Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Do Dunyain

Do Dunyain

دروازہ کھلا تو جیسے زلزلہ آگیا، اس کے بعد بیٹے کی شکل دکھائی دی۔ آج کل کے بچے اسی طرح آندھی اور طوفان بنے پھرتے ہیں۔ ممکن ہے، ہم لوگ بھی ایسے ہی رہے ہوں لیکن اپنی حماقتیں کسے یاد رہتی ہیں؟ خیر، ذکر اس نوجوان کا تھا۔ اس کی برہمی کا سبب فوراً ہی سمجھ میں آگیا۔ ہمارے وقتوں میں تعلیم اتنی مشکل نہ تھی۔

کالج سے یونیورسٹی گئے، فارغ ہوئے تو اللہ نے روز گار کا بندوبست کردیا۔ موجودہ نسل بڑی مشکل میں ہے، اسے تعلیم کے ساتھ ساتھ(انٹرن شپ کی صورت میں ) کسی نہ کسی کام میں بھی مصروف رہنا پڑتا ہے۔ اُس کے چہرے پریہ جو ہوائیاں اڑتی دکھائی دیتی تھیں، اسی مصروفیت کا "فیض" تھا۔ وہ جس فرم سے وابستہ ہے، اس کا تعلق امریکا سے ہے۔ انتظامیہ کے مطابق وبا نے اس کے کاروبار کا ستیا ناس مار دیا ہے، لہٰذا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس ادارے نے اپنے تین سو بیالیس کارکنوں کو کھڑے کھڑے فارغ کردیا۔ یہ خبر اس نوجوان پر بجلی بن کر گری۔ پہلے اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ یہ خبر گھر والوں کو سنائی پھر رات بھر جاگتا رہا۔ دوست اور ساتھی یوں بیروزگار ہو جائیں تو اسی طرح پریشان ہونا چاہیے۔

ہمارے وقتوں میں ابن صفی نام کا ایک جادو گر تھا، ہر پندرھواڑے جس کی عمران سیریز کی کتاب آتی اور دھوم مچا دیتی۔ ایسی ہی کسی کتاب میں لکھا تھا، یہ جو الفاظ ہماری زبان سے نکلتے ہیں، نکل کر کہیں تحلیل نہیں ہو جاتے، فضا میں جاکر معلق ہو جاتے ہیں، کسی میں ہمت ہے تو جاکر سن لے۔ اُس زمانے میں تو کسی کو یہ ہمت نہ ہو سکی لیکن انٹر نیٹ کے موجدوں نے کمال کردیا، ذوقِ تحقیق کی داد دی، یوں ابن صفی کا کہا درست ثابت ہوا۔ یہ ان بزرگوں کی محنت کا کمال ہے کہ سائبر ٹیکنالوجی وجود میں آئی اور زندگی کو نگل جانے والی وبا جس کے خوف سے گھروں سے نکلنا محال ہے، ورک فرام ہوم کی نعمت میسر آگئی۔ ہر چند وبا کی تباہ کاریاں اتنی وسیع ہیں کہ ورک فرام ہوم کی سہولت بھی لوگوں کو بے روزگاری سے بچانے سے قاصر ہے لیکن اس کے باوجود اس کا دم غنیمت ہے۔ یہی سبب ہے کہ گھربار، حتیٰ کہ ٹیلی ویژن پر بھی اسی کی دھوم مچی ہے۔ ٹیلی ویژن پر بیٹھی ذہین لڑکیاں انٹر نیٹ کے استعمال کی روز ایک نئی ترکیب اور نیا نسخہ بتاتی ہیں جسے آزما کرخود کو بے کاری اور بے زاری سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

جبری فراغت کے ان دنوں میں ؛ میں نے کافی فلمیں دیکھ لی ہیں۔ پتہ چلا کہ آج کل کے فلم ساز بہت سمجھ دار ہو چکے ہیں، ایسے ایسے موضوعات پر فلم بناتے ہیں کہ ایک بار کوئی دیکھنے بیٹھے تو اٹھ نہ سکے۔ وہ ایک ایرانی نژاد نوجوان کی کہانی تھی جس کا خاندانی پیشہ تو ریستورانی تھا لیکن اس کے سر پر ایکٹر بننے کا بھوت سوار تھا۔ اسی شوق کے ہاتھوں وہ اپنا خاندانی ریسٹورنٹ بیچنے کے درپے ہوگیا اور کہانی میں خاندانی ورثے سے محبت، اس کی حفاظت اور مفاد کے درمیان کشمکش کی ایسی کیفیات دکھائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے بے جان فلم زندگی میں بدل جاتی ہے۔ یہ فلم بین اسی دلچسپ کہانی میں محو تھا کہ گھنٹی بجی۔ ان دنوں ڈور بیل کا بجنا بھی قیامت ہے۔ ابھی اس صدمے سے نکلے نہیں تھے کہ گھنٹی پھر بجی، مجبوراً کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ زینت تھی، یہ عورت کچھ عرصہ قبل گھر میں کام کیا کرتی تھی، کہیں زیادہ اجرت ملی تو چھوڑ کر چلی گئی۔ وبا کے ہاتھوں اب وہ بے روز گارہے اورآنکھوں میں امید کا دیاجگائے ہر جاننے والے کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے لیکن کوئی دروازہ کھل کر نہیں دیتا۔

