Friday, 22 November 2024
    1.  Home/
    2. Guest/
    3. Apna Taruf Syeda Fatima Haider Ke Naam

    Apna Taruf Syeda Fatima Haider Ke Naam

    تین برسوں سے کچھ اوپر ہوگئے تمہیں ہم سے دور امریکہ میں بستے، محنت مزدوری کرتے اب شکر ہے تمہارا داخلہ تمہاری پسندیدہ یونیورسٹی میں ہوگیا۔ ایف ایس سی کے بعد تم نے کہا بابا جانی میں نے طب کے شعبہ میں نہیں جانا بلکہ میڈیا سٹڈی میں آنرز کرنا ہے تب ہم نے اس موضوع پر بس چند لمحے بات کی۔ میں نے تمہیں بتایا کہ تہماری دادی اماں سیدہ عاشو بی بی وعظ والیؒ کی دلی خواہش تھی کہ تم ڈاکٹر بنو۔ ملتان میں کلینک بنائو اور ان کی عقیدت مندوں کی خدمت کرو۔

    اس خواہش کا اظہار انہوں نے اس لمحے کیا جب میں تمہاری پیدائش کے بعد مٹھائی لے کر لاہور سے ملتان ان کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب میں گھر پہنچا ان کی قدم بوسی کرکے مٹھائی پیش کی تو اس موقع پر موجود ان کی دو تین عقیدت مند خواتین میں سے ایک نے کہا "بی بی جی پہلا پوتر ہووے ہا جاوید میاں دی نسل تاں چلے ہا"۔

    تمہاری دادی اماں نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور بولیں"بیٹی بھی نسل اور شجرے کی وارث ہوتی ہے"۔

    پھر انہوں نے میرے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا "یہ سادہ لوگ ہیں پرانے زمانے کے ان کی بات کا برا نہ منانا۔ میں بہت خوش ہوں اللہ رب العزت نے تمہیں صاحبزادی سے نوازا اب تم خودبخود سدھر جائو گے"۔

    امی جان میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں"ماں صدقے برائی تم میں اب بھی ایسی نہیں ہے کہ میں سر سجدہ میں رکھتے ہوئے اللہ کے حضور شرمندگی محسوس کروں"۔ "بس تمہاری تیز مزاجی اپنے کام سے زیادہ ملکی سیاست میں دلچسپی اور پھر اس کے نتائج جن کا تمہیں سامنا کرنا پڑتا آرہا ہے ان سے پریشان رہتی ہوں"۔

    انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا پھر ہنستے ہوئے بولیں ایک بڑی خوشی یہ ہے کہ اب تم فضول خرچیاں بند کردو گے۔

    میں نے عرض کیا فضول خرچیاں کب کرتا ہوں بس ہر ماہ دو تین کتابیں ایک جوڑا کپڑوں کا ہی تو لیتا ہوں۔ ان کا ہلکا سا ہاتھ میری کمر پر پڑا اور مسکراہٹ چھپاکر بولیں"وہ جو تم سگریٹ پیتے ہو اور سمجھتے یہ ہو کہ ماں کو پتہ نہیں ہے۔ سب پتہ ہوتاہے مائوں کو اولاد کے بارے میں بس جتاتی صرف وہی بات ہیں جو ضروری ہو "۔

    ایک اور بات بھی یاد آرہی ہے امی حضور کہنے لگیں اچھا یہ تمہارے دوست تمہیں فیشن شاہ کیوں کہتے ہیں؟ میں نے کہا ویگن اور بس میں 2 سیٹیں لے کر سفر کرنے اور کپڑوں، جوتوں کے شوق کی وجہ سے۔

    وہ کہنے لگیں"اب ان دونوں شوقوں اور فیشنوں کا موسم ختم ہوا، آدمی جب صاحب اولاد ہوتاہے تو پھر اسے اپنی ضرورتیں اور خواہشیں دفن کرنے کا ہنر خودبخود آجاتا ہے"۔

    بابا کی جان!

