سوال اتنا سادہ نہیں کہ پہلے کون سی آگ بجھانی ہے۔ کورونا کی آگ یا پیٹ کی آگ کیونکہ ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
جناب وزیر اعظم عمران خان نے تعمیراتی شعبے کی بے پناہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کے لئے بہت سی رعائتوں کا اعلان کیا ہے۔ مگر یہ بڑا اعلان اس وقت ہوا ہے، جب کورونا کی تباہ کاریاں ہر گزرتے دن کے ساتھ سارے پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔ اگر تعمیراتی شعبہ کام شروع کرتا ہے، تو اس کے ساتھ منسلک درجنوں چھوٹی بڑی صنعتوں میں بھی کام شروع ہو جائے گا۔
عام حالات میں معیشت کے منجمد پہیے کو متحرک کرنے کے لئے یہ رعائتیں بہت مفید گردانی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی رعایت تو یہ ہے کہ آپ پراپرٹی میں، مکانوں، کمرشل، پلازوں اور دوسری عمارتوں میں دل کھول کر سرمایہ کاری کریں۔ کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے۔ یہ رقم بلیک منی ہے یا وائٹ منی۔ بظاہر اتنی خوشنما پیشکش کی جناب عمران خان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ سب سے پہلی قیمت تو یہ ہے کہ انہوں نے نامعلوم یا بلیک منی پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور زمین و مکان کی فروخت پر بھاری بلکہ بہت بھاری ٹیکس عائد کر رکھے تھے۔
ان ٹیکسوں کے بوجھ تلے ہر طرح کی تعمیر اورزمین کی خریدوفروخت کا کاروبار تقریباً دم توڑ چکا تھا، اب اسے حیات نو بخشنے کے لیے خان صاحب کو ایک خصوصی فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ اس ایمنسٹی سے جناب عمران خان کی تحریک انصاف کو بہت بڑا سیاسی و اخلاقی دھچکا بھی لگا ہے کیونکہ خان صاحب کہتے تھے میں کسی قیمت پر بلیک منی کو وائٹ منی کرنے کی اجازت نہیں دوں گا مگر اب انہوں نے نہایت فراخدلی سے اجازت دی ہے۔
اس وقت ساری دنیا کی اول و آخر ترجیع کورونا کے خلاف جنگ ہے، اس جنگ میں چین سمیت ساری دنیا نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ لاک ڈائون کی پالیسی ہے۔ گزشتہ روز ہی ایوان وزیر اعلیٰ لاہور میں چینی ڈاکٹروں اور ماہرین کی ایک ٹیم نے جناب عثمان بزدار اور وزیر صحت یاسمین راشد سے ملاقات کی ہے۔ چینی ڈاکٹروں اور چیف نرس نے اس وائرس کی روک تھام کے لئے چین میں اپنے مشاہدات بیان کئے اور زور دے کر کہا کہ پنجاب میں کم از کم 28 دنوں کے مکمل لاک ڈائون کو یقینی بنائیں۔
جناب بزدار نے چینی ڈاکٹروں اور ماہرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس وائرس پر قابو پانے اور اس سے خلق خدا کو نجات دلانے کے لئے دنیا میں سب سے کامیاب چین کا ماڈل ہے۔ چینی ڈاکٹروں نے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کورونا سے متاثرین کو اس مہلک بیماری سے محفوظ کرنے کے لئے کورونا کے علاج کے لئے مختص ہسپتالوں میں داخل کرانا انہیں گھر پر رکھنے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ اب اگر وفاقی حکومت کی حوصلہ افزائی سے تعمیراتی شعبے اور اس سے منسلک دیگر صنعتوں میں زور شور سے کام شروع کر دیا جاتا ہے تو جن ورکرز کو کورونا ہو گا وہ صحت مند ورکرز کو منتقل کر دیں گے۔
اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ بیک وقت کورونا کو کنٹرول بھی کیا جائے گا اور کچھ صنعتوں کو متحرک بھی کیا جائے گا تو یہ دو متضاد کام کیسے ہوں گے؟ اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ وفاق کے اعلانات صوبائی حکومت کی لاک ڈائون پالیسی ناکام بناتے محسوس ہو رہے ہیں۔ احساس پروگرام کی ڈائریکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس دیہاڑی دار مزدوروں کے کوئی اعداد و شمار نہیں۔
اگرچہ جناب وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ جنوری سے کورونا سے نبرد آزمائی کے لئے تیاری کر رہے ہیں مگر ابھی تک مکمل لاک ڈائون ریلیف اور بجلی و گیس کے بلوں وغیرہ کے بارے میں کوئی واضح حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی اور نہ ہی آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور سعودی عرب و یو اے آئی جیسے دوستوں سے قرضوں کی شرائط نرم کرنے کے بارے میں کوئی دو ٹوک بات کی گئی ہے۔ جہاں تک ریلیف کا تعلق ہے تو حکومت کی طرف سے ابھی تک صرف تیاریاں ہی تیاریاں ہیں مگر کسی کو کوئی امداد نہیں ملی۔ اس لئے ہزاروں لوگ گورنر ہائوس لاہور اور کئی دوسرے مقامات پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پنجاب، سندھ اور دوسرے صوبوں میں الخدمت نے سب سے بڑھ کر لوگوں کو ان کے گھروں تک جا کر امداد پہنچائی ہے۔ الخدمت کے علاوہ اخوت اور بعض مقامی فلاحی تنظیمیں حتی المقدور بے وسیلہ لوگوں تک اشیائے خورو نوش پہنچا رہی ہیں۔ میرے شہر سرگودھا میں کچھ نوجوانوں نے ہمت مرداں مدد خدا کے اصول پر" ہیلپ سرگودھا "کے نام سے پرجوش طریقے سے لوگوں کی مدد کا کام شروع کیا، اب انہیں شہر کے تاجر اور اہل خیر بڑھ چڑھ کر فنڈز مہیا کر رہے ہیں۔ اس تنظیم سے وابستہ نوجوان شہر کے اندر اور شہر کے باہر کئی کئی میل تک جا کر گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں پر کار خیر انجام دے رہے ہیں مگر ابھی تک کہیں "ٹائیکگر فورس" کے ٹائیگرز دکھائی نہیں دے رہے۔
حکومت کے جو مشیر اور وزیر ہیں آئے روز ان کے اخلاص اور مہارت کا بھانڈا پھوٹتا رہتا ہے، حکومت روپے کی گرتی ہوئی قدر اور مستقبل کی بھیانک اقتصادی صورت حال کو سنبھالنے کے لئے صنعت کاروں، چیمبر آف کامرس اور سٹاک ایکسچینج کے ماہرین سے مشورہ کیوں نہیں کرتی۔ اپوزیشن اور فلاحی تنظیموں سے تعاون کیوں نہیں کرتی؟
بلا شبہ یہ بہت بڑا سوال ہے کہ پہلے کون سی آگ بجھا لی ہے، کورونا کی یا پیٹ کی آگ؟ امیر غریب دنیا تو یہی مشورہ دے رہی ہیں کہ پہلے کورونا کی آگ بجھائیں پھر معیشت کا پہیہ تیز رفتاری سے چالو کریں۔ حکومت وسیع تر مشاورت سے بلاتاخیر فیصلہ کر لے۔ بے یقینی سے بڑھ کر کوئی اور بڑی آفت نہیں۔