ابتدائی سطور میں یہ عرض کر دینا ازبس ضروری ہے کہ اس تحریر کا مقصد بلوچ قومی تحریک کی توہین ہے نہ ہی غائب کئے گئے اور پھر ان میں سے کچھ کے نعشوں کی صورت میں ملنے سے پیدا ہوئی صورتحال سے چشم پوشی ہے۔
سرائیکی وسیب کے لوگوں نے ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کی یہ حمایت غیرمشروط تھی اور یہ اس لئے رہی کہ خود 5 کروڑ سے زیادہ سرائیکی پچھلے دو سو سال سے بالعموم اور 75 برسوں سے بالخصوص جبروستم اور تھل و چولستان میں غیرمقامیوں کو الاٹ منٹیں دیئے جانے کو سہتے چلے آرہے ہیں۔
اس عرصے میں ان کی سست الوجودی کی پھبتیاں کسی گئیں مونجھ اور دوسرے معاملات کو لے کر سستے لطائف گھڑے گئے سرائیکیوں نے کبھی ہمسایہ اقوام کا کوئی لطیفہ بنایا نہ ہی ان کے ساتھ ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کی۔
مثلاً پچھلی بار جب ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں بلوچوں کا لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد گیا تھا تو سرائیکی وسیب میں جگہ جگہ لانگ مارچ کے شرکاء کا استقبال ہوا۔
ان کی حمایت میں اجتماعات منعقد ہوئے۔ ملتان میں تو چند گھنٹوں کے لئے قوم پرستوں نے علامتی بھوک ہڑتال بھی کی تھی اور بھوک ہڑتال کے شرکا کو لانگ مارچ کرنے والے بلوچوں کے قائدین اور سرائیکی قوم پرست رہنماوں ظہور احمد دھریجہ اور سید حسن رضا بخاری (رضو شاہ جی) نے جوس پلاکر بھوک ہڑتال ختم کرائی۔
اس موقع پر ایک بدمزگی بھی ہوئی وہ یہ کہ ظہور احمد دھریجہ اور ان کے ساتھیوں نے ملتان پریس کلب میں لانگ مارچ کے شرکاء کے لئے استقبالیہ اور دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا تھا لیکن ماما قدیر بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے شرکت سے معذرت کرلی ان کا موقف یہ تھا کہ ہم اپنے شیڈول سے ہٹ کر کسی تقریب اور دعوت میں شرکت نہیں کرسکتے۔
ماما قدیر بلوچ والے لانگ مارچ کے شرکاء سے اوکاڑہ ضلع کی حدود میں چند افراد نے بدتمیزی کی لیکن مقامی لوگوں نے ان بدتمیزوں کو موقع پر سبق پڑھایا جس پر وہ فرار ہوگئے۔
اس لانگ مارچ کا ملتان میں دریائے چناب کی ملتان کی طرف والی حدود میں سرائیکی قوم پرستوں نے پرجوش استقبال کیا تھا۔
ان دنوں بلوچ مسنگ پرسنز، نسل کشی اور دوسرے افسوسناک واقعات کے خلاف تربت سے شروع ہونے والا لانگ مارچ (اس کی منزل اسلام آباد ہے) منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ لانگ مارچ کی حکمت عملی وضع کرنے والوں نے شعوری طور پر کوشش کی اسے سرائیکی وسیب کے ان علاقوں سے گزارا جائے جن میں صدیوں سے بلوچ قبائل آباد ہیں۔
غالباً حالیہ لانگ مارچ کے روٹ میں یہ پرانی متھ بھی معاون رہی کہ ڈیرہ غازی خان، دریا خان اور ڈیرہ اسماعیل خان قدیم زمانے میں بلوچ سرداروں کی ریاستیں تھیں۔
سرائیکی وسیب کی بلوچ آبادیوں والے یہ علاقے ہی پچھلے 45 برس سے جاری سرائیکی قومی تحریک اور الگ صوبے کے حصول کے لئے کی جانے والی جدوجہد کا مرکزی حصہ شمار ہوتے ہیں۔ انہی علاقوں سے سرائیکی دانش کے روشن خیال کردار اٹھے ان میں سے سب سے بلند مرتبہ نام استاد فدا حسین گاڈی مرحوم و مغفور کا ہے۔
