شیخوپورہ کے بارے میں تو مَیں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ یہاں وِرکوں کی ایسی بھرمار ہے کہ کسی دُکان کے اوپر وَرکشاپ بھی لکھا ہو تو لگتا ہے، وِرک شاپ لکھا ہے۔ حکیم جی اکثر مجھے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ شیخوپورہ سے میری محبت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ انگریزی میں She سے شروع ہوتا ہے لیکن دوستو! شیخوپورہ کی فاطمہ جناح لائبریری، جہاں یہ تقریب برپا ہے، سے مجھے ہمیشہ خدا واسطے کا عشق رہا ہے۔ اپنے پی ایچ۔ ڈی کے زمانے سے لے کے آج تک یہ میرے دل میں بستی ہے۔ یہ ایسے شہر میں استقامت سے قائم ہے جہاں کتاب کو کباب جتنی اہمیت بھی حاصل نہیں۔
آج کی تقریب جس فورم کے دم خم سے منعقد ہوئی ہے، اس کا نام دریچہ، ہے۔ اسے آج سے ستائیس سال قبل بھاگ بھریوں کے گھروں سے بھگائے ہوئے اہلِ درد شوہروں نے بہ ظاہر ادب کے فروغ کے لیے قائم کیا تھا۔ اس سے وابستہ لوگوں کی استقامت بتاتی ہے گھروں کے حالات ابھی تک ویسے کے ویسے ہیں۔
اس تقریب میں عملی طور پر شریک ممبران میں سب سے خُرد علی آصف اور نعیم گیلانی ہیں، علی آصف لغت اور جگت کا آدمی ہے، نعیم گیلانی شیخوپورہ میں عروض کی دنیا کا جَگت استاد ہے۔ دونوں اتنی سی عمر میں اتنے پختہ شعر کہنے کے پیچیدہ مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ "اینوں لہور لَے جاؤ" والا جملہ بھی ڈھارس نہیں بندھاتا۔ سجاد باقر رضوی زندہ ہوتے تو مَیں ان کو سیدھا ان کے پاس لے جاتا، جنھوں نے ہمارے ایک دوست کی دانشورانہ شاعری سن کے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے پوچھا تھا: یار تمھیں یہ لڑکیاں وڑکیاں اچھی نہیں لگتیں؟
اکرم سرا، میری سب سے چھوٹی خالہ کا سب سے لمبا لڑکا ہے۔ اس نے جب سے مزاح کے میدان میں قدم رکھا ہے، مزاح مجھے خالہ جی کا گھر لگنے لگا ہے۔ شروع میں یہ اپنے ذاتیاتی نام کو گِرا کے وزن پہ سِرا لکھتا ہوا پایا گیا۔ احباب نے برا منایا تو یہ اسے سُرا کر کے بُرا اور دُھرا کے قافیے میں منتقل ہو گیا۔ مَیں ہر بار اس کو بھرا، دَرا، ورایٰ، ذرا کے وزن پہ اس دلیل کے ساتھ کرا کے آتا ہوں کہ اس میں غزل سرا، نغمہ سرا، سخن سرا کا حسن موجود ہے۔
پھر یہ جو تُو کون مَیں شاہ مخواہ والااظہر عباس ہے، اس کے زمینی و زمانی، عملی و زبانی تحرک وتموّج کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انسانی وجود اختیار کر لینے کے بعد اس کے ایک جگہ قیام کا دورانیہ وہی نو مہینے بنتا ہے۔ یہ تینوں بھائی نہ جانے کس گھریلو مجبوری یا خاندانی رغبت کی بنا پر اپنی کسی نہ کسی خالہ کے گھر بیاہے گئے (باری باری) جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کا گھر خالائی مخلوق، سے بھرا پڑا ہے۔
ارشد نعیم نہایت نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں، ان کی ہیئت، جسامت اور مجید امجد سے محبت دیکھ کے مَیں نے کسی زمانے میں انھیں "مزید امجد" کا لقب دیا تھا۔ ساتھ ان کے ڈانواں ڈول وجود پہ یہ تبصرہ بھی کیا تھا کہ کبھی شہر میں ہوا تیز چل رہی ہو تو ہاتھ میں شہاب نامہ، پکڑ کے منزل پر پہنچتے ہیں۔ ان سے متعلقہ کسی چیز میں وزن دکھائی نہیں دیتا، سوائے ان کی شاعری کے۔
شاہین عباس پیشے کے اعتبار سے الیکٹرکل انجنیئر اور پیسے کے لحاظ سے امیر آدمی ہیں۔ نظم، غزل، افسانہ، ناول جیسی چاروں نٹ کھٹ حسینائیں ان کے کھونٹے سے بندھی ہیں۔ شاید کسی اور جانب بھی قدم بڑھاتے لیکن کسی نے سمجھا دیا کہ اسلام کے ساتھ ساتھ اصناف میں بھی چار ہی کی اجازت ہے۔ ان کی عمر کی بابت بیس سال قبل بھی میری یہی رائے تھی کہ سولہ (16) سے اکسٹھ (61) کے درمیان کہیں بھی فرض کی جا سکتی ہے، مَیں آج بھی اپنی اسی رائے پہ استقامت سے قائم ہوں۔
