اسلام آباد میں خود سوزی کا ایک واقعہ رونما ہوا تھا۔ خودسوزی کرنے والے شخص طاہر کی خودسوزی کی حالت میں تصویر اخبارات میں شائع ہوئی تو اس پر خلیل ملک صاحب نے اخبارات کو احتجاجی مراسلہ بھجوا دیا کہ طاہر صاحب کی وہ تصویر کیوں چھاپی گئی ہے جس میں اس کے اردگرد شعلے رقص کر رہے ہیں۔ اس نے بڑے جوش میں ایک امریکی صدر کے بیٹے کا ذکر کیا۔ جس نے افریقہ میں ایک مرتے ہوئے بچے کی تصویر چھاپی جس کے پاس ایک گدھ بیٹھا اس کے مرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نوجوان پر مقدمہ چلا کہ اس نے تصویر بنائی مگر اس بچے کی مدد نہ کی۔ گدھ پر کوئی مقدمہ نہ چلا سکا، ہمارے ہاں بے بسی سے مرنے والوں کے ساتھ ساتھ گدھ بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہاں مجبوراً اورمحروم لوگوں کی کبھی مدد کسی نے کی ہے؟ کیا یہاں مدد کرنے کا رواج ہے۔ اب تک کتنے ہی لوگ ہیں جو خودکشی کر چکے ہیں۔ کیا اس بات کاامکان ہے کہ اس کے بعد کے لوگوں کو بچا لیا جائے۔ کھلی کچہریوں میں بھی لوگوں نے خودکشی کی کوشش کی تو کیا کھلی کچہریاں واقعی ایسا فورم ہے جہاں مستحق لوگوں کی مدد ہوتی ہو۔
جس ملک میں انصاف فراہم کرنے کے لیے کچہریاں کام نہ آئیں وہاں کھلی کچہریاں کیا کام آئیں گی۔ ایک آدمی خدا بن کے بیٹھتا ہے اور خلق خدا اپنی اپنی التجائیں لیے اس کے سامنے جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ مراد ان کی پھر بھی پوری نہیں ہوتی۔ افسوس کہ خود سوزی کی پر درد تصویر بنانے والے فوٹو گرافر کے خلاف اس بدنصیب ملک میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ خوش نصیب ملکوں میں تو سربراہ مملکت کے خلاف بھی مقدمہ چلتا ہے۔
ایک فرانسیسی مصور نے ایک ایسی تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ مرتے ہوئے آدمی نے کہا کل کا دن خوبصورت ہو گا۔ یہ کل کب آئے گی۔ ہمارے سرکاری صحافی گزرے ہوئے کل کا رونا روتے ہیں۔ آنے والے کل کی بات نہیں کرتے۔ جن کا "آج" سنور جائے انہیں ایسی باتوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
بے نظیر بھٹو کے زمانے میں احتجاج کے دوران زخمی ہونے والے قاضی حسین احمد کی تصویر شائع ہوئی تھی جس پر کالم نگاروں نے مضمون باندھے تھے۔
ایک اور بھی تصویر کسی زمانے میں شائع ہوئی جس میں بھرے چوک میں مڈل کلاس ٹرانسپورٹر اسلم پرویزنے ایک تھانیدار غلام مصطفی کی زیادتی پر اپنے ساتھ اپنی بس بھی جلا ڈالی تھی۔ اسلم نے یہ تو کیا کہ بس میں سے آدمی نکال لئے تھے یہ کام ہماری پولیس کرتی تو شعلوں کے ساتھ چیخیں بھی بلند ہوتیں۔ جلتی ہوئی بس کی تصویر دیکھ کر کتنوں کو دکھ ہوا؟ اس ملک کے مجبور اور محروم لوگوں کے دکھوں میں کوئی شریک ہونے والا نہیں خود کشی دکھوں میں گھرا ہوا آدمی نہیں کرتا۔ وہ کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی اس کا شریک غم ہی نہیں، ذلت کی اذیت ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ کوئی بے غیرت آدمی خودکشی نہیں کرتا۔
کہتے ہیں زندگی خوبصورت ہے تو پھر ہمارے لوگ موت کی دعا کیوں کرنے لگے ہیں۔ موت کو کیوں گلے سے لگا رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ موت انہیں زندگی سے بہتر لگتی ہے۔ خودکشی کرنے والا قاتل بھی خود ہوتا ہے مقتول بھی خود۔ کون کہتا ہے کہ خودکشی کرنے والا بزدل ہوتا ہے۔ یہ تو بزدلوں کے خلاف ایک طنز ہے۔ کوئی بتائے کہ خودسوزی اور خود فریبی میں کیا فرق ہے اور وہ جو خود فریبی کو خود نمائی کے لئے استعمال کرتے ہیں کون ہیں؟
شہر دے چوک خبیثاں ملے
طیب وچ ملاناں