سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تحریک انصاف سے "بلے" کا نشان واپس لینے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن پر اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کا الزام لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی بدنیتی کا بھی ذکر کیا مگر بعد ازاں انہوں نے یہ الزام واپس لے لیا۔
سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر ہونے والی سماعت کو براہ راست نشر کیا گیا، عدالت نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے موقف کو درست قرار دیا، پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائی کے جواب میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس طرح کی بے ضابطگیوں پر 13 سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لئے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور حامد خان نے اے این پی کو انتخابی نشان کے اجرا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی نے بھی الیکشن نہیں کرائے، دونوں وکلاء نے اس حوالے سے اے این پی کے اس موقف کو سامنے نہیں رکھا کہ ان کے پاس گزشتہ پارٹی انتخابات کے انعقاد کی مدت کے حساب سے مئی 2024ء تک پارٹی الیکشن کرانے کا وقت ہے۔
طویل سماعت کے بعد رات گئے تین رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا، عدالتی فیصلے میں اس امر کا ذکر بھی کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ اسی نوعیت کی ان کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے، زیر التوا کی صورت میں اس معاملے کو دوسری ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215کو برا کہنے کو درخواست سے تجاوز قرار دیا گیا، سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلاء اپنے بعض دعوئوں اور عدالتی سوالات پر متعلقہ دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہے، ایک مرحلہ پر پی ٹی آئی کے ایک وکیل نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس سے تلخ کلامی بھی کی لیکن بعد ازاں بیرسٹر علی ظفر نے اس بدمزگی پر معذرت کرتے ہوئے اسے نادرست قرار دیا۔
الیکشن کمیشن کی اپیل کی منظوری پر پی ٹی آئی نہ صرف "بلے" کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی بلکہ اسے بہت بڑا دھچکا بھی لگا، اس کی ایک صورت یہ ہوگی کہ پی ٹی آئی کے امیدوار اب اگر آزاد امیدواروں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو پارٹی امیدوار نہ ہونے سے پی ٹی آئی کو قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں میں تناسب کے اعتبار سے حصہ نہیں مل سکے گا۔
ثانیاً آزاد امیدواروں میں سے جتنے بھی کامیاب ہوں گے ان کے پاس دوہی راستے ہوں گے اولاً وہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں ثانیاً ایوانوں میں آزاد حیثیت برقرار رکھیں، آزاد امیدواروں کے حوالے سے ماضی میں جو تجربات ہوئے وہ کسی سے مخفی نہیں، آنے والے دنوں میں یہ قانونی نکتہ بھی اٹھے گا کہ کیا یہ آزاد امیدوار اس جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں جسے الیکشن کمیشن نے پارٹی دستور سے انحراف پر انتخابی نشان سے محروم کیا؟
گزشتہ روز کے عدالتی فیصلے سے قبل پی ٹی آئی نے پارٹی امیدواروں کو نظم وضبط میں رکھنے اور پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لئے 2012ء میں پارٹی سے الگ ہوکر پاکستان تحریک انصاف نظریاتی بنانے والے اختر اقبال ڈار سے 30 دسمبر کو باہمی مذاکرات کے بعد اس معاہدے کی منظوری دی اس معاہدے کے مطابق پی ٹی آئی نظریاتی کے 6 ارکان پی ٹی آئی کے امیدوار تصور ہوں گے، بتایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی نظریاتی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں بنیادی کردار "نجی تعلیمی اداروں کے ایک بڑے سسٹم" کے مالک نے ادا کیا (اختر اقبال ڈار اس ادارے کے فرنچائزی ہیں اور مالک کا تعلق تحریک انصاف سے بتایا جاتا ہے) ان کی کوششوں سے ہی پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر اور پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین اختر اقبال ڈارمیں تحریری معاہدہ ہوا۔
