Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Balkasar Ka Pur Assar Mazah Nigar

Balkasar Ka Pur Assar Mazah Nigar

اُردو، پرائمری سکول ہی سے میرا پسندیدہ مضمون رہا ہے۔ پانچویں جماعت میں اُردو کی لازمی کتاب کے ساتھ دلچسپ قصے کہانیوں اور لطائف پر مبنی اُردو کی اضافی کتاب، نے اس شوق کو اور بھی مہمیز کیا۔ ساتویں آٹھویں کی اُردو کتاب میں قدرِ ایاز، کے عنوان سے ایک مضمون شامل تھا، جس میں ایک شاندار بنگلے کے رہائشی بچے سلیم کو اُس کا والد اپنے بچپن کے دیہاتی دوستچھوٹے چودھری، کی کہانی سناتا ہے، جو گاؤں کے ایک سادہ سے گھر میں پالتو جانوروں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ اس کے پاس پہننے کو ڈھنگ کے کپڑے ہوتے ہیں، نہ مہمانوں کی تواضع کے لیے قیمتی برتن اور نہ ہی گھر میں ڈرائنگ روم نام کی کوئی چیز۔ سلیم یہ باتیں سن کر اُس بچے کا خوب مذاق اڑاتا ہے، اسے دیہاتی، گنوار جیسے متعدد القاب سے نوازتا ہے لیکن جب اسے علم ہوتا ہے کہ وہ چھوٹا چودھری کوئی اور نہیں، اس کا اپنا والد تھا تو کسی حد تک خفیف بھی ہوتا ہے۔

اس سادہ سے مضمون میں ہلکے پھلکے مزاح، لطیف سی طنز کے ساتھ تاثیر کا تڑکا اس مہارت سے لگایا گیا تھا کہ تحریر سیدھی دل پہ اثر کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ جب اُردو سے دلچسپی کا دائرہ نصاب سے کتاب تک پہنچا تو علم ہوا کہ سہلِ ممتنع کی حامل اس تحریر کے مصنف اُردو کے معروف مزاح کرنل محمد خاں ہیں، جو ستاون سال کی عمر میں "بجنگ آمد" کے ساتھ ادبی دنیا میں وارد ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اُردو کے چوٹی کے مزاح نگاروں کی صف میں بے روک ٹوک شامل ہو گئے۔ ادبی ہوش سنبھالنے کے بعد جب پتہ چلا کہ یہ مناقشہ ساس بہو یا پڑوسنوں کے کوسنوں پر مشتمل نہیں، سیدھی سیدھی جنگِ عظیم دوم کی چشم دید بلکہ چشم کُشا رُوداد ہے تو نہاں خانۂ دل میں شوق کے ساتھ ساتھ حیرت کا دَر بھی وا ہو گیا۔

کرنل محمد خاں کی تاریخ پیدائش بھی ہر معروف ہونے والی شخصیت کی مانند پردۂ اخفا میں ہے کیونکہ تین چار دہائیاں پہلے تک ہمارے ہاں اس کے اندراج کا دارومدار بھولی بھالی والدہ، اَن پڑھ دائی کے حافظے یا کچی جماعت کے ماسٹر کے تُکے پر ہوتا تھا۔ کرنل محمد خاں کی تاریخ تو بلاتفاق پندرہ اگست تسلیم کر لی گئی ہے لیکن سال ان کے سوانح نگار بریگیڈئر اسماعیل صدیقی کے مطابق: ۱۹۱۰ء، سرکاری ریکارڈ کے مطابق: ۱۹۱۴ء بعض لوگوں کے نزدیک: ۱۹۱۲ء جب کہ کرنل صاحب کے ایک بیان کے مطابق: ۱۹۰۹ء ہے۔ اس حساب سے آج ان کا ایک سو بارھواں جنم دن ہے۔ پیدائش ان کی پوٹھو ہار میں کھیوڑہ کے قریب ضلع چکوال کے ایک علاقے بَل کسر (جو آج کل لاہور اسلام آباد موٹر وے کا انٹر چینج بھی ہے) کی ہے۔ اسے "دَھنی" کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے، جہاں کے بَیل بھی بہت مشہور ہیں۔ ان کے دادا چودھری اعظم خاں اور والد چودھری امیر خاں اپنے علاقے کے متوسط زمیندار تھے، تعلق مغل خاندان کی ایک شاخ مغل کسر، سے تھا۔ ان کے اجداد میں ایک شخصیت کا نام بَل خاں تھا، جس کے نام پر یہ گاؤں بسایا گیا۔

یہ مغل بچہ چار سال کی عمر میں یتیم ہو گیا، ماں نے اَن پڑھ اور دیہاتی ماحول میں ہونے کے باوجود بیٹے کی تعلیم پہ خصوصی توجہ دی۔ بچہ بھی ہم جولیوں کے ساتھ لُکن میٹی کھیلتے کھیلتے چکوال کے ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی سکول جا پہنچا، جہاں اپنے استاد غلام جیلانی برق کی شخصیت سے خاص اثر لیا۔ بعد ازاں دیہاتی ماحول اور اُن کے سوانح نگار کے مطابق بٹیر بازی، شکار، کبڈی، گھڑ دوڑ، نیزہ بازی (حالانکہ ان کی صحت ایسے مشاغل کی گواہی نہیں دیتی) سے نمٹتے نمٹاتے ۱۹۲۷ء میں رول آف آنر کے ساتھ میٹرک کر کے اسلامیہ کالج لاہور آن پہنچے، جہاں ایم ڈی تاثیر، فیض احمد فیض، ن م راشد اور محمود نظامی کی شاگردی اور صحبت نے ذوق کی زمین میں ادب کے پودے کی مزید آبیاری کی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب لاہور میں پطرس بخاری اور زندہ دلانِ لاہور کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔ پطرس ہی ان کی ادبی لگن کا رُخ متعین کرنے کا سبب بنے، وہ انھی کو اپنی ادبی زندگی کا مرشد گردانتے تھے۔

