نہ جانے کیوں! اپنے سیاست دانوں کو دیکھ کے بچپن میں سنا ہوا دو بچوں کا وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے۔ سکول ماسٹر جن کے لیٹ آنے کی وجہ پوچھتا ہے تو ان میں ایک کہتا ہے: ماسٹر جی! راستے میں میری اٹھنی گم ہو گئی تھی، اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھے دیر ہو گئی۔
اور تم؟ " ماسٹر دوسرے طالب علم سے دریافت کرتا ہے۔
"ماسٹر جی! مَیں نے اس اٹھنی کے اوپر پاؤں رکھا ہوا تھا!!"
مَیں سوچتا ہوں کہ ٹکے ٹکے کی باتیں کرنے والے ہمارے ان اربابِ سیاست کو اس معصوم بچے جتنا ظرف بھی نصیب نہیں کہ یہ عمر کے آخری مرحلے یا اقتدار کی اچھی بری اننگز کھیل چکنے کے بعد ہی اپنی زبان سے تسلیم کر لیں کہ اس ملک کی ترقی میں تاخیر کی واحد وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کئی عشروں تک ملکی معیشت کی اٹھنی پہ حرص، ہوس اور اقربا پروری کا بھاری پاؤں رکھا ہوا تھا۔ کوئی ندامت، کوئی احساس، کوئی پچھتاوا، ان کے ضمیر پہ دستک نہیں دیتا؟ کیا ہمیشہ کوئی سٹیفن سیکر ہی ان کو ان کی اوقات یاد دلائے گا؟
سوشل میڈیا پہ تولوگ ان کو احساس دلا دلا کے تھک گئے ہیں۔ ابھی تو بعض جگہوں پہ غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے بنے وہ مہنگے ترین بینرز بھی لگے ہوئے ہیں، جن کے اوپر ہمیشہ لندن میں علاج پہ اصرار کرنے والے دو بھائیوں کی رنگین تصاویر چھپی ہیں اور نیچے جلی حروف میں "صحت مند پنجاب" لکھا ہے۔ کسی نے فیس بُک پہ گیارہ پارٹیوں کے گرما گرم مسالوں کے ادغام سے ترکیب پانے والی غیر فطری ڈش "پی ڈی ایم"کے سرکردگان کی تصاویر لگا کے سوال پوچھا تھا کہ اگر" یہ لوگ" پاکستان کو ٹھیک کرنے نکلے ہیں تو کوئی صاحبِ نظر ان سے پوچھ کے بتا دے کہ اس کو خراب کس نے کیا تھا؟ ان کی دھواں دھار باتیں، ان کی روز بروز کی پر جوش تقاریر، ان کے رنگ برنگے میڈیا بیانات سن کے دیکھ لیں، مجال ہے مستقبل کے لیے کسی ایجنڈے کی بات ہو، ملکی بہتری کے لیے کسی پلان کا ذکر کریں۔ اس کے برعکس اقتدار سے دوری، کلیدی عہدوں سے محرومی اور اندھا دھندوسائل سے تہی دستی ان کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہے۔ آپ ذرا ان میں سے ایک ایک کا ماضی کھنگال کے دیکھ لیں، یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کبھی ذاتی مفاد سے ایک انچ آگے نہیں سوچا بلکہ ملکی خزانے کو سیندھ لگانے اور قومی وسائل کو حلوائی کی دکان سمجھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس سب کچھ کے باوجود جب بھی ان سے ملک کو برباد کرنے والے کرتوتوں یا بیرونِ ملک اثاثوں کا حساب مانگا جاتا ہے، یہ جھوٹ بول بول کے آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی اور بر سرِ اقتدار آ جائے تو ووٹوں کو عزت دینے کی بجائے، حیلے بہانے کر کے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔ انتصار حسین عابدی سچ کہا تھا:
اُبھرنے ڈوبنے والو بس اتنا بتلا دو
جو پار اُتر گیا بچ کے وہ ناخدا تو نہیں؟
