آج کے ترقی یافتہ دور میں جب خواتین ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹیوں کو سرکرتے ہوئے مردوں کے شانہ بہ شانہ چلتی ہوئی خلاؤں تک اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں، وہاں ابھی تک خواتین کو صحت کے بنیادی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تعلیم کی شرح میں اضافے اور خواتین میں خود آگہی کے عمل سے معاشرے میں بیماریوں کی شرح میں کمی تو آئی ہے مگر ابھی تک ان طبی مسائل پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
چھاتی کا کینسر یا بریسٹ کینسر جو دنیا بھرکی خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام کینسر ہے یہ زیادہ تر40 تا 60 سال کی عمر میں خواتین میں زیادہ ہوتا ہے مگر اب کم عمر کی خواتین بھی اس خوفناک بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں اور اگر کسی خاتون کے خاندان میں اس کا کوئی کیس ہسٹری موجود ہوتو اس کو بریسٹ کینسر ہونے کے امکانات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ بریسٹ کینسرکی شرح پاکستان میں موجود ہے۔ ہر سال تقریباً نوے ہزار خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوتی ہے جو چالیس ہزار خواتین میں موت کی وجہ بنتا ہے۔
وہ خواتین جو اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں وہ اس بیماری سے نسبتاََ محفوظ رہتی ہیں اور اگر اس بیماری کی ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص ہو جائے تو زیادہ تر خواتین چھاتی کے کینسر سے صحت یاب ہو سکتی ہیں۔ اس بیماری کی تشخیص خواتین خود بھی کرسکتی ہیں یا پھر اپنے قریبی مرکز صحت سے چھاتی کے ٹیسٹ جسے میموگرافی کہتے ہیں کے باقاعدہ معائنہ سے اس کی بر وقت تشخیص کرواسکتی ہیں۔ یہ معائنہ ہر عورت کو 30 سال کی عمرکے بعد ہر ماہ یا کچھ مہینوں بعد لازمی ایک بارکروانا چاہیے تاکہ اگر اس بیماری کا پتہ چلنے کی صورت میں فوری علاج شروع کیا جائے، کیونکہ جتنی جلدی علاج شروع ہوگا اتنا ہی خاتون کے صحت یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہونگے۔
پاکستان میں بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ خواتین میں رحم کے سرطان یعنی سروائیکل کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، شادی شدہ خواتین کو ہر دوسال کے بعد پیپ اسمیئر (Pap Smear) کا ٹیسٹ لازمی کروانا چاہیے۔ پیپ اسمیئر ایک نہایت سادہ سا ٹیسٹ ہوتا ہے جس کے ذریعے رحم کا معائنہ کرکے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ پوری طرح صحت مند ہے یا نہیں۔ ہر دوسال بعد رحم کا ٹیسٹ کروانا رحم یا بچہ دانی کے کینسر سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے، کیونکہ اس ٹیسٹ کے ذریعے رحم کے کینسر کی ابتدائی علامتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور پھر مزید تشخیص کے بعد کینسر کے آخری مرحلے تک پہنچنے سے قبل اس کا مناسب سدِباب کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ خواتین میں ماں بننے کے دوران جو جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں ہوتی ہیں ان کی وجہ سے بھی بعض خواتین اس دوران مختلف پیچیدگیوں سے دوچار ہوجاتی ہیں مگر ایک صحت مندانہ ماحول اور طرز ِ زندگی اپنا کر ان عوامل سے بچا جاسکتا ہے جو ماں بننے کے دوران کسی بھی عورت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور جس کی بنیادی وجہ لاعلمی اور آگاہی کا فقدان ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ اسی لیے مختلف بیماریوں سے بچنے کے لیے ایک اچھی صحت کا حصول بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ ایک صحت مند ماں ہی ایک مقید مستقبل کو پروان چڑھاسکتی ہے۔ اچھی صحت کا حصول تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی روزمرہ کی عادات اور رویوں میں مثبت تبدیلیوں کے ساتھ اپنی صحت کا بھی خاص خیال رکھیں۔
روزانہ تقریباَ آدھے گھنٹے کی ورزش کو اپنا معمول بنالیں جو ہماری صحت کے لیے بہترین ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غیر فعال اور سست رہنے والی خواتین بڑھاپے کی طرف تیزی سے گامزن ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کاہلیت پسندی کی حامل خواتین میں مٹاپے، ذیا بیطس، دل کی بیماری کے ساتھ ساتھ جوڑوں کے درد کے مسائل بھی اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ صبح کا ناشتہ لازمی کریں کیونکہ صبح کا ناشتہ ہمارے سارے دن کی طاقت کا باعث بنتا ہے، مگر ناشتے میں گھی کے پراٹھے اور بھاری اور چکنائی سے بھرپور خوراک کے بجائے ہلکی پھلکی غذا کا استعمال کرنا چاہیے۔
آٹھ گھنٹے کی مکمل نیند ہمیں پوری تازگی فراہم کرتی ہے اور ہائی بلڈ پریشر، کمزور قوتِ مدافعت اور موٹاپے سے بھی بچاتی ہے اسی لیے ایک مکمل اور بھرپور نیند لیں اور رات دیر تک جاگنے سے پرہیز کریں۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ خواتین جو ہمیشہ پرُامید رہتی ہیں ان میں دل کی بیماریوں کی شرح نسبتاََ کم ہوتی ہیں اور ان کی عمریں بھی طویل ہوتی ہیں، اس لیے ہمیں چاہیے کہ فضول اور بے جا کی پریشانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کریں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یوگا اور مراقبہ خواتین کی جسمانی اور دماغی صحت پر بے حد مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ریسرچ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ امید پرست خواتین میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور وہ کسی بیماری کی صورت میں اپنے علاج پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ کیونکہ ان میں جینے کی امنگ ہوتی ہے جو ان کو بیماریوں سے لڑنے کی طاقت دیتی ہے اور اس کے علاوہ معمول سے ہٹ کر کھانا کھانے کے علاوہ ذہنی دباؤ بھی خواتین میں وزن کے اضافے کا باعث بنتا ہے۔
ذہنی دباؤیا پریشانی کے باعث خواتین کا وزن ایک سال میں اندازاََ چھ سو گرام سے زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ لہذا اپنے دماغ کو پرُسکون رکھیں اور مختلف بیماریوں سے بچنے کے لیے باقاعدگی سے اپنا مکمل چیک اپ کرواتی رہیں کیونکہ ایک صحت مند ماں، صحت مند بیوی اور ایک صحت مند بیٹی ہی ایک صحت مند معاشرے کو تشکیل دے سکتی ہے جہاں وہ اپنی خوابوں کی تکمیل کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے معما روں کو بھی ایک خوبصورت جہاں فراہم کرسکتی ہیں۔