سرائیکی لوک سانجھ کے صدر عاشق خان بزدار بھی ضلع راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دو شخصیات کا نام محض حوالے کے طور پر لکھا ہے ورنہ سئیں اسلم رسولپوری اور مرحوم صوفی تاج محمد گوپانگ سمیت ان اہل دانش و سیاست کی ایک طویل فہرست ہے جو سرائیکی وسیب کی قومی شناخت اور صوبے کے قیام کی تحریک کا پرجوش حصہ رہے اور ہیں۔
حالیہ بلوچ لانگ مارچ یہ سطور لکھنے کے وقت تونسہ شریف سے اگلی منزل ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب روانہ ہوچکا ہے۔ اس لانگ مارچ کی قائد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ڈیرہ غازیخان اور خصوصاً تونسہ میں استقبال کرنے والوں سے خطاب کے بعض حصوں اور لانگ مارچ کے شرکا کے بعض نعروں سے ایک نیا تنازع اٹھ کھڑا ہواہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس موقف کو دہرایا کہ "تونسہ شریف بلوچستان کاحصہ ہے اسے خود بلوچستان سے الگ نہیں ہونے دیں گے۔ بلوچوں سے ہٹ کرکسی صوبے کی مخالفت کریں گے۔ تونسہ کے بلوچوں کو بلوچ ہونے کی سزا دی جارہی ہے"۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے تونسہ میں خطاب کے مندرجہ بالا تین نکات نے نہ صرف ایک نئی بحث چھیڑ دی بلکہ اس بحث کے شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا کے بعض وہ اکائونٹ جو خود کو بلوچ قوم پرستی و قومی مزاحمتی تحریک سے جوڑتے ہیں ان کے اکائونٹ سے سرائیکی وسیب اور قومیت کے لئے نازیبا جملہ بازی شروع کردی گئی۔
ہمارے دوست اور معروف صحافی و دانشور نذیر لغاری نے اس صورتحال پر چند لفظی تبصرے میں سرائیکی وسیب کے بلوچوں کو سرائیکی قومیت اور تحریک کا حصہ قرار دیا۔ دوسرے سرائیکی قوم پرست بھی اپنی رائے کااظہار کررہے ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے پختونخوا کے سرائیکی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے پڑوسی علاقے تونسہ میں اس تقریر کی ضرورت کیا تھی؟
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے برعکس لانگ مارچ کے موجودہ روٹ کا انتخاب شعوری طور پر کیا گیا۔ بلوچ علاقوں کی پرانی متھوں اور بلوچگی ہر دو کا تذکرہ اور ان سے دستبردار نہ ہونے یا کسی نئے صوبے کی کھلی مخالفیت ایجنڈے کا حصہ ہے۔
بلوچ قومی تحریک کے حامی جسے بلوچستان کے بعض بلوچ طبقات قومی مزاحمتی تحریک قرار دیتے ہوئے اپنی منزل کامل آزادی کو قرار دیتے ہیں ریاست سے متصادم ہے۔
یہ بجا ہے کہ بلوچوں کے جائز مطالبات قومی وسائل پر ان کے خالص حق اور رائے سازی کے ساتھ قیادت کے انتخاب میں عام بلوچ کے حق پر ریاستی ڈاکوں کی سرائیکی وسیب نے ہمیشہ مذمت کی۔
پچھلے کچھ عرصے میں تربت وغیرہ میں سرائیکی محنت کشوں کے قتل عام پر بلوچ قوم پرستوں اور ان کے ہمدردوں کا موقف سرائیکی وسیب کے لئے بہت تکلیف کا باعث بنا۔ بلوچ قوم پرستوں کا ایک طبقہ یہ کہتا دیکھائی دیا کہ مرنے والی محنت کش نہیں سرکاری جاسوسی میں معاون تھے۔