ناصر محمود ملک سے میرے تعارف کی تین جہتیں ہیں۔ وہ ادبی حلقوں میں میرا دوست، ایف سی کالج میں شاگرد اور پولیس کے کاغذوں میں افسر ہے۔ اس نوجوان کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ یہ اپنی کسی حرکت سے پولیس والا نہیں لگتا۔ ذوالفقار چیمہ، انوار پاشا، نیلما ناہید، اور اب ناصر ملک کے قلمی کارنامے دیکھ کے لگتا ہے اس محکمے کو کسی کی نظر لگ گئی ہے کہ اِن بھلے مانسوں نے حصوں کی بجائے قصوں پہ اکتفا کرنا شروع کر دیا ہے۔
خرم عباس وِرک، اصغر علی جاوید اور پروفیسر اکرم سعید تینوں کا تعلق میری طرح سکول آف ٹاٹ کے ساتھ ساتھ سکول آف جاٹ سے بھی ہے۔ تینوں اُردو اور پنجابی ادب کے قتیلِ بے مثیل ہیں۔ ہاں اصغر علی جاوید کے اندر جب سیرت، افسانہ اور وکالت ککلی ڈالنے لگتے ہیں تو وہ موڈ پوائزننگ، کا شکار ہو کے کبھی کبھی سکول آف ٹھاٹ کی طرف جا نکلتے ہیں۔
ڈاکٹر غفور شاہ قاسم سے متعلق تو میرا قلم اور زبان ہمیشہ پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے رواں رہتے ہیں۔ ان کے نام میں شاہ، کی موجودگی اور گہری دوستی کی رعایت سے مَیں کالا شاہ کاکُو کو سردار اور شہ زور ٹرک کو ٹرکوں کا سردار بھی کہہ لیتا ہوں لیکن شاہ صاحب سے صرف ایک سوال آج تک پوچھنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ یہ جو مرے کو مارے والا شاہ مدار ہے، وہ اِن کا کیا لگتا ہے؟ ان کا ایک جونیئر کلرک سے یونیورسٹی پروفیسر تک کا سفر ان کی اَن تھک محنت اور اَن شک قابلیت پہ دال ہے بلکہ حکیم جی کے بقول تو دال، ڈال اور ذال ہے۔
ہمارے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر معین نظامی آج سے چونتیس سال قبل ایک پرنس کی حیثیت سے میرے ساتھ ہی اورینٹل کالج میں طلوع ہوئے تھے، جب سے خبر آئی ہے کہ وہ اسی ادارے میں پرنسپل ہو گئے ہیں تو مَیں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ یا خدا! اگر اس فانی زندگی میں پرنس کے ساتھ محض ایک" پَل" لگانے میں چونتیس برس لگ جاتے ہیں تو جو شاعر نہایت دھڑلے سے اپنے آپ کو پَل دو پَل کا شاعر یا جو عاشق اپنی محبوبہ کو پَل پَل دل کے پاس تم رہتی ہو، کہتا آیا ہو، ان کے سیاسی بیانات دورانیہ کیا ہوگا؟
ہماری آج کی تقریب کے صدر معروف مزاح نگار، با کمال بیوروکریٹ اور نہایت خوبصورت انسان جناب حسین احمد شیرازی میرے دل اوربڑے بھائی کی خالی سیٹ پر مستقل بنیادوں پر تعینات ہیں۔ ان کے ساتھ گزشتہ ایک دِہائی سے دُہائی کا تعلق ہے، جو میری سُستیوں اور ان کی شائستگیوں کو ضرب تقسیم کر کے کسی نہ کسی طرح نبھتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا میں ایسی دیدہ زیب اور رکھ رکھاؤ والی کوئی دوسری شخصیت ہے تو کم از کم مَیں نے نہیں دیکھی۔
دوستو! آخری بات یہ کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت جتنے لوگ سٹیج کے اوپر یا ہال میں موجود ہیں، سب میری محبت میں آئے ہیں۔ اگر وہ اس بات کی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ مَیں ان سب کا فرداً فرداً شکریہ ادا کروں گا تو یہ اُن کی خام خیالی ہے کیونکہ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی بے پناہ محبتوں پر شکریہ نہیں شکر ادا کیا جاتا ہے!!!
(علمی و ادبی تنظیم دریچہ کے زیرِ اتمام اپنی تازہ ترین کتاب "خاکہ زنی" کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا، جہاں ثنا گُل کی فارسی نعت نے بھی سماں باندھ دیا۔)