موسیٰ خیل کے ایک دیہاتی سکول میں ننگی زمین پر بیٹھے ہوئے بچوں کی ہنسی نکل گئی، جب ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھا ہوا استاد جی دھڑام سے گر پڑا بچے ہنستے ہنستے شرمائے، شرماتے شرماتے ہنسے، صرف یہ نہیں کہ بات بات پر ڈنڈے برسانے والا آج اس طرح پڑا تھا کہ اس کی ٹانگیں آسمان کی طرف تھیں، بات یہ بھی تھی کہ استاد جی نے دھوتی باندھی ہوئی تھی، استاد جی نے اٹھ کر دھوتی سنبھالی اور بچوں پر ڈنڈے برسانے لگا، مگر بچے اپنی ہنسی پر قابو نہیں پا رہے تھے، جب تیز ہوا چلتی تو استاد جی اپنی دھوتی پر قابو نہیں پاتے تھے، بچے یہ بھی سوچ رہے تھے کہ پھر الف سے انار کیسے ہو گیا، انار تو انہوں نے کبھی دیکھا بھی نہ تھا دنیا کی کتنی نعمتیں ہیں جو انہوں نے چکھی بھی نہیں انہیں کیا پتہ کہ ان کے لئے جو نعمتیں ہیں وہ شہر والوں کی ضرورتیں ہیں۔
ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں اتنا فرق کیوں ہے۔ یہ فرق اس طرح نہیں کہ اب ٹیکنالوجی بڑھ گئی ہے۔ پوری دنیا کو گلوبل ویلج کہا جانے لگا ہے اس کے باوجود ہمارے ہاں دیہات اور شہر دو الگ الگ دنیا ہیں، بے نظیر بھٹو سے چند کالم نگاروں کی ملاقات کے دوران میں نے بی بی سے کہا تھا کہ آپ کو ہمیشہ اقتدار سے الگ شہر والوں نے کیا۔ آپ کو وزیر اعظم دیہات والوں نے بنایا مگر آپ نے بھی ان کی حالت بدلنے کی ذرا بھر کوشش نہ کی۔ آپ نے کبھی کسی گائوں میں رات گزاری ہے حکمرانوں کا وقت دیہات میں بھی شہر کی طرح گزرتا ہے آپ کو کیا معلوم ہے کہ دیہاتی کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں صرف اتنا کہوں کہ وہ اب سے پانچ سو برس پہلے والی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
شہباز شریف تو شہر کے آدمی ہیں، انہوں نے لاہور کو ایک نیا شہر بنانے کا آغاز کیا تھا۔ ہمارے ہاں اس طرح کے آغاز کا اختتام بہت جلدی ہو جایا کرتا ہے۔ ویرانیوں کو حیرانیوں سے سرشار کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔
اس بات سے اندازہ کریں کہ دیہی آبادیوں میں رسمی تعلیم کے موضوع پرتقریب ہوئی بھی تو وہ لاہور شہر کے پوش علاقے میں ہوئی۔ اس طرح کی تقریب کا تصور بھی دیہاتی علاقوں میں نہیں ہو سکتا۔ دیہات کو ترقی دینے کے ارادوں پر بات بھی شہروں میں ہوتی ہے۔
اس بہت بامقصد اجتماع کی صدارت ایک بہت بڑے دانشور اور ایڈوکیٹ منیر احمد بھٹی نے کی تھی جو اپنی بے پناہ مصروفیات سے بچ کر یہاں نکل آئے، ہائی کورٹ میں بھی وہ بہت مخلصانہ جسارت اور قومی درد مندی سے سرشار ہو کر بات کرتے رہے۔ ملک مظفر شہر میں بیٹھے ہوئے دیہات والوں کے لیے سوچتے ہیں ان کا تعلق دیہات سے ہے۔ انہوں نے ایک تنظیم بنائی ہے کہ دور آباد علاقوں میں کسمساتی ہوئی زندگی کو ایک اور زندگی بنایا جائے، اس کے لیے وہاں تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہے۔
کہیں کہیں دیہاتوں میں کھنڈر بنتے ہوئے سکول کے سامنے ریسٹ ہائوس کی شاندار عمارت بھی ہوتی ہے وہاں سال میں ایک آدھ بار کوئی افسر چکر لگاتا ہے۔ اس عمارت کی صرف دیکھ بھال پر ہزاروں روپے خرچ کر دئیے جاتے ہیں۔ اس افسر کے آرام و آسائش کے لیے بھی ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ دیہاتی ٹیچر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک و قوم کی تعمیر میں بھوکے پیاسے اور ذلیل و خوار ہو کر کام کرے۔ کام کام کام۔ افسروں اور حکمرانوں کو عیش و عشرت سے ہی فرصت نہیں۔ عالموں اور استادوں کے پاس ایک عزت و تکریم تھی وہ بھی کرپٹ ار ہوس پرست معاشرے نے چھین لی۔ کوئی پوچھے تو کس سے کہ معاشرے میں آج استاد کی حیثیت کیا ہے۔ شخصیت سازوں کی اپنی کوئی شخصیت نہیں۔
دیہات میں استاد کا مقام مرتبہ اورتنخواہ شہر والوں سے زیادہ ہونا چاہئے، پرائمری ٹیچر کی کوالی فیکشن اور سٹیٹس یونیورسٹی ٹیچر سے کم نہیں ہونا چاہئے۔ ایک نوجوان کی تقرری لیکچرار کے طور پر عیسیٰ خیل میں ہوئی وہ نہ گیا عیسیٰ خیل ہی میں اسے اے سی کے طور پر پوسٹ کیا گیا۔ وہ چلا گیا میں اس واقعے کی وضاحت نہیں کرنا چاہتا۔ ایسے میں دیہی آبادیوں میں رسمی تعلیم کے لیے مظفر ملک کی کوشش کوئی رنگ لائی تو خوشی ہو گی حیرت بھی ہو گی۔
ناروے میں ایک کھانے پر افسران حکمران وزرا امرا آتے رہے کسی نے کسی کی پرواہ نہ کی مگر ایک چھوٹے سے سکول کے ٹیچر کی آمد پر لوگ احترام سے کھڑے ہو گئے۔ یورپ میں دیہات اور شہر ہر لحاظ سے ایک جیسے ہیں یہ بات ہمارے ملک میں کب رواج پائے گی دیہی آبادیوں میں رسمی تعلیم کے لیے بہت سی جھوٹی رسمیں ختم کرنا ہوں گی۔
میں نے ایک بہت معزز فیملی کے ساتھ ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس ہوٹل میں دیہاتی ماحول بنانے کی امیرانہ کوشش کی گئی ہے حتیٰ کہ اس کا نام بھی ویلیج رکھا گیا ہے۔ اس ویلیج میں کوئی دیہاتی آنکلے تو پاگل ہو جائے۔ ہم دیہاتوں کو شہری سہولتیں کیوں نہیں دیتے دیہات مر رہے ہیں۔ مصنوعیت کبھی معصومیت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ ہر معاملے میں امیر غریب کی تقسیم ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے پلازوں اور ہوٹلوں کے نام ہی دیہات کے حوالے سے ہوں اور دیہات کہیں نہ ہوں۔