اس معاہدے کے مطابق تحریک انصاف کو "بلے" کا نشان نہ ملنے کی صورت میں اس کے امیدوار پی ٹی آئی نظریاتی کے انتخابی نشان "بلے باز" پر انتخابات میں حصہ لیتے، اس معاہدے کے آڑے پہلے تو الیکشن کمیشن کا ہفتے کو جاری ہونے والا یہ حکم آیا کہ کوئی شخص جس نے ایک جماعت کے امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہوں وہ دوسری جماعت کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔
الیکشن کمیشن کا یہ حکم ہفتہ کی دوپہر اس وقت ملک بھر کے آر اوز کو موصول ہوا جب پی ٹی آئی کے امیدواروں نے مختلف شہروں میں آر اوز کو پی ٹی آئی نظریاتی کا جاری شدہ ٹکٹ جمع کروایا اور پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر "بلے باز" کے انتخابی نشان کی تشہیر شروع کردی۔
اس انتظام کو دوسرا دھچکا پی ٹی آئی نظریاتی کے سربراہ اختر اقبال ڈار کی لاہور میں کی گئی پریس کانفرنس نے پہنچایا، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو نظریاتی گروپ کے جعلی ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں۔
دوسری جانب یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ نظریاتی گروپ کے چیئرمین اختر اقبال ڈار اور ان کے صاحبزادے کو شیخوپورہ کے گنجان آباد علاقے میں واقع ان کے گھر سے ایک سفید گاڑی میں لیجایا گیا اس گاڑی کی حفاظت کے لئے مسلح اہلکار ایک وفاقی ادارے کے منی ٹرک میں سوار تھے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہفتہ کو سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت، تین رکنی بنچ کے فیصلے، پی ٹی آئی سے "بلے" کا انتخابی نشان واپس لینے، الیکشن کمیشن کا ایک پارٹی کے امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کا دوسری جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑ سکتا کا نیا حکم یا یہ کہ اس دوران نظریاتی گروپ کے سربراہ کا اپنے ہی کئے 30 دسمبر کے معاہدے سے اس کے باوجود انکار کر دیاکہ انہیں پی ٹی آئی نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں یہ یقین دہانی کروادی تھی کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں سینٹ کی رکنیت کے علاوہ ان کی اہلیہ کو قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست اور نامزد کردہ خاتون کو پنجاب اسمبلی میں خواتین کی ایک ایک نشست دی جائے گی۔
یقیناً یہ زبانی یقین دہانی دونوں جماعتوں کے درمیان 30 دسمبر کو ہوئے معاہدے کے برعکس تھی کیونکہ اس معاہدے میں پی ٹی آئی نے نظریاتی گروپ کو عام انتخابات میں 6 حلقوں سے ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی، پی ٹی آئی نے قومی اور پنجاب اسمبلی کیلئے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے ان چھ حلقوں سے بھی امیدوار دے دیئے جو 30 دسمبر کے معاہدہ کے مطابق تحریک انصاف نظریاتی کو دینے تھے۔
اس معاہدے کی یقین دہانیوں اور دیگر معاملات پر دستیاب اطلاعات اور عدالتی فیصلے سے قلع نظریہ حقیقت ہے کہ عدالتی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلاء ججز کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے پائے نہ ان کے پاس بعض ضروری دستاویزات تھیں۔
مثلاً پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن میں مدعی بننے والے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکالنے کا تحریری ثبوت عدالت کو نہیں دیا جاسکا، یقیناً سیاسی اعتبار سے یہ ایک انوکھا فیصلہ ہے لیکن اس فیصلے کے قانونی پہلووں کا جائزہ لیا جانا بھی ازبس ضروری ہے۔
پی ٹی آئی کے وکلاء مسلسل دوسری جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن پر سوالات اٹھاتے رہے مگر انہوں نے اس امر مدنظر نہیں رکھا دوسری پارٹیوں کے انٹرا پارٹی انتخابات "جیسے" بھی ہوئے ان انتخابات کے خلاف ان جماعتوں کا کوئی رکن الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن نہیں گیا۔
ثانیاً پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے وقت عدالت سے یہ بات مخفی رکھی کہ ایسی ہی ایک درخواست لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کھلے آسمان کے نیچے بغیر کسی "سائے" کے کھڑی ہے۔
بالفرض اگر پی ٹی آئی کے اس موقف کو درست مان لیا جائے کہ "فیصلہ یہی آنا تھا" تو پھر یہ سوال مزید اہم ہوگیا کہ پی ٹی آئی نے مستقبل کے لئے حکمت عملی وضع کرتے وقت ممکنہ خطرات وخدشات کو مدنظر کیوں نہ رکھا؟