کرونا وائرس کی آوازیں ساری دنیا میں میں سنائی دے رہی ہیں۔ اس سے تمام سرگرمیاں جو سیاسی، تہذیبی، معاشی، معاشرتی اور کسی طرح بھی انسانی سرگرمیاں سمجھی جا سکتی ہیں، ختم ہو کے رہ گئی ہیں ہر کوئی کرونا "وائرس" کی بات کر رہا ہے۔
یہ کوئی قیامت کی نشانی تو نہیں ہے، قیامت اور کس طرح کی ہوگی۔ قیامت کی کہانیاں اس طرح کی ہونگی کہ ہر کوئی اپنے مرنے کی خبر میں مبتلا ہو جائے گا۔ ابھی تو ہم اپنے زندہ بچ جانے کی خبروں کے منتظر ہیں۔ اپنی موت کی خبر سے بڑی خبر کوئی نہیں۔ جب کچھ نہیں رہے گا اور کچھ نہیں بچے گا، اس کے باوجود دنیا کا کام چل رہا ہے اسی طرح جس طرح دو چار دن پہلے چل رہا تھا۔ پرندے اُڑ رہے ہیں، بچے رو رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں، جیسے سب کچھ روٹین میں ہوتا ہے۔ امریکہ اور کئی مغربی ممالک ہمیں ڈرانے کے لئے تو نہیں کرتے۔
پہلے بھی کئی دفعہ اس طرح کی افواہیں اڑائی گئیں اور پھر وہ خاک میں مل کر خاک ہوگئیں۔ جب کوئی ایسی چیز ہوئی جس کا ذرا سا بھی تعلق قیامت سے ہوا تو دنیا والوں کو اور مسلمانوں کو لگ پتہ جائے گا اور سب کچھ پل بھر میں ختم ہو جائے گا۔ اسی لئے اس طرح کی افواہوں کا نوٹس ہی نہیں لینا چاہئے۔ جو کچھ ہونا ہوگا وہ پل بھر میں ہو جائے گا۔ اس لئے میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ اس کالم کا اثر دیکھ لینا۔ جس افواہ کو چند کالم خاموش کر دیں وہ وائرس کہاں سے ہو جائے گا۔ ابھی کچھ دنوں میں لوگ بھول جائیں گے کہ وائرس بھی کوئی چیز تھا۔
اس دفعہ امریکہ اور مغرب نے اپنے چند شہروں کو شامل کرکے اس کی شدت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ اﷲ کے کاموں میں جسے ہم فطرت بھی کہہ دیتے ہیں کے کوئی ڈھیل نہیں دے سکتا? جن لوگوں کے مرنے کی اطلاعات ہیں اور بیمار ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔ وہ محض افواہیں ہو سکتی ہیں اور خبریں گھڑنے اور باتیں بنانے میں امریکہ اور مغرب والوں کا جواب نہیں ہے۔
زیادہ دلچسپی اس خبر میں ہے کہ حکومت اگر نئے صوبوں میں مخلص ہے تو سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں بھی لے۔ ہم حاضر ہیں، یہ بات احسن اقبال نے کہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت صوبوں کے نام پر عوام کو دھوکہ دے رہی ہے۔ جو حکومت صوبوں کے نام نہ رکھ سکے اور ان کے لئے یہ بات سامنے نہ کر سکے۔ حزب اختلاف سے مل کر بھی کہ ایسا کام نہ کر سکے جس کا ہونا ضروری سمجھا وہ "کرونا وائرس" کی باتوں میں الجھا کر اپنے لوگوں کو کیا تحفہ دے سکے گی۔ چنانچہ میری "گزارش ہے کہ ان باتوں پر توجہ کئے بغیر کوئی کام کیا جائے جس کا ذکر تاریخ میں آئے اور جسے لوگ یاد رکھیں۔
چلیں آخر میں ایک "خوبصورت غزل کے چند اشعار دیکھئے جس میں نئی اشیا کے خواب سو رہے ہیں۔ ناز بٹ نے بہت محبوب اسلوب میں اشعار لکھے ہیں۔ یہ ان کی کتاب "وارفتگی" کے ہیں۔
دل و نگاہ کی حیرت میں رہ گئے ہیں ہم
خمار خواب کی شدت میں رہ گئے ہیں ہم
چرا کے لے گئی دنیائے پرفریب اس کو
اور اپنی سادہ طبیعت میں رہ گئے ہم
ہمیں تو کھینچ رہا تھا سفر تری جانب
بس اس جہاں کی روایت میں رہ گئے ہیں ہم