    تمہاری دادی اماں کی دونوں باتیں درست ثابت ہوئیں گو ان میں کچھ وقت لگا لیکن کتابوں کی خریداری کے علاوہ باقی شوق ہوا ہوئے۔ دو تین متروک زمانوں کے دوست البتہ میرے اس شوق (لباس وغیرہ) میں موسموں کے حساب سے حصہ ڈالتے رہتے ہیں اسی لئے تمہارے ایک انکل ارشاد امین مرحوم نے مجھ سے آخری ملاقات میں کہا تھا "یار شاہ! اب تو بچوں کو پہنتا اوڑھتا پڑھتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن تیڈے یار بھئی وکھری مخلوق ہن جیہڑے تیکوں ایویں یاد رکھیندے ہن جیویں بندہ اپنی ضرورت کوں یاد رکھیندے"۔

    جان پدر!

    بات سے بات نکلی اور ڈھیروں باتیں ہوگئیں۔ جب سے تم ہمارے آنگن میں روشنی بن کر اتری ہو ایک لمحہ بھی ایسا نہیں بیتا جب تمہاری ذات کی اہمیت میں رتی برابر کمی ہوئی ہو بلکہ تمہاری اہمیت ہر گزرے لمحے کے ساتھ مزید دوچند ہوئی۔

    میں نے ہمیشہ تمہیں کہا اور اپنی تحریروں میں بھی لکھا کہ میری بیٹی ہی میرا تعارف ہے۔ سچ پوچھو تو میں بیٹی کے باپ کا تعارف ہونے پر ایمان کامل رکھتا ہوں۔

    تمہاری چھوٹی دادو اور میری آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ فرمایا کرتی تھیں"میرے لعل بیٹی باپ کا تعارف ہوتی ہے اسی طرح باپ بیٹی کا تعارف ہوتا ہے"۔ میں ان کی تربیت کی بدولت اس ارشاد کا پس منظر اور اہمیت سمجھ گیا اور اس بات کو پلے باندھ لیا۔

    ابدی سچائی یہی ہے کہ ہم باپ بیٹی ایک دوسرے کا تعارف اور زینت ہیں۔ تم جاننا چاہوگی کہ میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں؟ ہم روزانہ دو نہیں تو ایک وقت ویڈیو کال پر بات کرتے ہیں کل شام بھی تم نے لمبی بات ہوئی۔

    مجھے اعتراف ہے کہ ایک باپ کی حیثیت سے تمہارے لئے میرے جو فرائض تھے اور ہیں میں وہ سوفیصد پورے نہیں کرپایا۔ لیکن میری یہ خوشی آخری سانس تک سلامت و تابندہ رہے گی کہ تم نے عملی زندگی کے میدان میں اس وقت اترنے کا فیصلہ کیا جب بیٹیاں گھر سے نکلتے ہوئے باپ کا بازو تھام کر چلتی ہیں۔ بٹیی باپ کا بازو تھام کر چل رہی ہو تو حقیقت میں وہ اپنے باپ سے کہہ رہی ہوتی ہے "بابا جانی میں آپ کی شناخت، فخر اور چھڑی ہوں"۔

    اچھا میں یہ کہہ رہا تھا کہ تم مجھے پچھلی شب بہت یاد آرہی ہو تمہاری یادوں نے دستک دی تو تمہارے بغیر گزرے تین برسوں کے سارے دن ایک ایک کرکے آن کھڑے ہوئے کل دوپہر آم کھاتے ہوئے تم یاد آئیں تو آنکھیں بھیگ گئیں کیونکہ تمہیں آم بہت پسند ہیں۔ پچھلی شب سے تمہاری یادوں کی دستک بہت شدید ہے۔

    جب سے تم امریکہ گئی ہو کل پہلی بار میں نے بے ساختہ کہا "اس عمر میں بیٹی کے ساتھ کی ضرورت شدید ہوتی ہے اور میری بیٹی بہت دور امریکہ میں مقیم ہے"۔

    تمہاری ماں بولیں حیدر جاوید آنسو پونچھیں اور یاد کریں فاطمہ کے لئے جب جب میں اداس ہوتی ہوں تو آپ مجھے کیا کہہ کر تسلی دیتے ہیں۔

