ہمارے دیہات میں جب حد ہو گئی اے? اخیر ہو گئی اے? End ہو گیا اے?، جیسے جملوں سے بات نہ بن رہی ہو تو کہتے ہیں: وِیھ (20) مُک گئی اے۔ ، اس سال تو یہ ویھ(20) ذو معنی ہو گیا ہے۔ یار لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس دفعہ: وِیھ (2020) مُک گیا ہے، یا وِیھ مُک گئی اے!!
دوستو یہ کیسا انوکھا سال گزرا ہے کہ موبائل فون کے روز روز کے اندوہ ناک پیغامات اور احباب کی رنجیدہ پوسٹوں کے جواب میں " اِنّاللہ وَ اِنّا الیہِ رَاجِعُون? لکھتے لکھتے اُنگلیاں فگار اور کالموں میں نثری نوحے ترتیب دیتے دیتے خامہ خوں چکاں ہو چکا ہے۔ جنازے ڈھوتے ڈھوتے کاندھے شل اور پُرسے دیتے دیتے آنکھیں جل تھل ہیں۔ مسجدوں سے "حضرات! ایک ضروری اعلان سُنیے" (یہ مسجدوں والے اپنے اعلانات میں حضرات کے ساتھ خواتین، کا لفظ شاید اس لیے استعمال نہیں کرتے کہ شایدانھیں خواتین کے ذاتی نیٹ وَرک پہ زیادہ بھروسہ ہوتا ہے)سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ اعزہ و اقارب سے تعزیت تعزیت کرتے کرتے اعصاب تھک گئے ہیں۔ ن م راشد نے ایسے صدماتی دورانیے کے لیے دیکھیے کیسی خوف ناک تشبیہ استعمال کی تھی: ؎
جہاں زاد! نو سال کا دَور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے شہرِ مدفون پر وقت گزرے!
اور میر تقی میر نے اپنے زمانے میں دِلّی کے سوگوار حالات کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی تھی: ؎
تِری گلی سے سدا اے کشندۂ عالم
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں
اگر ہم اس برس کی سناؤنیوں کا زمانی ترتیب سے احاطہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تین جنوری کو ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی امریکی میزائل کا نشانہ بنے۔ ۱۷ فروری کو اکادمی ادبیات اسلام آباد سے وابستہ نوجوان شاعر اور تازہ کی ہوئی پی ایچ۔ ڈی پر پھولے نہ سمانے والے علی یاسر چلتے بنے? پانچ مارچ کو میرے پیارے چچا میاں خضر وِرک جو سابق وزیرِ اعلیٰ عارف نکئی کے برادرِ نسبتی بھی تھے۔ ایچیسن اور ایف سی کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدایچیسن میں تدریس سے بھی وابستہ رہے، ہر ہفتے باقاعدگی سے گاؤں جاتے، مَیں صرف انھیں رشک سے دیکھتا رہتا ?اسی طرح چھ مارچ کو کامیڈی کی دنیا کو ایک نویکلا رُوپ عطا کرنے والے امان اللہ خاں چلے گئے۔
نو مارچ کو دنیا بھر میں اور۱۳ مارچ کو پاکستان میں کرونا لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہوتے ہوتے حج، عمرہ اور پھر مساجد بھی بند ہو گئیں۔ اسی دوران ۲۲ مارچ کو کلامِ مصطفیٰ زیدی کی ترتیب و تدوین سے شہرت حاصل کرنے والے معروف شاعرسید نصرت زیدی چل بسے? ۲۸ اپریل کو میرے اکلوتے ماموں چودھری محمد نواز ڈھلوں سوگوار کر گئے ?۲۲ مئی کراچی طیارے کے حادثے میں سو سے زائد افراد لقمۂ اجل بنے ?ًًًًیکم جون کو کراچی کا ایک معروف ادبی حوالہ آصف فرخی کی صورت رخصت ہوا? اور گیارہ جون کو نیویارک میں مقیم ہماری ایک اچھے وقتوں کی فیلو ہما وائیں کے والد جناب غلام نبی وائیں جنت مکانی ہوئے ? ۱۲ جون کا دن تو علمی و ادبی دنیا پہ بہت بھاری ثابت ہوا کہ اس دن معروف علمی خانوادے کے چشم و چراغ، تحقیق کی دنیا کا خوشگوار چہرہ اور ہمارے شیخوپورہ کا وقار جناب ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی دنیا سے منھ موڑ گئے۔
