آج سے انیس بیس سال قبل کی بات ہے کہ ہمارے اس وقت کے ایڈیٹوریل انچارج جناب اطہر ندیم نے ایک جنرل اور ان کی باقیات کے پروردہ ایک بظاہر پڑھے لکھے صحافی گھرانے کی بابت بتایا کہ جب ان کے پاس خدا اور ضیا کا دیا کافی پیسہ آ گیا تو انھیں کاروبار کرنے کی سوجھی۔ کسی بھیدی نے ان کی جمع اور طمع شدہ پونجی دیکھ کے مشورہ دیا کہ اس وقت چلغوزے کی فصل تیار ہے، آپ یوں کریں کہ مارکیٹ میں موجود کل چلغوزہ اٹھا لیں، چند دنوں بعد ڈبل قیمت پہ بیچ دیں، چلغوزہ کھانے والے طبقے نے چلغوزہ کھانا ہی کھانا ہے، ان کو قیمت سے کوئی غرض نہیں، غریب کھائے کھسماں نوں۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، تین لاکھ کی لاگت (جو آج کے حساب سے تین کروڑ کے برابر ہوگی) کا کل چلغوزہ خریدا، اور اگلے چند ہی دنوں میں ڈبل رقم کھری کر لی، اس طرح ان کا شمار ملک کے امرا میں ہونے لگا، کسی نے سچ کہا ہے:
مایا کے ہیں تین نام
پرسُو، پرسا، پرس رام
یہی کام مافیا کرتا ہے۔ میرا تعلق ایک گاؤں سے ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ میرے کسان کی چار مہینے کی مشقت اور خون پسینے سے پکائی ہوئی گندم بڑی بڑی توندوں اور تجوریوں والوں کے ذریعے گیارہ بارہ سو روپے من کے حساب سے خرید کے بڑے بڑے سٹوروں میں سجا لی گئی، قیمتِ خرید کے حساب سے تو بازار میں آٹا اٹھائیس سے تیس روپے کلو میں ملنا چاہیے تھا، لیکن وہی جنس مافیا کی گندی تجارتی ذہنیت کی بنا پر ستر روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے، یہ حرام خور مافیا جانتا ہے کہ چلغوزہ تو پھر بھی کسی کسی نے کھانا تھا، آٹا تو ہر ایک کی ضرورت ہے۔ دولت کے ارتکاز سے اسی لیے منعفرمایا گیا ہے۔ ہمارے دین میں بھی اسی وجہ سے ذخیرہ اندوزی کی سخت وعید آئی ہے کہ اس میں غریب کا استحصال ہوتا ہے اور تاجر کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وہ صرف اپنی ضرورت کو ہی مدِ نظر نہیں رکھتا بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے رزق کا بھی ٹھیکہ لے لیتا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے سچ ہی کہا تھا کہ:
اس کو کون کہے گا تحفہ خالص کھرے نصیبوں کا
ایک امیر کے گھر میں رزق پچاس ہزار غریبوں کا
مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک فقیر کو دیکھا، جس کی جھولی روٹیوں سے بھری ہوئی تھی لیکن وہ اس کے باوجود روٹی کے لیے سوال کر رہا تھا، آپ ؓ نے اس کی جھولی اونٹوں کی کھرلی میں خالی کر دی اور کہا کہ تم حاجت مند نہیں تاجر ہو۔ ہمارے ہاں اپوزیشن شور مچا کے ہمیشہ لوگوں کو غلط تأثر دینے میں مشغول رہی ہے کہ یہ آٹے کا بحران، کسی خاص حکومت کی دین ہے۔ آپ گزشتہ پون صدی کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں کہ آٹے کے یہ مسائل نہ صرف ایوب، بھٹو، ضیا، جونیجو، نواز، بی بی، زرداری، دور میں بھی اسی شدو مد کے ساتھ سر اٹھاتے رہے ہیں۔ آج سے تیس سال قبل ایک درویش شاعر صابر نوید نے کہا تھا:
نہ مَیں رانجھا تے نہ یارو میری ہیر ضرورت اے
مَیں تے ٹُکر لئی پیا کھاندا جِھڑکاں چُوچک مہر دیاں
پھر آج سے ڈیڑھ صدی قبل لکھنو سے نکلنے والے اودھ پنچ، کا شاعر مچھو بیگ ستم ظریف بھی چِلّا رہا ہے کہ:
مہنگا ہو گیا آٹا، سستی ہو گئی افیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نون اور پ کی حکومتوں سے ہمارا اختلاف ہی یہ ہے کہ انھوں نے سارا زور محض دولت اکٹھی کرنے پہ صرف کیا ہے۔ ہمیشہ اپنے ارد گرد ایسے لوگ جمع کیے کہ جو خود بھی کھائیں اور ان کے لیے جہاں، جیسے، اور جتنی کی بنیاد پہ دولت کے ڈھیر لگاتے چلے جائیں۔ پھر یہی ہوا کہ قومی خزانہ چیل کے گھونسلے کا کلاس فیلو بنتا گیا اور لوگوں کے ذاتی اکاؤنٹوں کو ڈپھاری ہوتی چلی گئی۔ یہی دولت سے پھولے ہوئے پیٹوں والے لوگ مافیا ہیں۔ ان کی طمع کسی صورت ختم ہونے میں نہیں آتی۔ ایک حدیث پاک ہے کہ ہوس کے پیٹ کو صرف قبر کی مٹی سے بھرا جا سکتا ہے۔ آج چاروں طرف یہی عالم ہے کہ:
