بلوچستان کو پاکستان کا مستقبل سمجھا جاتا ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ عبد المتین اخونزادہ اس تاثر کی لاج رکھتے ہوئے بھی پرانی ازکار رفتہ باتوں سے صرف نظر کر کے کوئی ایسی بات کہیں گے جو اِن کی ترقی اور خوش حالی کا ذریعہ بنے گی، بیرونی ملکوں میں ان کے بچوں کے داخلوں کا راستہ کھولے گی اور کوئی دامن مراد ایسا بھرے گی جسے دیکھ کر نیب والے آہیں بھریں لیکن کچھ بگاڑ نہ پائیں۔ انھوں نے یہ سب نہیں کیا اور ایک ایسا خواب دیکھنا شروع کیا ہے جسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور جناب امیر العظیم جیسے سکہ بند طالب علم راہ نما اس حرکت پر انھیں سراہیں گے اور ان کی جرأت رندانہ پر انھیں سلام پیش کریں گے۔ یہ حضرات ایسا کریں تو یہ انھیں زیبا ہے کہ یہ لوگ اور ان کے بہت سے سینئر ناسٹلجیا کے اسیر ہیں اور اپنے ماضی کو یاد کر کر کے جیتے ہیں۔ ان لوگوں نے تو جو پانا تھا پا لیا جو لڑائیاں لڑنی تھیں، لڑ لیں یا لڑرہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اخونزادہ صاحب یا ان جیسے لوگوں کو اس سے کیا ملنا ہے جو وہ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے یوں بے چین ہوئے جاتے ہیں؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ اس کوچے کی آبلہ پائی سے ہم قلم گھسیٹ لوگوں کو کیا مل گیا؟ کہا جاتا ہے کہ طلبہ یونین اس لیے ضروری ہیں کہ یہ قیادت کی نرسری ہے، انسان بات کرنے کا ڈھنگ سیکھ جاتا ہے، زمانے کو سمجھنا اور لوگوں کو پرکھنا آ جاتا ہے۔ اس کٹھالی سے تپ کر نکلنے والے کندن بن جاتے ہیں۔ عبدالمالک بلوچ کی طرح وزیر اعلیٰ بن جائیں تو وہ کچھ ایسا کر گزرتے ہیں جوکوئی اور نہیں کرپاتا۔ روٹھے ہوئے مننے لگتے ہیں اور تپتا ہوا بولان گلزار بننے لگتا ہے۔ جاوید ہاشمی جیسی قسمت پائیں تو باغی کہلاتے ہیں اور منور حسن بن جائیں تو درویش۔ ممکن ہے کہ یہ سب درست ہو، اس لیے میں ایسی بڑی بڑی باتیں سکہ بن طالب علم راہ نماؤں پر چھوڑتا ہوں اور اپنی بساط کے مطابق بات کرتا ہوں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب جاڑے گزر چکے تھے لیکن گرمی نے زور ابھی پکڑا نہیں تھا کہ فیصلہ ہوا کہ ہفتہ طلبہ منایا جائے۔ ہفتہ طلبہ کے ذکر سے دل میں لڈو پھوٹے اور کانوں میں گھنگرو کی چنچل آواز نے رس گھولے۔ اس سے پہلے کہ خوابوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا، استاد مکرم پروفیسر ارشاد حسین نقوی کہنے لگے کہ چلو انعامات کا کچھ طے کرتے ہیں۔ یہ زمانہ تو جانے کس مٹی کا بنا ہوا ہے، اُس زمانے میں کالج جانے سے پہلے کالج کی کشش انسان کو مقناطیس کی طرح کھینچتی تھی۔
عزیز و اقارب اور دوست رشتے داروں کے گھروں میں ٹرافیاں اور سرٹیفکیٹ دیکھنے کو ملتے تو بتایا جاتا کہ ان کے فلاں بیٹے نے اسے فلاں کارنامے پر جیتا ہے۔ ایسی باتیں سن کر جی چاہتا کہ وقت کو مختصر کر کے بندہ کالج پہنچ جائے اور ٹرافیاں جیتنے لگے۔ بس، یہی کچھ اس وقت بھی یہی ذہن میں تھا، لہٰذا نوعمری کی بے پروائی اور لا تعلقی کی شان سے کہہ دیا کہ سر!چند ٹرافیاں اور کچھ شیلڈزاور کیا؟ شفیق استاد یہ سن کر مسکرائے اور کہا کہ یہ سب بھی ہو گا لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ چاہیے۔ وہ کیا سر؟ ،۔ وہ بھی بتاتے ہیں، تم چلو تو سہی، انھوں نے کہا۔ یوں ہم ان کے ساتھ چل دیے۔
اس سفر کی تان اردو بازار پہنچ کر ٹوٹی۔ یوں معلوم ہوا کہ نصاب کی کتابوں کے علاوہ بھی کتابوں کی ایک دنیا ہوتی ہے۔ بہت سی کتابوں کے نام تو استاد مکرم کو ازبر تھے، انھیں نکلوایا اور ایک طرف رکھ دیا۔ نئی آنے والی کتابوں کی ورق گردانی کرتے اور جلد جلد انھیں خریدنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے جاتے۔ مجھے بالکل کل کی طرح یاد ہے کہ اُس روز بہت سے نئے نام میرے علم میں آئے اور پھر یادداشت کا مستقل حصہ بن گئے۔
