خارجہ تعلقات میں اعلانات سے زیادہ اشارے اہم ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی اشارے پاک ایران تعلقات کے ضمن میں بھی میسر ہیں۔ جواد ظریف اسلام آباد بعد میں پہنچے، اس سے پہلے ایک پیغام پہنچا جس میں امریکی صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کا ذکر کیے بغیر کہا گیا کہ جن کو جانا تھا، چلے گئے، ہمیں یہیں رہنا ہے۔
اس معنی خیز پیغام کے بعد جواد ظریف پاکستان چلے آئے اور انھوں عمران خان سے ملاقات میں انھیں اپنے صدر کی طرف سے کچھ اہم پیغامات پہنچائے جن کا تعلق اقتصادی تعاون سے ہے۔ اس دورے کے تعلق سے دوسرا اہم اور غیر معمولی اشارہ اس بیان سے بھی زیادہ اہم ہے۔
جواد ظریف ابھی پاکستان میں ہی موجود تھے کہ ایران کی طرف سے آمد و رفت اور دوطرفہ تجارت کے لیے کچھ انٹری پوائنٹس کھول دیے گئے اور توقع ظاہر کی گئی کہ کچھ دیگر مقامات پر پاکستان بھی ایسا ہی کرے گا۔ اس موقع پر ایران کی طرف سے یہ جو یکے بعد دیگرے اقدامات کیے گئے ہیں، سفارت کاری میں انھیں دوستانہ پہل کاری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ کی شکست کے بعد ایران کی طرف سے ایک معنی خیز بیان، جواد ظریف کا دورہ پاکستان اور باہمی تجارت کے فروغ کے لیے کچھ انٹری پوائنٹس کا کھولنا، یہ سب واقعات معمولی نہیں بلکہ اپنی ذات میں کچھ ایسے امکانات رکھتے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف علاقائی سیاست کا منظر نامہ تبدیل ہو جائے گا بلکہ اس میں خطے کی قسمت ہی بدل جانے کے امکانات پوشیدہ ہیں۔
پاکستان کے ساتھ تجارت اور مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے ضمن میں ایران اس قدر پر جوش کیوں ہے؟ اس کی وجوہات واضح ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں امریکی پابندیوں کی وجہ سے وہ بہت سے دشواریوں کا شکار رہا ہے جن پر قابو پانے کے لیے اس نے فطری طور پر اپنے پڑوسیوں، خاص طور پر پاکستان کی طرف ہی امید بھری نگاہ سے دیکھا لیکن کیا یہ محض اتفاق تھا کہ پاکستان یہ اشارے سمجھنے سے قاصر رہا؟
2015 میں استنبول میں چناق قلعے (Çanakkale) یعنی گیلی پولی جنگ کے نام سے مشہور جنگ کی صد سالہ تقریبات بڑی یادگار اور غیر معمولی تھیں جس میں دنیا بھر کے سربراہان ریاست شریک ہوئے۔ پاکستان کی نمایندگی صدر ممنون حسین نے کی۔ کانفرنس میں وقفے کے دوران وہ معمول کے پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے لابی میں آگئے اور عام مندوبین کے ساتھ گھل مل کر کافی کا لطف اٹھایا۔ متحرک، ذہین اور پرعزم لوگ اس طرح کے مواقع کو غیر رسمی سفارت کاری اور ذاتی سطح پر روابط استوار کر کے اپنے ملک کی خدمت کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، اس نوعیت کی ایک کوشش کے مشاہدے کا اتفاق مجھے بھی ہوا۔
اس موقع پر ایک ایرانی سفارت کار میرے قریب آئے اور کہا کہ ان کی فوج کے سربراہ یہاں آ کر ایکسی لینسی کو سلام کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی اور خود میرے لیے ذاتی حیثیت میں بھی یہ ایک خوش گوار واقعہ تھا لیکن بدقسمتی سے یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ ایرانی جنرل ہمت کر کے اگرخود سامنے آجاتے تو صورت حال یقیناً مختلف ہوتی لیکن ان کے پیش نظر بھی یقیناً کچھ مصلحتیں رہی ہوں گی۔
ایران کی طرف سے پرجوش سفارت کاری ایک اور واقعہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایران کے صدر روحانی دورہ پاکستان پر پہنچے۔ صدر روحانی ایک بڑے وفد اور بڑے ایجنڈے کے ساتھ پاکستان تشریف لائے تھے۔ اتنے اعلیٰ سطح کے دوروں میں رکھ رکھاؤ اور تکلفات غیر معمولی ہوتے ہیں لیکن صدر روحانی نے اس موقع پر ان تکلفات سے اوپر اٹھ کر تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے کی کوشش کی، ادھر اس موقع پر کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کا واقعہ رونما ہو گیا۔
اس موقع پر بجلی کی طرح آ گرنے والے اس واقعے کے اثرات انتہائی اعلیٰ سطح پر ہونے والی ملاقاتوں کے دوران بھی دکھائی دیے۔ ایسی ملاقاتوں اور مذاکرات کے لیے وزارت خارجہ جو نوٹس تیار کرتی ہے، وہ تو معمول کی طرح خوش گوار اور پرجوش تھے لیکن صورت حال بدل گئی اور کل بھوشن کی گرفتاری کے حوالے سے ایرانی صدر کو پریس کانفرنس کے دوران اس واقعہ کی وضاحت بھی کرنا پڑی۔
چند برسوں کے دوران میں حالات میں بہت تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ بھارت کے ساتھ ایران کی گرم جوشی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور ایران نے اپنی بندر گاہ کو گوادر سے منسلک کر کے اقتصادی راہ داری کے منصوبے میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقائی سیاست میں پاکستان کا حلیف اور ساتھی بننے پر آمادہ ہے اور گوادر کے خلاف بھارتی منصوبوں میں شرکت پر آمادہ نہیں ہے۔
جواد ظریف کا حالیہ دورہ پاکستان اسی پس منظر میں ایک غیر معمولی پیش رفت ہے، پاکستان اس بارے میں کیا سوچ رہا ہے، ابھی واضح نہیں لیکن ایران نے ٹرمپ کا ذکر درمیان میں لا کر علاقائی تعاون کا ایک نیا دروازہ کھولنے کی کوشش ضرور کی ہے۔