دورٹی پھرتی ہے ہر سُو کار ساہوکار کی
تیری خاطر اے غریبِ خستہ پا کچھ بھی نہیں
اصل بات یہ کہ اس ذخیرہ اندوزی کا تعلق صرف روپے پیسے سے نہیں، یہاں تو عزت اور شہرت کی بھی ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے۔ کسی کو ایک شعبے میں جیسے تیسے ایوارڈ مل گیا تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اب ملک کے سارے ایوارڈ اس کی ذات کے گرد لُڈیاں ڈالنا شروع ہو جائیں۔ دنیا بھر میں کسی بھی شعبے میں ایک دو ایوارڈ لینے کے بعد معقول لوگ سرِ عام اعلان کر دیتے ہیں کہ اب آیندہ یہ سلسلہ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے وقف ہونا چاہیے لیکن ہمارے ہاں توجب تک عزرائیل آ کے دروازے کی کال بَیل پہ ہاتھ نہ رکھ دے، دنیاوی عزت و شہرت کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہنے دیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ جس گریڈ میں ملازمت میں داخل ہوتے، بعض اوقات اسی میں ریٹائر ہو جاتے لیکن شکوہ نہ کرتے۔ اس دوران ایسا ایسا خوبصورت اور یادگار کام کر گئے کہ صدیاں سلامی دیتی رہیں گی، لیکن اب تو ڈھنگ کا کوئی کام کریں یا نہ کریں لیکن بڑے سے بڑے گریڈ کے جلد از جلد حصول کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا رجحان ہے۔ معیار کے بجائے مقدار کی چوکھٹ پہ سجدے ہو رہے ہیں۔ ہر چیز کے ڈھیر لگا لینے کا دستور عام ہے۔
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لگتا ہے زندگی کا مقصدِ وحید ہی یہ رہ گیا ہے کہ فیس بک اور دیگر ایپس پہ زیادہ سے زیادہ جھوٹے سچے دوستوں اور فالورز کی قطاریں لگا لی جائیں۔ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ پوسٹیں چھلکائی جائیں، ان پہ زیادہ سے زیادہ لائک اور کمنٹس حاصل ہوں۔ ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرہ ہے وہ ایک دن میں تصویروں اور سلفیوں کے ڈھیر لگانے میں مصروف ہے۔ یہ انسان کے اندر کی ذخیرہ اندوزی کا اظہار نہیں تو کیا ہے؟ اس کے علاوہ بھی آپ یوں سمجھ لیں کہ حد سے بڑھا ہوا پیٹ، ضرورت سے بڑا گھر، اوقات سے بڑی گاڑی، استعمال سے زیادہ کپڑے، خواہ مخواہ کا دکھاوا، جھوٹی نمود و نمائش، بلا وجہ کی پھوں پھاں، ضرورت سے زیادہ آکڑ، دعوتوں پہ رنگا رنگ کھانوں کی ڈشیں، شادیوں پہ مہمانوں اور براتیوں کی تعداد، پلاٹوں پہ قبضے، جدید سے جدید اشیا کی وافر خریداری، یہ سب بھی ذخیرہ اندوزی کی مکروہ ترین شکلیں ہیں۔
آپ ذرا اپنی آج کی بے قرار زندگی کا ماضی سے موازنہ کر کے دیکھ لیں، تیس چالیس سال پہلے ہماری زندگیوں میں مادی چیزوں کیلئے اس قدر دوڑ، اس درجہ شدت شامل نہیں تھی۔ مَیں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ہوس اور شہدے پن کا یہ اظہار بھی اس معاشرے کو خاندانِ شریفیہ کی دین ہے۔ یہ جو مال و دولت کے حصول کی دوڑ، زمینوں مکانوں، پلاٹوں، گاڑیوں، مہنگی سے مہنگی گھڑیوں، قیمتی لباس، گھر کے ہر نکمے سے نکمے فرد کیلئے بھاری سے بھاری اکاؤنٹوں، ملک سے باہر جائیدادوں کی چوہا ریس انھی کی حکومتوں کا تحفہ ہے، جس کے نتائج آج ہم سب کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ شاعر نے ان رویوں کی کیا عمدہ تصویر کشی کی ہے:
جب سے ملی ہے خوانچہ فروشوں کو خواجگی
تالے پڑے ہوئے ہیں ہنر کی دکان پر