شاعرِ مشرق نے ایک زمانے میں ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام، کے عنوان سے ایک نظم لکھی، جو اُن کی کتاب بانگِ درا، میں شامل ہے۔ انھی دنوں پطرس نے معروف فلسفی برگساں کی کتاب، جو اُن کے کیمرج کے نصاب میں شامل تھی، پر ایک دھواں دھار مضمون لکھا تھا۔ اقبال کی نظم کا پہلا شعر تھا:
تُو اپنی خودی اگر نہ کھوتا/زُنّاریِ برگساں کبھی نہ ہوتا
اور آخری شعر کچھ یوں تھا:
چوں دیدۂ راہ بیں نداری/قائدِ قرشی بہ از بخاری
ایک محفل میں پطرس کے بے تکلف دوست عبدالمجید سالک موجود تھے جن کی پطرس کے ساتھ اکثر چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی تھی۔ پطرس ان کی تحریروں کو مذاق میں کلامِ مجید، کہتے، اور سالک نے بخاری برادران (پطرس بخاری، زیڈ اے بخاری کہ جنھوں نے کسی محفل میں پطرس کی چھیڑ چھاڑ سے زچ ہو کر کہا تھا: سگ باش، برادرِ سگ مباش جو دونوں ریڈیو کی دنیا کے بے تاج بادشاہ سمجھے جاتے تھے) کو صحیح بخاری، غلط بخاری کا لقب دے رکھا تھا۔ سالک نے کہا: اقبال نے تم پر جو تازہ نظم لکھی ہے، اس پر تمھاری کیا رائے ہے؟ پطرس نے ٹال مٹول کی کوشش کرتے ہوئے کہا: وہ کسی بھی بخاری کیلئے ہو سکتی ہے، میرا اس میں کون سا نام لکھا ہے! اس پر سالک نے برجستہ کہا: نام کیوں نہیں لکھا؟ لگتا ہے تم نے نظم کے پہلے مصرعے کے آخری لفظ پہ غور نہیں کیا!!
شیخ سعدی کے زبان زدِ عام مقولے: بقامت کہتر، بقیمت بہتر، کا جیسا عمدہ اطلاق پطرس کے مضامین، پر ہوتا ہے، دیوانِ غالب، کے علاوہ شاید ہی کسی ادبی سوغات پر ہوتا ہو۔ خدا کی پناہ کل گیارہ مضامین (ہاسٹل میں پڑنا، کتے، مرحوم کی یاد میں، لاہور کا جغرافیہ، سویرے جو کل آنکھ میری کھلی، اُردو کی آخری کتاب، مَیں ایک میاں ہوں، مرید پور کا پیر، انجام بخیر، سینما کا عشق، میبل اور مَیں ) جن کو لکھے ہوئے بھی ایک صدی ہونے کو آئی ہے۔ مَیں کہتا ہوں گیارہ کو بھی چھوڑیے، اگرپہلے چار مضامین تک بھی بات رہتی تو یہ بھی مزاح کے آسمان کو چار چاند لگانے کے لیے کافی تھے، اس پر بھی معیار و معروفیت کا یہی عالم ہوتا۔ پھر اندازِ بیان ایسا سادہ کہ ہر زمانے اور ہر سطح کا قاری بہ یک وقت لطف لے سکتا ہے، اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا، ?
