رومانی مزاج رکھنے والی قوم ہرآن مردے از غیب کے انتظار میں رہتی ہے۔ لہٰذا جو شخص ان کے دکھوں کی نشاندہی کرتا ہے اور عطائی حکیموں کی طرح ان کے جملہ امراض کا کافی و شافی علاج اپنی ذات کو قرار دیتا ہے اس کے ساتھ لوگ اپنی ساری امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی:
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی
اس وقت میرا موضوع ادب میں رومانیت کی تحریک نہیں کہ یہ تحریک یورپ میں کب چلی اور پھر ہمارے ہاں 19 ویں صدی میں اس کا کب غلغلہ بلند ہوا۔ بس اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادب ہو یا سیاست یا ثقافت ان میں رومانی طرز عمل سے کیا مراد ہے؟
جب کسی تحریر بیانیے یا رویے میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو تو یہ رومانی طرز عمل ہو گا۔ جناب عمران خان نے رومانی طرز عمل کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کو سب ٹھیک ہو جائے گا کی نوید سنائی تو قوم کے رومانیت پسند طبقے جن میں نوجوان پیش پیش تھے ان کی طرف لپکے۔ اس وقت کسی نے یہ سوچا نہ غور و فکر کیا کہ خان صاحب جو کہہ رہے ہیں وہ سب کچھ عملاً کیسے کریں گے۔ خان صاحب نے ہمیشہ کے لئے کشکول گدائی توڑ دینے اور آئی ایم ایف سے منہ موڑ لینے کے بلند بانگ دعوے کئے تھے مگر حقیقت کی دنیا میں کیا ہوا، سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں کسی حکمران کے زمانے میں آئی ایم ایف سے ایسی ہولناک ڈکٹیشن نہیں لی گئی تھی جو خان صاحب نے کوچہ رقیب میں سر کے بل جا کر بنفس نفیس لی۔ آج پاکستان میں جتنی کم شرح نمو ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی اور جتنی زیادہ مہنگائی ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
خان صاحب نے صحت اور تعلیم کے شعبے انقلابی تبدیلیاں لانے کی خوش خبری قوم کو سنائی تھی مگر برسر اقتدار آتے ہی انہوں نے صحت اور تعلیم کے بجٹ میں بے حد کمی کر دی۔ آج ذرا پنجاب میں جا کر سرکاری ہسپتالوں کا حال دیکھیں۔ مریضوں کو مفت ادویات نہیں ملتیں، کم قیمت لیبارٹری ٹیسٹوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ مریضوں سے بنیادی سہولتوں کے بھی چارجز وصول کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز امریکہ سے آئے ہوئے کئی ڈاکٹروں سے ملاقات ہوئی جو خان صاحب کے مداح اور بہی خواہ تھے۔
نشتر میڈیکل کالج ملتان سے فارغ التحصیل ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ کالج کی ایلو مینائی نے فنڈز اکٹھے کر کے نشتر ہسپتال ملتان کے شعبہ دل کے لئے گراں قیمت لیب جرمنی سے منگوا کر دی مگر حکومت کی طرف سے اس کے لئے درکار مختصر تربیت یافتہ عملہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے فراہم نہیں کیا گیا۔ لہٰذا ابھی تک یہ لیب مکمل طور پر آپریشنل نہیں ہو سکی۔ فنڈز کی فراہمی تو رہی ایک طرف حکومت انتظامی استعداد کی فراہمی میں بھی بڑی حد تک ناکام رہی ہے۔ اس طرح اڑھائی کروڑ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا اور طبقاتی تعلیم کا خاتمہ اور ایک یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا خواب بھی محض خواب پریشاں بن کر رہ گیا۔
