بارہ مارچ کی شب الخدمت فائونڈیشن کے ہیڈ آفس میں عشائیے پر مدعو میڈیا سے تعلق رکھنے والے چند افراد پر مشتمل نشست تھی۔ الخدمت فائونڈیشن کے سربراہ عبدالشکورصاحب نے ایک مختصر تقریر میں فائونڈیشن کی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔ ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں بیان کردہ سرگرمیوں کاوضاحت کے ساتھ احاطہ کیا گیا تھا۔ فائونڈیشن کی بلڈنگ کی خصوصیت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی واضح جھلک تھی۔ منظم اورشفاف ماحول میں کسی بھی قسم کی گھٹن کااحساس نہیں تھا۔ گفتگومیں بھی روایتی مذہبی جھکاؤ یکسر غائب تھا۔ اگر ایک جملے میں اس تمام ماحول کو بیان کیا جائے تو سمجھ لیں کہ جماعت اسلامی اب ماڈرن ہو گئی ہے۔ ماڈرن سے مراد دنیاوی رنگ میں رنگنا نہیں بلکہ نئی سوچ اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنی کارکردگی کو ڈھالنا ہے۔ اس تبدیلی کی بہت عرصے سے ضرورت تھی۔ چند مذہبی تنظیموں، جن میں الہدٰ ی پیش پیش ہے، نے بہت پہلے دین کو روائیتی بوجھ او ر گھٹن سے نکالنے کی سعی کی تھی۔ ا پنے فالورز میں اعتماد پیدا کیا کہ وہ دین سے متعلق کسی بھی قسم کی الجھن کی وضاحت طلب کریں۔ آج وہ تمام جماعتیں اور گروہ جو الہدیٰ کے مشن کے طریقہ کار کے خلاف تھیں اسی راستے پر گامزن ہیں۔ بہر حال ابھی بھی اس ضمن میں کام کرنے کی بہت گنجائش باقی ہے۔ پاکستان میں ابھی بھی مذہبی شدت پسندی بہت زیادہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مذہب اور دنیا وی معاملات کے درمیان جوواضح فرق ہے اس کو سمجھنے کی طرف رجحان بہت کم ہے۔ اب جو یہ بات کرے تو اسے سکیولر کی گالی دے کر ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔
سیدھی بات ہے کہ مذہب ہمیں ایک فریم ورک دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی طرح کا فریم ورک رائج ملتا ہے۔ ہمارے اندر جو بیرومیٹر نصب ہے ویسے تو وہ ہی کافی ہے اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کے لیے مگر اس بیرومیٹر کے ساتھ خودسر ہونے کی صلاحیت رکھنے والا ایک آلہ بھی نصب ہے، مذہب اسی کو ریگولیٹ کرنے کا نام ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ انسان حد سے تجاوز نہ کرے۔ ہم نے کھینچ تان کر اسے واپس اپنی جگہ پر لانا ہوتا ہے۔ اب کچھ ٹھیکے دار اس آلہ پر خود براجمان ہونے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حیا کا معاملہ لے لیں۔ اسلام میں حیا کا تصور انسانی جبلت کی ہر اس چیز سے وابستہ ہے جو انسان کو افراط کی طرف لے جائے اور جس سے معاشرے میں عدم توازن پیدا ہو۔ پھر چاہے وہ کسی شخص کا سڑک پرکھڑے ہو کر گالی دینا ہو، اونچی آواز سے بولنا ہو، ناجائز طریقے سے مال کمانا ہو، ملاوٹ کرنا ہو، باہمی منافرت پیدا کرنے کے لیے غیبت یا چغلخوری کرنا ہو، یہاں تک کہ کسی کو ناحق قتل کرنا بھی۔
یہ تمام افعال بے حیائی کے زمرے میں آتے ہیں۔ مگر مذہب کے فریم ورک پر برا جمان چندافرادنے حیا کو عورت اور مرد کا معاملہ بنا کر اس طرح پیش کیا کہ تمام برائیاں ایک طرف اور اختلاط مرد و زن ایک طرف۔ آج پاکستانی معاشرے میں ہر برائی سرعام کرنے کا رواج ہے۔ سینٹ کے حالیہ الیکشن نے ہماری بے حیائی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان میں آج برائی کرنا برائی نہیں رہا۔ آج پاکستان کا مسئلہ بے روزگاری یا مہنگائی نہیں بلکہ خود سری ہے۔ یقین جانئے نوکریاں موجود ہیں لیکن کوئی ایمان داری سے کام کرنے پر راضی نہیں۔ وعدہ شکنی بلکہ اگر کہا جائے غداری ہماری دوسری عادت بن گئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ نوجوان نسل میں کام کرنے کے بجائے شارٹ کٹ سے کامیابی حاصل کرنے کی طلب ہے۔ دفاتر میں جنسی تسکین کے ذریعے نوکریاں بچانے کا عمل عام ہے۔ جن نوجوانوں میں محنت کی عادت ہے وہ اس ملک میں رہتے ہی نہیں۔ یقینا جماعت اسلامی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور اس سمت بہت کام بھی ہو رہا ہو گا۔ مولانا مودودی نے مذہب او ر سیاست کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی جو سعی کی تھی اس سے دینی جماعتوں کو شائد اس قدر فائدہ تو ضرور ہوا کہ لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ گئی۔ بہت سی جگہوں پر جیسے کہ پنجاب یونیورسٹی میں جماعت نے ایک وسیع پیمانے پر اپنے نظریات نافذ کیے۔ لیکن جس رول کی توقع تھی شائد اس پر جماعت کو ابھی بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مدت ہوئی کہ پنجاب یونیورسٹی نے کوئی لیڈر پیدا نہیں کیا۔ جیالے، مذہب کے نام پر مرنے مارنے والے اور مرد و زن کے باہمی اختلاط کے مخالفین کی ایک لمبی قطار موجود ہے لیکن کوئی ایسا شخص یا گروہ نہیں پیدا کیا جاسکا جس کے پاس ملک کو ترقی دینے اور اسے دوسری تیسری یا چوتھی طاقت کے جال سے نکالنے کا پلان ہوتا۔ اب جماعت اس کا قصور وار حکومت کو ٹھہراتی ہے کہ سٹوڈنٹ یونین پر پابندی کی وجہ سے وہ یہ کام نہ کر سکی۔ تو گزارش ہے کہ لیڈر پیدا کرنے میں کیا چیز مانع رہی۔
بھوکے کو کھانا کھلانا، یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا اور بیوہ کو سہارا دینے جیسے کام یقینا الخدمت فائونڈیشن کی طرف سے معاشرے میں عدم استحکام ختم کرنے کی بھر پور کوشش ہے۔ ہم سب کو اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالنا چاہیے لیکن اس وقت پاکستان میں بھوک مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تو اس وقت ہر ترقی پذیر ملک کا مسئلہ ہے۔ ہمارے مسئلہ بے حیائی کی غلط تشریح ہے۔ ایک بھوکے شخص سے زیادہ قابل ترس تو وہ آدمی ہے جسے ہماری عدالت انصاف نہیں دے سکتی۔ بھوک سے تو وہ شائد نہیں مرتا لیکن نا انصافی جیسی بے حیائی اسے مار دیتی ہے۔