محمد خاں ڈاکو کے بارے میں مشہور ہے کہ اُس کے پاس چھپنے کے لیے ایسی ایسی جگہیں تھیں کہ اس کو گرفتار کرنا تقریباً ناممکن تھا لیکن جب اس کی ماں کا انتقال ہوا تو اس نے باعزت طریقے سے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا لیکن یہاں خون سفید ہونے کے جو جو مناظر لوگوں نے دیکھے، ان پہ سب با ضمیر انگشت بدنداں ہیں۔ کلثوم نواز کا انتقال ہوا تو حسن نواز اور حسین نواز کا دل نہ پسیجا۔ ان نام نہاد لیڈران کو پالنے پوسنے والی شمیم اختر سدھاریں تو تمام رشتے داروں نے ڈبے میں بند کر کے بھیج دی گئی۔ خدا کے بندو! اگر ساتھ آنے کا ظرف نہیں تو لوٹی ہوئی دولت ہی سے دو گز زمین خرید کے اپنے اصل وطن لندن ہی میں دفن کر لو! اور اگر تدفین کے لیے ساتھ ہونا ایسا ہی غیر ضرروری تھا تو حمزہ و شہباز کی رہائی کا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میاں شریف جدہ میں فوت ہوئے تو مقدس سر زمین پہ دفن ہونے کا کیسا حسین اور قدرتی موقع تھا لیکن اس پہ بھی سیاست کی گئی۔ اب صورت یہ ہے باپ ملک سے باہر بیٹھا ملک دشمن طاقتوں کی بولی بول رہا ہے اور بیٹی ملک کے اندر نظام کو کمزور کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ بات سو فی صد درستہے کہ یہ صرف چُوری کھانے اور چوری کرنے والے مجنوں ہیں، خون دینا ان کی سرشت ہی میں شامل نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ یہ لوگ تو ماں کے ہوئے نہ دھرتی ماں کے!! ان جلسوں سے ان کا مقصد بھوکے بلکتے عوام کی چند لاشیں گرا کے حکومت کی کارکردگی پہ سوال اٹھانا ہے، ڈراما ارطغرل غازی میں جب چاروں جانب سے ہوسِ اقتدار کے مارے جھپٹ رہے ہوتے ہیں تو کچھ مشیر فوری سختی کا مشورہ دیتے ہیں، جس پر ارطغرل بڑا معنی خیز جملہ کہتے ہیں کہ: ہم ان کی چکی کو چلانے کے لیے پانی مہیا نہیں کریں گے!، آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا ان تمام پارٹیوں کی ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی سے لبالب ہے۔ انھوں نے تیکھی آنکھوں والے کیمروں کے سامنے ایک دوسرے کو اُلٹا لٹکانے، ایک دوسرے کے بیرونِ ملک اثاثے اور لوٹا ہوا مال واپس لانے اور ایک دوسرے کو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پہ گھسیٹنے کی بار بار قسمیں کھائی ہیں۔ عمران خان سچ کہتا ہے کہ انھوں نے تو اب تک عدالتوں میں ایک دوسرے پر چلنے والے مقدمات بھی خود بنائے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے کہ حکومت کی خراب کارکردگی پہ احتجاج کیا جا رہا ہے، اصل بات یہ ہے کہ ان کو خطرہ ہے کہ اگر یہ حکومت اپنے پہلے دور میں معیشت کو سہارا دینے میں کامیاب ہو گئی تو اقتدار نام کی چیز ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ڈراؤنا خواب بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کی یہ ہوس اختلاجِ قلب کی صورت اختیار کر چکی ہے، بقولِ شاعر:
لُوٹ ماری پہ چِھنا ہے جب سے راج
جا بجا یہ کر رہے ہیں احتجاج
اس بیماری کا ہے فقط ایک نام
اختلاج و اختلاج و اختلاج