جناب خان صاحب نے پارلیمنٹ کی سربلندی کے لئے بھی بہت دعوے کئے تھے اور قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر ہفتے پارلیمنٹ میں آیا کریں گے اور برطانوی پارلیمنٹ کی طرح براہ راست ممبران کے سوالوں کے جواب دیں گے۔ خان صاحب نے الیکشن کمشن کو خود مختار بنانے اور اداروں کو مضبوط کرنے کے بھی دعوے کئے تھے۔ خان صاحب ڈیڑھ برس کے عرصے میں غالباً چار چھ بار ہی قومی اسمبلی یا سینٹ گئے ہیں اور وہ بھی کسی خاص ایونٹ کے موقع پر۔ جہاں تک ایوان میں قانون سازی کا تعلق ہے کہ جس کے لئے اسمبلیاں منتخب کی جاتی ہیں وہ تو باب ہی خان صاحب نے بند کر دیا ہے اور عملاً پارلیمنٹ کو تالا لگا دیا گیا ہے۔ خان صاحب سے حسب منشا و قانون سازی کا آسان طریقہ دریافت کر لیاہے اور وہ ہے صدارتی آرڈی ننس فیکٹری۔ خان صاحب جب چاہتے ہیں "کن" کہتے ہیں "فیکون" ہو جاتا ہے اور کھٹ سے پردہ غیب سے ایک نیا قانون بن بنا کر اور ڈھل ڈھلا کر سامنے آ جاتا ہے۔
جہاں تک معیشت و سیاست اور خارجہ امور کا تعلق ہے ان میں تو خان صاحب کی حکومت کی ناکامی کھل کر قوم کے سامنے آ گئی ہے۔ تقریباً ہر معاملے میں خان صاحب یو ٹرن لے چکے ہیں۔ خان صاحب نے یو ٹرن پر ہونے والی تنقید کی پیش بندی کے لئے یو ٹرن کو کمال سیاست قرار دے ڈالا ہے۔ اب لے دے کے خان صاحب کے پاس ایک ہی نعرہ بچا تھا اور وہ کرپشن کا خاتمہ تھا۔ خان صاحب احتساب بذریعہ نیب کو عملی طور پر جملہ مالی اور انتظامی خرابیوں کے دور کرنے کے لئے بطور تریاق اختیار کر چکے تھے۔ اب خان صاحب نے نیب کے بارے میں ترمیمی آرڈیننس جاری کروا کے اس خیال کو تقویت دی ہے کہ خان صاحب نے بالآخر نیب کے معاملے میں بھی یو ٹرن لے لیا ہے اور نیب کے پرکاٹ دیے ہیں، اب نیب تاجروں اور بیورو کریسی پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا۔
بہت سے عوامی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے تاجروں کا کندھا استعمال کر کے نیب کو عضو معطل بنا دیا ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی اپنے ادوار میں نیب ختم کرنے میں ناکام رہیں جبکہ خان صاحب نے اپنے دعوے کے برعکس یہ کام بھی کر دکھایا ہے۔ اپوزیشن حلقوں کی رائے میں پی ٹی آئی پرویز خٹک، محمود خان، زلفی بخاری اور خود عمران خان کو نیب کے احتساب سے بچانے کے لئے یہ ترمیمی آرڈی ننس لے کر آئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست دان، تاجر اور بیورو کریٹس سابقہ نیب آرڈی ننس کو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ بلا شبہ نیب کو قانون کے تابع کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں نیب سے رہائی پانے والے ایک سابق سرکاری افسر نے بتایا کہ یہ ادارہ اغوا برائے تاوان بن چکا ہے۔ داد نہ فریاد۔ تاہم جناب عمران خان نے جس انداز سے آرڈی ننس کے ذریعے یہ ادھورا کام انجام دیا ہے اس سے بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ جب سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ "نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے" تو اسے حکومتی حلقوں نے نشانہ تنقید بنایا تھا۔ زرداری صاحب کے اس قول میں بڑی صداقت تھی۔ اگر آپ نیب جیسے کسی ادارے سے تاجروں اور صنعت کاروں کو ڈذرا دھمکا کر رکھیں گے تو کون سرمایہ کاری کرے گا اور قدم قدم پر نیب کی پیشیاں بھگتے گا اور قید کاٹے گا۔ جناب شاہ محمود قریشی کی سادگی ملاحظہ کیجیے، فرماتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر ہم نے نیب آرڈی ننس میں ترمیم کی ہے اور اب حزب اختلاف ہی ہم پر تنقید کررہی ہے۔ اگر حکومت دل سے نیب کے مشرفی غیر جمہوری طریق کار کو مشرف بہ قانون کرنا چاہتی تھی تو اسے آرڈی ننس کے بجائے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی شمولیت کے ساتھ دونوں ایوانوں میں متفقہ طور پر قانون سازی کرنی چاہیے تھی۔
تمام شعبوں میں پی ٹی آئی اپنی ناقص کارکردگی اور پے بہ پے یو ٹرنز کے بعد خان صاحب کے پاس احتساب کا آخری ہتھیار بچا تھا۔ جناب عمران خان نے نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے یہ آخری ہتھیار بھی ڈال دیا ہے۔