ایک طبقے کا موقف تھا کہ جب ہم نے کہہ دیا تھا کہ یہاں قومی آزادی کی جنگ جاری ہے غیربلوچ یہاں نہ آئیں تو یہ مرنے والے کیوں آئے۔
قوم پرستوں کے اس موقف سے کشیدگی پیدا ہوئی محنت کشوں کے قتل کے واقعات پر سب سے زیادہ ردعمل اسی علاقے سے آیا تھا جسے گزشتہ روز بلوچستان کا دائمی حصہ کہتے ہوئے کسی نئے نام، نئے صوبے کے قیام کی مخالفت کی گئی۔
یہ رائے بھی غور طلب ہے کہ بلوچ تحریک کو قومی آزادی کی جنگ قرار دینے والے قوم پرستوں کو چونکہ تازہ دم ساتھیوں کی ضرورت ہے اس لئے حالیہ لانگ مارچ کے لئے وہ راستہ اختیار کیا گیا جو قدم متھوں کے مطابق ماضی میں خودمختار بلوچ ریاستوں کا تشخص رکھتا تھا۔
ریاستی جبر اور دوسرے معاملات کی وجہ سے بلوچ تحریک کو جس افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے اسے بہتر بنانے کے لئے راجن پور، ڈیرہ غازیخان، تونسہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع کی بلوچ آبادیوں میں سے تعاون کے حصول کے لئے لانگ مارچ کا یہ روٹ پرجوش شعوری کوشش ہے۔
تونسہ میں استقبالی ہجوم سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خطاب اور بعض نعروں پر اگر سرائیکی قوم پرستوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا تو جواب میں گالم گلوچ کی ضرورت نہیں تھی بلکہ دو باتیں مدنظر رکھنا چاہئیں تھی اولاً قدیم جغرافیہ کی ٹوٹ پھوٹ سے نئی ریاستوں اور ریاستوں کے صوبوں کا قیام اوران کی حدود اور اب موجودہ حدود ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں اس میں ردوبدل کیسے ہوگی؟
اس کے دو راستے ہیں۔ مکالمہ اور قانون سازی۔
کسی بھی قوم کا شدت پسند طبقہ سب سے پہلے مکالمے سے انکار کرتا ہے ثانیاً اپنی رائے کو ابدی قانون کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں۔
میرے لئے یہ امر حیرانی کا باعث ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو جس خطے سرائیکی وسیب سے ہمیشہ حمایت ملی اسی وسیب کی شناخت اور حدود سے انکار کردیا جائے۔
فہمی طور پر یہ امر دوچند ہے کہ ان سطور کو بلوچ قومی تحریک کی مخالفت شمار کیا جائے گا لیکن کیا کسی بات کے ڈر اور تند بیانی کے خطرے کے پیش نظر بات نہ کی جائے؟
بات بہرصورت کی جانی چاہیے۔ سرائیکی قومی تحریک اور وسیبی شناخت کا المیہ یہی ہے کہ ہمسایہ اقوام کے جذباتی طبقات اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
مثلاً پانچ کروڑ سرائیکی خود کو الگ قوم اور الگ تہذیب کا وارث سمجھتے ہیں لیکن پانچ سات پنجابی قوم پرست بضد ہیں کہ نہیں تمہاری شناخت ہم طے کریں گے۔
اس سے ملتا جلنا معاملہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ایک دو تقاریر کے چند نکات کی صورت میں سامنے آیا۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکیوں کی ہمسایہ وسیب اقوام ان کی قومی و وسیبی شناخت کا شعوری احترام کیوں نہیں کرتیں؟