موضوعات میں نہ کوئی فلسفیانہ موشگافی، نہ نفسیاتی دُر فنطنی، نہ علامتی جھنجھٹ? کہانی سنانے اور واقعہ بتانے کا سا انداز، آفاقیت ایسی کہ دادے سے پوتے تک تین نسلوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے کو دے دیجیے، سبھی ایک دوسرے سے بڑھ کے لطف اندوز ہوں گے۔ معروف لاطینی نقاد لان جائنس نے جس ترفع (Sublime)کی بات کی تھی، اُس کی اِس سے بہتر مثال کیا ہوگی؟ سید عابد علی عابد کے بقول: پطرس کے ہاں ہمیں متین ظرافت یا ظریفانہ متانت کا جو عمدہ نمونہ ملتا ہے، اس کی شاید ہی کوئی دوسری مثال ہو۔ لاہور میں ہم خیال دوستوں ادیبوں کا ایک گروپ اکٹھا کیا، جسے نیاز مندانِ لاہور، کا نام دیا گیا۔ یہ کم و بیش عبدالمجید سالک، سید عابد علی عابد، صوفی تبسم، ایم ڈی تاثیر، غلام عباس اور فیض احمد فیض پر مشتمل تھا لیکن اس گروہ کے سرخیل پطرس ہی تھے بلکہ رشید احمد صدیقی کے خیال میں تو دنیا بھر میں اگر کوئی ایسی بزم سجائی جائے جہاں تمام زبانوں کے مشاہیر اپنے اپنے شعر و ادب کا تعارف کرانے کے لیے موجود ہوں تو اُردو ادب کی طرف سے پطرس سے بہتر نمایندہ ممکن نہیں۔ خوش طبعی اور زندہ دلی ان کی شخصیت اور تحریر کا زیور تھی، وہ اپنی تحریر میں مزاح پیدا کرنے کے لیے ہمارے بہت سے مزاح نگاروں کی مانند لطیفے تلاش نہیں کرتے تھے بلکہ ہر موضوع اور موقع کی مناسبت سے لطیفے تراش لیتے تھے۔
ایک بار گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے استاد کی ضرورت تھی، دو امیدوار تھے، ایک صاحب کا دس بارہ سال کا تجربہ تھا اور دوسرے تازہ فارغ التحصیل تھے۔ پطرس نے دونوں کو ایک ساتھ بلا لیا اور گفتگو شروع کر دی۔ تجربہ کار صاحب اپنی فوقیت جتانے کے لیے بار بار اسی بات کا اظہار کر رہے تھے کہ میرا بارہ سال کا تجربہ بھی ہے، ? پطرس نے جب دوسری تیسری بار یہی بات سنی تو بولے: سنو مسٹر! تجربہ تو دو دھاری تلوار ہوتا ہے، ہو سکتا ہے تم خامی ہی میں پختہ ہو چکے ہو!!، پھر ان کا وہ واقعہ تو زبان زدِ عام ہے کہ ایک صاحب جو کسی محکمے میں بڑے افسر تھے، پطرس کے گورنمنٹ کالج کی پرنسپلی کے زمانے میں ان کے دفتر میں تشریف لائے۔ کمرے میں داخل ہوکے سلام کہا۔ پطرس کچھ لکھنے میں مصروف تھے، انھوں نے بغیر ان صاحب کی طرف دیکھے اشارے سے کہا: کرسی لے لیجیے! ان صاحب نے محسوس کیا کہ لگتا ہے یہ پرنسپل میری افسری اور طنطنے سے واقف نہیں، چنانچہ کھڑے کھڑے اپناتعارف کراتے ہوئے بولے: مَیں محکمہ برقیات کا ڈائریکٹر جنرل ہوں!? پطرس نے اسی طرح مصروف رہتے ہوئے کہا: آپ دو کرسیاں لے لیجیے!!
پطرس جن دنوں ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اخلاق احمد دہلوی نے اس زمانے کا دہلی ریڈیو سٹیشن کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ آغا اشرف خبریں پڑھتے تھے۔ ہر اہم سکرپٹ نشر ہونے سے قبل ڈائریکٹر کی موجودگی میں پڑھا جاتا تھا۔ آغا اشرف نے لفظ مَٹّی پڑھا تو پطرس نے کہا کہ پنجاب میں اس لفظ کو مِٹّی بولا جاتا ہے اور لوگ بھی اسی تلفظ سے مانوس ہیں، لہٰذا آپ مِٹّی پڑھیے? آغا اشرف کہنے لگے: مَیں اہلِ زبان ہوں اور جانتا ہوں کہ اس کی اصل ہندی کا لفظ ماٹی ہے۔ ماٹی کا الف اڑائیں گے تو لسانی گرامر کی رُو سے زبر میں تبدیل ہو کے مَٹّی، بن جائے گا۔ پطرس نے داد آمیز نظروں سے آغا جی کو دیکھا لیکن اپنی روایتی لطف آفرینی کی خاطر کہا کہ اگر مَیں بطور افسر آپ کو حکم دوں کہ اسے مِٹّی، پڑھو تو؟ آغا اشرف بولے: مَیں دلّی والا ہوں استعفا دے دوں گا مِٹّی، نہیں پڑھوں گا۔ ڈاکٹر احسن فاروقی نے بجا طور پر انھیں اُردو کا وحدہ، لاشریک مزاح نگار قرار دیا تھا۔ (ختم شد)