    پھر میں نے خود کو حوصلہ دیا لیکن تمہاری یادوں سے جی میں بھر آئی اداسی نے مجھے پوری رات سونے نہیں دیا۔ اسی لئے میں آج لائبریری میں خلاف معمول وقت سے بہت پہلے آکر بیٹھ گیا۔ ملتان سے تمہارے دو چچائوں، شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی نے پچھلے دنوں مجھے کچھ کتابیں بھجوائی تھیں ان کتابوں کے ملنے سے قبل ہی میں ڈاکٹر نیک عالم کی کتاب "وسطی ایشیائی ریاستوں میں ا سماعیلی دعوت" اور ریاض احمد خان کی کتاب "پاکستان اور افغانستان" پڑھ رہا تھا یہ دوسری کتاب میں نے دوسری بار پچھلے دنوں میں پڑھی ہے۔

    اب ایلس سی ہنسبرگر کی کتاب "ناصر خسرو لعلِ بدخشاں" پڑھ رہا ہوں ڈاکٹر ظفر عارف نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

    میں نے کل ہی تمہارے دانشور انکل بلال حسن بھٹی کی معرفت تمہارے تایا ابو مرحوم کی طرح میرے لئے قابل احترام سید قمر رضا شہزاد بھائی جان کی خودنوشت "اپنے نواح میں" اور پیپلزپارٹی کے رہنما اسلم گورداسپوری کی آپ بیتی "تجھے اے زندگی لائوں کہاں سے" منگوائی ہیں۔ امڑی کے شہر سے آنے والی پانچوں کتابیں پڑھ کر یہ دو کتابیں پڑھوں گا۔

    سچ پوچھو میں اب کتابوں اور سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دینے لگا ہوں ان مصروفیات کی بدولت جی کچھ کچھ بہل جاتا ہے۔ پچھلی شب یہ ہوا کہ میں چلتے چلتے اچانک لڑکھڑاکر گرگیا تب میرے منہ سے بے ساختہ تمہارا نام نکلا۔ فاطمہ، فاطمہ میری بیٹی۔ تمہاری اماں اور تمہاری سکہ بند سیکرٹری "مس سونیا پتہ نہیں" دونوں نے بھاگ کر مجھے اٹھایا۔ بستر پر دراز ہوتے ہوئے میں نے بے ساختہ وہ بات کہی جو بالائی سطور میں لکھی ہے۔

    میری بچی!

    ماں باپ اور گھر سے دور جس محنت مشقت سختیوں اور کچھ اپنوں کے لگائے زخموں کے باوجود تم نے ہمت و حوصلہ سے تین برس بیتائے اس پر ہم دونوں (مجھے اور تمہاری ماں) کو فخر ہے۔ تمہیں یاد ہے کہ تمہارے بچپن میں ہم تمہیں خیالی کہانیاں سنانے کی بجائے محنت و مشقت سے عبارت اپنی اپنی زندگی کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔

    مجھے معلوم ہے کہ تم بہت حوصلہ مند ہو میرا افضل ترین فخر یہ ہے کہ تم میری بیٹی ہو۔ بس ایک شکوہ ہے وہ یہ کہ تم نے کہا تھا میڈیا سٹڈی میں ایم بی اے کرو گی لیکن اب تم نے قلابازی مارتے ہوئے اس کے برعکس ایم بی اے میں داخلہ لے لیا۔

    خیر تم ہمیشہ سے ایسی ہو اچھی بات ہے زندگی کا باقی ماندہ سفر تم نے اپنے قدموں اور محنت و لگن سے طے کرنا ہے اس لئے فیصلے کا حق بھی تمہارا ہے۔

    ہماری دعائیں ہر دم تمہارے ساتھ ہیں۔ کسی بات پر پریشان مت ہونا اور کسی رشتے کا اصل کھل جانے پر مایوسی کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا یہ تمہاری زندگی ہے تم نے بسر کرنی ہے۔

    فاطمہ! بابا کی جان۔

    بس ہر قدم پر یہ یاد رکھنا کہ تمہارے نام کی نسبت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اور کُل جہان کی بیٹیوں کو ہمیشہ جنابِ سرکار سینڑ سیدہ عالیہ بتول زہرا سلام اللہ علیہا کی چادر اقدس کے سائے میں رکھے، آمین بحقِ سیدی مصطفیٰ کریمﷺ۔

    تمہارا بابا جانی۔