پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو گردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ گردوں کے امراض کا عالمی دن منانے کا سبب اس مہلک مرض سے متعلق عوام الناس میں شعور پیدا کرنا ہے تا کہ گردے کے مریضوں کو بروقت تشخیص اور فوری علاج ممکن کیا جا سکے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 85 کروڑ افراد گردوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں جب کہ پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ سے زائد افراد اس بیماری سے متاثر ہیں اور ہر سال 50 ہزار افراد گردوں کے فیل ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
گردے انسانی جسم کا ایک بے حد لازمی جزو ہے جو خون کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ کیمیائی طور پر بھی خون کو متوازن رکھتا ہے۔ گردے ہر روز تقریبا انسانی جسم میں 200 ملی لیٹر خون اور 2 ملی لیٹر فاصل اجزاء اور زائد پانی کا اخراج کرتے ہیں اور اگر گردے یہ اجزاء بروقت اور درست طریقے سے جسم سے خارج نہ کریں تو یہ جسم میں رہ کر جسم کے اندرونی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں اور جسم کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
گردے انسانی جسم میں پانی اور نمکیات کے توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جسم میں پوٹاشیم، فاسفورس، کیلشم اور سوڈیم میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو انسان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے جب کہ جسم سے زیادہ پانی کے اخراج اور پانی کی کمی کی صورت میں پانی کو جسم کے اندر ہی رکھنا گردے کی اہم ذمے داری ہے۔ گردوں کے مرض میں مبتلا افراد کے خون سے زہریلے اور فاصل مواد کو خارج کرنے کی صلاحیت بتدریج ختم ہو جاتی ہے طبی ماہرین کے مطابق اس مرض کی بروقت اور درست تشخیص نہ ہونے کے سبب گردے آہستہ آہستہ ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ڈائی لیسسز یا گردوں کی پیوندکاری کی نوبت ہو جاتی ہے۔
گردوں کی بیماری کی خاص علامات میں بھوک نہ لگنا یا کم ہو جانا، کھانے کی خواہش ختم ہو جانا، یاد داشت کی کمزوری، متلی اور قے کی سی کیفیت، چڑچڑا پن، تھکاوٹ اور جسم میں طاقت کا ختم ہو جانا، جسم میں خون کی مقدار کم ہو جانا، چہرے پر پیلاہٹ، خشک جلد، بے آرامی، رات کو بار بار پیشاب آنا، چہرے پر سوجن اور پیشاب میں شوگر یا پروٹین کا شامل ہو نا بھی شامل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گردے ایک ہارمون ایتھرو پائیوٹین (Erythro Poitin) نامی ہارمون پیدا کرتا ہے جسکی مدد سے خون کے سرخ خلیے پیدا ہوتے ہیں اور ہمارا خون آکسیجن جذب کرتا ہے لیکن گردوں میں خرابی کی وجہ سے یہ ہارمون درست طریقے سے پیدا نہیں ہوتا ہے اور جسم خون کی کمی کا شکار ہو نے لگتا ہے اور جسم زیادہ جلدی تھکن اور کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔
گردوں کی خرابی کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، جن میں بلڈ پریشر، یورک ایسڈ اور ذیابیطس سب سے زیادہ اہم کر دار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان بیماریوں کی وجہ سے گردوں میں موجود نیفرون متاثر ہو کر ختم ہو جاتے ہیں اورگردے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریض عموماً دس سال سے بیس سال کی مدت کے بعد گردوں کی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خون میں شوگر کے نامناسب کنٹرول کی وجہ سے خون کی نالیوں میں تنگی آنا شروع ہو جاتی ہے اور آنکھ، گردہ، دماغ اور دل وغیرہ پر خون کی مناسب مقدار پہنچ نہیں پاتی ہے جسکی وجہ سے وہ عضو ختم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر آنکھ کی بینائی متاثر ہوتی ہے، اس کے بعد گردے بھی اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گردوں کے امراض خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت کو بھی متاثرکرتے ہیں جب کہ یہ حمل اور پیدائش میں پیچیدگی