بھی نظر پڑ جاتی ہے اور مزا بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح اخبار کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے اور اخبار کا نشہ بھی پورا ہو جاتا ہے۔
یہ بھی کالم کی خوبی ہے کہ یہ بیماری کی حالت میں بھی لکھا جا سکتا ہے اور اردو انگریزی اخبارات میں بھی کالم ہی نظر پڑتے ہیں۔ کوئی اخبار اٹھا کے دیکھ لیں اس میں کالموں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح دوستوں کی تخلیقی خواہش بھی پوری ہوتی ہے اور پڑھنے والوں کی خواہش کی بھی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ خبر اور اخبار کے فاصلے کم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ ایک وقت آنے والا ہے کہ مضموں اور اخبارات میں شائع شدہ تحریروں میں فرق کم سے کم ہو جائے گا۔ بڑے بڑے ادیبوں نے بھی کالم لکھے ہیں اور پتہ نہیں چلتا ہے کہ یہ تحریر کیا ہے۔ یہ ایک بحث طلب نقطہ ہے کہ ہم جو کچھ لکھتے ہیں کیا لکھتے ہیں۔ یہی کالم ہے کہ آئندہ کی صنف سخن ہی کالم ہے۔ حوالے کے طور پر بھی یہ جملہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ایک یہی اسلوب تحریر رہ جائے گا۔
اب بھی کبھی کبھی مثال کے طور پر یہی ایک حوالہ نظر آتا ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ نثر میں جو چیز نظر آئے گی وہ کالم ہی سمجھا جائے گا۔ اب کبھی کسی بڑے ادیب نے بھی کالم کا لفظ اپنی تحریر کے لیے استعمال نہیں کیا۔ جبکہ نثری تحریری کے لیے آج کالم کے لفظ کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔
اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے کالم لکھے، میں نے خود کالم کا لفظ ان کے منہ سے سنا ہے۔ لوگ اپنے افسانوں اور ادبی تحریروں کے لئے کالم کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ کرشن چندر کے مشہور افسانوں کے لیے کالموں کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ میرے تجربے کے مطابق ہر نثری تحریر کے لیے کالم کا لفظ استعمال ہو گا۔
اس کی ایک وجہ اخبارات کا عام ہونا بھی ہے۔ کوئی پڑھا لکھا گھر ایسا نہیں ہے جہاں اخبار نہ پڑھا جاتا ہو۔ اخبار پڑھنا اب ایک فیشن بھی ہے جبکہ ٹیلی وژن نے اخبارات کی کشش کم کر دی ہے مگر اب یہ ایک روٹین کی بات بن گئی ہے کہ کوئی پڑھے یا نہ پڑھے مگر اخبار اس کے ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکا کہ اخبار مذکر ہے یا مونث ہے۔ اس کے لیے آخر میں یہ لطیفہ عرض ہے کہ اخبار اگر عورت کے ہاتھ میں ہو تو وہ مونث ہے اور کسی مرد کے ہاتھ میں ہو تو وہ مذکر ہے۔