مونگ پھلی سردیوں کا تحفہ ہے۔ انگوٹھے اور انگشت شہادت کے زور سے مونگ پھلی کو توڑنا، پھونک مار کر گری کا چھلکا اڑانا اور چباتے چباتے باتیں بگھارنا سردیوں کی طویل راتوں کو مختصر کردیتا ہے۔ یہ سردیاں ہم نے عابد کی مونگ پھلی کی مدد سے گزاری ہیں۔ عابد عام ٹھیلے والوں کی طرح چلتر، باتونی اور چالاک نہیں کیوں کہ وہ اسکول میں پڑھتا ہے۔

اسکول سے آتا ہے تو گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ریڑھی لگالیتا ہے۔ عام طور پر فٹ پاتھ پر بوری بچھائے بیٹھا حساب کے سوال حل کرتا رہتاہے یا ٹینس یاد کرتے پایا جاتا ہے، گاہک آجائے تو خوش دلی سے اٹھ کر سودا تول دیتا ہے۔ میں کھڑکی سے روزانہ اسے دیکھتا ہوں، خاصا اداس لگتا ہے۔ سردیاں گزریں تو مونگ پھلی بھی گئی لیکن کیلے اور سیب تو اب بھی ہیں لیکن اس کی ریڑھی پر اب وہ رونق نہیں، نہ زیادہ سامان ہے اور نہ کوئی گاہک۔ مجھے حیرت ہے، اسے ابھی تک اٹھایا کیوں نہیں گیا؟ ویسے یہ بھی اچھا ہے کہ نہیں اٹھایا گیا، اسے دیکھ کر کوئی بھولا بسرا گاہک تو اب بھی آجاتا ہوگا، اٹھا دیا گیا تو پھر جانے اس کا گھر کیسے چلے؟ انٹرنیٹ کی نعمت سے ساری مشکلیں توآسان نہیں ہوتیں، دنیا میں اب بھی بہت کچھ ایسا ہے جو اس جادوئی ایجاد کی دسترس سے باہر ہے، خاص طور پر ترقی پذیر معاشروں میں، گویا یہ وبا آج جائے یا کل، آنے والے دنوں میں بھوک منہ کھولے کھڑی ہے۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر اس لیے نہیں بدلا کہ مغل در بدر ہو گئے اور انگریزوں کا بول بالا ہوگیا۔ انتظار حسین لکھتے ہیں کہ انگریزوں کے جبروت کے ساتھ ایک اور چیز بھی آئی، یہ موٹر گاڑی تھی۔ جنگ سے پہلے لوگ گھر سے نکلتے تو گھوڑے پر بیٹھتے، بہلی کی سواری کرتے یا کہارکو بلا کر ڈولی میں بیٹھ جاتے۔ یہ سب سواریاں اور ان کے چلانے والے ہندوستان کی معیشت کے ستون تھے لیکن گاڑی کے آتے ہی یہ ستون دھڑام سے زمین پر آگرے اور ایک نئے نظام کی بنیاد پڑی۔

ٹیلی ویژن کی اینکر جب یہ بتاتی ہے کہ وبا کی عطا کی ہوئی فرصت میں مصروف کیسے رہنا ہے اور بے زاری میں دل کیسے لگانا ہے تو وہ اسی طبقے کی بات کرتی ہے جسے انٹرنیٹ کے ذریعے ورک فرام ہوم کی سہولت حاصل ہے جو اس نعمت سے محروم ہیں، ان کی محرومی کا آغازتو ہو چکا لیکن ہمارے ٹیلی ویژن نے اسے ابھی سے بھلا دیا، 1957کا گھوڑا، بہلی اور ڈولی تو آج کے دہاڑی دار سے زیادہ سخت جان تھے، کسی نہ کسی بہانے اب بھی دکھائی دے جاتے ہیں لیکن دنیا ہی نہیں پاکستان کا بھی ایک بہت بڑا طبقہ اتنا سخت جان نہیں لگتا۔ ہماری انٹرنیٹ والی نسل تین سو ساتھیوں کی وقتی بے روز گاری پر دکھی ہے لیکن اسے شاید ان کروڑوں ہم وطنوں کا اندازہ نہیں جو وبا میں مرنے سے بھی پہلے موت کے منہ جاتے دکھائی دیتے ہیں۔