اور نومولود میں بھی مختلف مسائل کا باعث بنتے ہیں لہٰذا شوگر کے مریضوں کو اپنی ذیابیطس بہت ہی مناسب حد تک کنٹرول میں رکھنی چاہیے تا کہ جسم کے مختلف حصے اس کی وجہ سے خراب نہ ہوں جب کہ ہائی بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول میں رکھنا بیحد ضروری ہے کیونکہ گردے فیل ہونے کے ساتھ ساتھ دل کے دورے اور فالج کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشرکو چونکہ خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے جسکی اہم علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں لہٰذا ہر فرد کو کم ازکم ایک یا دو مہینے میں ایک دفعہ لازمی اپنا بلڈ پریشر چیک کر وانا چاہیے۔
گردوں میں خرابی کی ایک وجہ فضائی آلودگی بھی ہے۔ تحقیق کے مطابق فضاء میں موجود تیل اورگیس کے جلنے سے خطرناک عنصر کیڈیم پیدا ہوتا ہے جو کہ گردوں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے اور تمبا کو نوشی کرنے والے افراد کے پھیپھڑوں میں کیڈیم بہت تیزی سے اپنا اثر دکھاتا ہے جسکی وجہ سے ان میں گردوں کو نقصان پہنچنے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔
گردے کی جھلی کی سوزش، گردے کی پتھری اور پیشاب کے راستوں کا انفیکشن بھی گردے کی بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں جب کہ موٹاپے سے متاثرہ افراد میں عام آدمی کی بہ نسبت گردوں کی خرابی کی شرح 83 فیصد ہے۔ کچھ افراد موروثی طور پر موٹے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر حالات میں اس کا تعلق طرز زندگی کے ساتھ ہے۔ دفاتر میں کام کی زیادتی، نیندکی کمی، ذہنی دباؤ، ورزش سے دوری، فاسٹ فوڈ، سافٹ ڈرنکس اور میٹھی اشیاء کا زیادہ استعمال انسانی صحت کے دیگر مسائل کے ساتھ موٹاپے میں اضافے کا باعث بھی بنتا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ موروثی وجوہات کی بنیاد پر بھی گردوں کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثلاً کزن میرج اور بعض خاندانوں میں خاندان در خاندان شادیاں چلنے کے باعث گردوں کی بیماریاں بھی نسل در نسل منتقل ہوتی جاتی ہیں۔ کچھ دوائیاں جو ہم روز مرہ طور پر درد دور کرنے کے لیے یا مختلف اسباب میں استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور تھوڑے سے درد میں بھی ادویات کھانا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ درد کو ختم کرنیوالی ادویات گردوں کے لیے زہر قاتل کا کام کرتی ہیں لہٰذا بغیر ڈاکٹرکے مشورے کے کوئی بھی دوا استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ گردے میں مسئلہ پیش آنے کی صورت میں اس کی با آسانی تشخیص کی جا سکتی ہے جس کے لیے پیشاب کا مکمل اور خون ٹیسٹ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ الٹراساؤنڈ سے گردے کا سائز اور ساخت بھی دیکھی جاتی ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کو اپنے پیشاب میں micro albumin، چیک کرواتے رہنا چاہیے اور ہر صحت مند فرد کو ہر چھ ماہ میں اپنا پیشاب چیک کروانا چاہیے۔ اس سے گردوں کی درست صورت حال سامنے آ جاتی ہے، اس کے علاوہ یورک ایسڈ کیسٹرول، شوگر وغیرہ کے ٹیسٹ بھی کروانے چاہیے۔ گردوں کی بیماری سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے اور گردوں کی کارکردگی کو غذا اور بہتر معمولات زندگی اپنا کر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
تمباکو نوشی میں کمی انتہائی ضروری ہے اور اسی طرح نمک اور تیز مرچ اور تیل کا استعمال کم سے کم کیا جانا چاہیے تا کہ بلڈپریشرکنٹرول میں رہے۔ اس کے علاوہ باقاعدگی سے ورزش اور پانی کا زیادہ استعمال گردوں کی صحت مندی کے لیے اکسیر کا کام کرتا ہے۔ پانی کے زیادہ استعمال سے فاسد مادے پانی کے ساتھ جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ ذیابطیس کے مریض کو خاص طور پر گردے اور مثانے کے انفیکشن کا خیال رکھنا چاہیے اور پیشاب میں جلن کی صورت میں فورا ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