چھوٹی موٹی نظمیں لکھنے کا آغاز سکول کے زمانے سے ہی ہو گیا تھا، پہلے صادق، اور پھر نسیم، جیسے تخلص رکھے۔ کالج پہنچے تو اس سلسلے میں باقاعدگی آتی گئی اور ادبی دنیا، جیسے پرچوں میں چھپنے لگے۔ اس ادبی لگن کے باوجود والدینی و خاندانی اغراض کے پیشِ نظر ۱۹۳۴ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس اور ۱۹۳۶ء میں سنٹرل ٹریننگ کالج سے بی ٹی جیسی ملازمت بخش (Job Oriented) ڈگریاں حاصل کیں اور جیسا کہ سید ضمیر جعفری نے پوٹھوہار کے لوگوں کی بابت لکھا ہے کہ یہاں کا نوجوان اگر اعلیٰ نمبروں کے ساتھ بی اے، ایم اے کر لے تو سکول ماسٹر بھرتی ہو جاتا ہے، پڑھائی میں ناکام ہو جائے تو فوج میں میجر یا کرنل۔ ان کے ساتھ دونوں بلکہ تین معاملے ہوئے، پہلے بھیرہ، تلہ گنگ، چکوال میں سکول ماسٹری کی، ۱۹۴۰ء میں دوسری جنگِ عظیم کے سبب بھرتیوں میں تیزی آئی تو فوج میں بطور لفٹین کمشن مل گیا۔ ۱۹۴۷ء میں ان کی خدمات ایجوکیشن کور کے سپرد کر دی گئیں، یعنی ماسٹر اور فوجی ایک ساتھ کام کرنے لگے۔ ۱۹۶۹ء میں بطور ڈائریکٹر ایجوکیشن کور ملازمت سے ریٹائر ہوئے، سروس کے آخری سترہ سال جی ایچ کیو، راولپنڈی میں گزارے۔

۱۹۳۹ء میں ابا جی کی خواہش پر پھوپھی زاد بخت بانو سے شادی کی، زندگی کے پینتیس سال ان کے ساتھ گزارے، آخری ۲۵ سال مجرد رہے۔ اولاد میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، بڑا بیٹا وہی قدرِ ایاز والا سلیم تھا۔ ۱۹۸۱ء میں "اُردو پنچ" کے نام سے ایک مزاحیہ پرچہ جاری کیا، جس کا آخری شمارہ شفیق الرحمن نمبر، کی صورت ۱۹۹۵ء میں شایع ہوا۔ آخری چند سال شفیق الرحمن اور ضمیر جعفری کی صحبت میں بسر ہوئے، آرمی کلب میں محفلیں جمتیں۔ بیسویں صدی کے اختتام پر چند ماہ کے اندر اندر یہ تینوں مزاح نگار، سنجیدگی کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ کرنل محمد خاں ۲۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو سدھارے، ان کی موت کا واقعہ انتہائی تلخ ہے جو پھر کبھی سہی۔ ان کی وفات پر معروف شاعرجلیل عالی نے لکھا:

نہیں کہ کوئی خوشی کی گھڑی نہیں آئی

تمہارے بعد لبوں پر ہنسی نہیں آئی

بَل کسر کے اس مزاح نگار کی تصانیف میں بجنگ آمد، (۱۹۶۶ئ) جنگ عظیم دوم کی شگفتہ رُوداد ہے۔ بسلامت روی، (۱۹۷۵ئ) انگلستان کے مختلف اسفار کا کھلکھلاتا، گدگداتا، جوان دلوں کو گرماتا تذکاریہ ہے۔ بزم آرائیاں، (۱۹۸۰ئ) رنگا رنگ ظرافت پاروں کا گل دستہ ہے اور بدیسی مزاح، ایک آدھ تخلیقی مضمون کے ساتھ چند انگریزی مزاحیہ تحریروں کا دیسی روپ ہے۔ ان کے مزاح کا نمونہ:"اس کے بعد آپ نے اسے غلط انگریزی میں چند گالیاں دیں، جسے اس نے صحیح سمجھ کر برا مانا کہ لفٹین صاحب کی نیت بہرحال صحیح گالیوں کی تھی۔"

"علما کے نزدیک راگ نامقبول سی شے ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قوالی اس فتوے کی زد سے کیسے بچ گئی؟ اور فقط بچ ہی نہیں گئی بالکل اسلام بی بی بنی بیٹھی ہے۔ اقبال کے کلام پر تو اس کا ڈاکٹر جاوید اقبال سے بھی زیادہ حق معلوم ہوتا ہے۔"

"اپنے وطن کے رقص اور عربی رقص میں وہی فرق محسوس ہوا جو گلاب اور گوبھی کے پھول میں۔"