مثلاً مختار مسعود، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، انتظار حسین، مسعود مفتی، ہاجرہ مسرور، ان کے علاوہ اور بہت سے دوسرے۔ استاد محترم کا کسی مصنف کو متعارف کرانے کا انداز بھی خوب تھا۔ اگرچہ اس واقعے کو زمانے بیت چکے ہیں لیکن اُس کتاب کا سرورق، اُس کی ہری پیلی رنگت اور وسط سے اسودی۔ دکان دار نے شیلف سے نکال کر یہ کتاب اُن کے ہاتھ میں دی تو ان کے چہرے پر چمک آگئی اور اُسے جھنڈے کی طرح لہراتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ یہ کتاب تم نے نہ پڑھی تو کچھ نہ پڑھا۔ یہ ممتاز مفتی کی لبیک، تھی پھر کہا کہ کچھ لوگوں کے نزدیک اسے سی آئی اے نے لکھوایاہے اور کچھ کے نزدیک اس کا مصنف گمراہی کی کسی عالم گیر تحریک کا گماشتہ ہے لیکن تم ایسا کرو کہ ان سب باتوں کی طرف سے کان بند کر کے اِسے پڑھو پھر خود ہی فیصلہ کرنا یہ کتاب کسی سازش کا نتیجہ ہے یا شرارت کا۔
وہ دن بھی کیا کمال کا دن تھا، ایک تو اُس روز استاد گرامی سے ایک نئے تعلق کی ابتدا ہوئی اور دوسرے کتاب زندگی کا حصہ بن گئی۔ صرف حصہ نہیں بنی بلکہ مطالعے کا گر بھی سمجھ میں آیا کہ کسی کتاب، کسی مصنف یا کسی بھی فرد یا معاملے کو قبول یا مسترد اس لیے نہیں کر دینا کہ ابا، امی اور کسی دوست یا استاد نے ایسا کیا ہے بلکہ یہ فیصلہ خود کرنا ہے اور کتاب کے صفحے پر صرف روشنائی سے چھپے ہوئے حروف کو پڑھ کر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ دو سطروں کے درمیان وہ جو سفید جگہ ہوتی ہے جس میں بظاہر کچھ لکھا نہیں ہوتا، اسے پڑھنا ہے، اگر اس اَن لکھی تحریر کو پڑھنے کا ہنر آ گیا تو سمجھو دنیا کو جاننے کا سلیقہ بھی آگیا۔
یوں ہم نے جانا کہ ایک تحریر سطور میں ہوتی ہے اور ایک بین السطور۔ بس، اسی قسم کی تحریروں کو پڑھتے پڑھتے لکھنا بھی آ گیا، گویا سر پر کوئی کلغی سج گئی۔ تو خواتین و حضرات، ہم لکھنے والوں کے سروں پر کلغی بھی سجی ہوئی ہے اور یہاں، وہاں کچھ لوگ جانتے بھی ہیں لیکن حقیقت میں ہم ہیں کیا؟ ایک روز اس کا اندازہ بڑے ہول ناک طریقے سے ہوا۔
کچھ برس ہوتے ہیں، شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی نے کہ یہ میری مادر علمی بھی ہے، کہا کہ تم نے جو اتنے برس سے دشت صحافت کی خاک چھانی ہے تو ایسا کرو کہ جو کچھ اِدھر اُدھر سے سیکھا ہے، یہاں آکر بچوں کو بھی بتا جایا کرو۔ شعبے میں اُن دنوں ایک اینکر بھی ڈگری کے حصول کے لیے آتے تھے۔ ان صاحب سے ہماری کچھ یاد اللہ تھی۔ ایک روز پوچھنے لگے کہ سر! آپ ان دنوں کرتے کیا ہیں، عرض کیا کہ کالم لکھتا ہوں، مسکرائے اور کہا کہ وہ تو لکھتے ہی ہوں گے لیکن کرتے کیا ہیں؟
تو بات یہ ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین نے کچھ لوگوں کو لیڈر بنایا، ہم جیسوں کے ہاتھ میں قلم دیا، شعر و نغمہ کا شعور دیا اور تہذیب و ثقافت کی اہمیت بتائی، کچھ لوگوں کو کوئی اور ہنر بھی سکھایا ہو گا مگر سوال پھر وہی ہے، اینکر صاحب والا کہ یہ بھی کوئی کرنے کے کام ہیں؟ اس لیے طلبہ یونین کی بحالی وغیرہ کی باتیں چھوڑئیے ایسی بات کیجیے جس میں چار پیسے کا کوئی فایدہ ہو۔ ویسے بھی اس دیس میں اسٹوڈنٹس یونین راس کسے آتی ہے کہ اس کی بحالی کے خواب دیکھے جائیں اور پھر وہ خواب حقیقت بھی بن جائیں۔ اس لیے یہ چمن یوں ہی کانٹوں سے الجھتا رہے گا اور ہم سب اپنی اپنی بولیاں بولی کے اڑ جائیں گے۔
(مجلس فکر و دانش کوئٹہ اورباز محمد کاکڑ شہید فاؤنڈیشن کے زیراہتمام طلبہ یونین بحالی کے موضوع پر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی زیر صدارت قومی سیمینار میں پڑھا گیا۔)