پھر ۱۴ جون کو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بطور پرنسپل سبک دوش ہونے والے جدید غزل کے نمایندہ محمد خالداور ۱۶ جون کو ہمارے ایم فل اُردو کے حاضرطالب علم اور پنجاب کالج کے استاد خلیل چودھری، ناگہانی موت کا شکار ہوئے ?۱۷ جون کو پی ٹی وی کے پہلے اناؤنسر، نیلام گھر کی پہچان، شاعر، اداکار جناب طارق عزیز وداع ہوئے ? ۲۲ جون کو معروف شیعہ عالم اور شاعر جناب طالب جوہری اور ۲۴ جون کو اُردو صحافت کے دیرینہ خدمت گار ڈاکٹر شیخ مغیث بھی چلے گئے? چھبیس جون کو جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کا انتقال ہوا ? ۲ جولائی کو ادب و سیاست میں ترقی پسندمصنفین کے نمایندہ رشید مصباح کا انتقال ہوا۔ ہمارے ہاں چونکہ کسی داشتہ کے حوالے سے تعارف مناسب نہیں ہوتا اس لیے انھوں نے "سوچ کی داشتہ" اور "برے آدمی کا سچ" کو اپنا حوالہ بنایا۔
تین جولائی کو ادب، صحافت اور ادارت کے شعبے سے ناموری حاصل کرنے والے ناصر زیدی ستتر برس کی عمر میں مرحوم ہوئے۔ آخری دنوں میں وہ معروف ادبی رسالے ادبِ لطیف، کے ساتھ وابستہ تھے? گیارہ اگست کو میرے اکلوتے بڑے بھائی محمد یٰسین وِرک سُفنہ ہو گئے ? ۲ نومبر کو اُردو ڈائجسٹ سے شہرت پانے والے جناب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی بانوے سال کی عمر میں دوسرے جہاں منتقل ہوئے ? دس نومبر کو خبر آئی کہ ایک باکمال ادیب، مثالی بیوروکریٹ اور قابلِ تقلید محبِ وطن جناب مسعود مفتی نہیں رہے۔ اسی طرح ۱۹ نومبر کوجوشیلی طبیعت اور آتشیں تقاریر سے شہرت پانے والے بریلوی مکتبۂ فکر کے مولاناخادم حسین رضوی فوت ہوئے، جن کی نمازِ جنازہ میں شرکا کی تعداد دیکھ کے کئی سیاست دانوں کے منھ میں پانی بھر آیا? مرنے کے لیے نہیں محض پنڈال بھرنے کے لیے!!
گیارھویں مہینے کی تئیس کو فلسفی اور ادیب قاضی جاوید چلے گئے ?۲۵ نومبر کو میرے ساتھ ۳۷ سال کا ساتھنبھاہنے والے بے تکلف اور پیارے دوست پروفیسر حسن عظیم وِرک (صدرِ شعبہ اُردو، ایچ نائن کالج اسلام آباد) زندگی اور ہم سے روٹھ گئے ? تیس نومبر کو صحافت اور کالم نگاری کی ایک طویل اننگز کھیل کر عبدالقادر حسن زندگی کے میچ سے ریٹائر ہوئے? ۲ دسمبر کو ایک شریف اور خاندانی سیاست دان میر ظفراللہ جمالی اور ۵ دسمبر کو اسی قبیل کے ایک اور سیاست کار شیر باز مزاری، جو سابق وزیرِ اعظم جناب بلخ شیر مزاری کے بھائی اور نواب اکبر بُگٹی کے برادرِ نسبتی تھے، اوپر تلے انتقال کر گئے۔ پانچ دسمبر ہی کو نواز شریف کیس سے شہرت پانے والے نیب کے سابق جج ارشد ملک اس دنیاوی زندگی سے سرخرو ہوئے ? ۱۶ دسمبر کو پاکستانی ہیر یعنی اداکارہ فردوس بھی اپنے شائقین کو اداس کر گئیں۔
پچیس دسمبر جو پہلے ہی حضرت عیسٰیؑ اور قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی پیدائش کے حوالے معروف دن ہے، کو اُردو کے ایک مایہ ناز نقاد اور فکشن رائٹر جناب شمس الرحمن فاروقی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ انھوں نے دیگر بے پناہ ادبی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ میر کی شاعری کو شعرِ شور انگیز، اور داغ دہلوی دور کے ادبی منظرنامے کو کئی چاند تھے سرِ آسماں، میں اچھوتے رنگ میں پیش کیا ?۲۹ دسمبر کو علی گڑھ یونیورسٹی میں چالیس سال تک تدریسی، تحقیقی خدمات انجام دینے کے بعد پروفیسر ظفر احمد صدیقی رضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔ اردو کا کلاسیکی متن ان کا خاص میدان تھا۔
اس وقت صورتِ حال یوں ہے کہ کرونا کے باعث وطنِ عزیز میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار سے متجاوز ہے اور دنیا بھر میں کوئی انیس لاکھ کے قریب نفوس اس موذی وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوستو! ان حالات میں بار بار ایک ہی جملہ ذہن پہ دستک دیتا ہے کہ ? وِیھ مُک گئی اے!!!!