Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (3)

Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (3)

آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ ایسا نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے غلطیاں نہیں ہوئیں۔ ان کی ایک غلطی دوسرے فوجی آمر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی 1971ء میں بنائی گئی عبوری حکومت میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے شمولیت تھی اور دوسری غلطی بلوچستان میں نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کی حکومت کو ختم کرنا۔

بھٹو جس عبوری حکومت میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنے اس حکومت کے وزیراعظم نورالامین تھے۔ نورالامین مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کے رکن تھے۔

یہ عبوری حکومت بظاہر مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھارت کے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لئے بنائی گئی مگر بھٹو جیسا جہاندیدہ شخص یہ نہ سمجھ پایا کہ مغربی پاکستان سے اکثریتی ووٹ تو پیپلزپارٹی کو مل گئے لیکن ابلاغ کے تمام ذرائع پر رجعت پسندوں کا قبضہ ہے۔

اس حقیقت سے پہلو تہی آگے چل کر انہیں مہنگی پڑی جب بنگالیوں کے قتل عام میں ساجھے دار البدر والشمس نامی تنظیموں کی خالق جماعت اسلامی نے پوری قوت اس بات پر صرف کردی کہ بھٹو پاکستان توڑنے والوں میں شامل تھے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ البدر اور الشمس کے سفاک قاتل تو دفاع پاکستان کے مجاہد قرار دیئے جانے لگے اور ذوالفقار علی بھٹو کو رجعت پسند ٹولہ غدار قرار دینے پر تل گیا۔

مشرقی پاکستان کے سقوط میں اگر واقعی ذوالفقار علی بھٹو کا کردار ہوتا تو ان کے خون کا پیاسا فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کسی بھی طور اس سے صرف نظر ہرگز نہ کرتا۔

بہرطور سیاسیات کے ایک طالب علم کے نزدیک یہ امر اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ پیپلزپارٹی ہی نہیں بائیں بازو اور بائیں بازو کے قریب سمجھی جانے والی سیاسی جماعتیں پروپیگنڈہ میں کبھی رجعت پسندوں کو مات تو کیا دیتیں اس پروپیگنڈے کا مقابلہ تک نہیں کرسکیں۔

آپ پچھلے 55 برسوں کی ہی تاریخ کو کھنگال لیجئے، رجعت پسندوں کا کہا لکھا ہی سب کو محبوب ہوا۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے وہ یہ کہ خود ترقی پسندوں نے بھی سیاسی تاریخ کو اپنے آہنگ سے مرتب کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جووفاق میں پانچ مرتبہ اقتدار میں آئی خود اس نے بھی سیاسی تاریخ کی تدوین کو غیرضروری سمجھا۔ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے چند حضرات نے اپنی سوانح عمریاں ضرور لکھیں ان کی کتابوں میں یقیناً پڑھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک مربوط تایرخ جو پروپیگنڈے کا جواب بھی ہو اس پر توجہ نہیں دی گئی۔

آپ لمحہ موجود میں اپنے چار اور نگاہیں دوڑاکر دیکھ لیجئے، عام آدمی کا شعوری رزق اخبارات کی سرخیاں، ٹی وی چینلوں کے ٹکر اور شام کے سیاپا برانڈز پروگرام ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر ہوا بے لگام پروپیگنڈہ۔

اخبار کی سرخی اور ٹی وی سکرین کے ٹکر کو سیاسی تاریخ سمجھنے والوں کے نزدیک یہی سچائی ہے۔

گزشتہ کم از کم چار دہائیوں کے دوران پیپلزپارٹی کو جب بھی اس صورتحال کی جانب متوجہ کیا گیا تو جواب ملا

"ہم سیاسی جماعت ہیں ہماری جدوجہد ہی ہماری تاریخ اور جواب ہے"۔

کہنے کی حد تک یہ بات درست ہے لیکن عمل کی دنیا کے تقاضے اس سے سوا ہیں۔

عرض یہ کررہا تھا کہ رجعت پسندوں کے پروپیگنڈے کا سورج ہمیشہ سوا نیز پر رہا آپ دیکھ لیجئے سقوط مشرقی پاکستان سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے بعد جو ذاتی نوٹس پھاڑے اس بارے پاکستان میں آج بھی کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے پولینڈ کی قرارداد پھاڑدی۔ بھٹو نے ایک سے زائد بار وضاحت کی لیکن نوٹس پھاڑنے والے کی وضاحت سے زیادہ اہم اور سچی بات نیویارک سے ہزاروں میل دور پاکستان میں بیٹھے ڈھمکیری بازوں کا الزام سچ مانا جاتا ہے۔

مکرر عرض ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی بنائی اس عبوری حکومت میں ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے تھا اس حوالے سے پیپلزپارٹی جو بھی وضاحت کرتی رہی یا آج کرے وہ بودی وضاحت ہے۔

دوسری بڑی غلطی بھٹو کی بلوچستان میں قائم نیشنل عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت کا خاتمہ ہے بلوچستان کی صوبائی حکومت کی برطرفی اور گورنر راج کے نفاذپر صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں قائم نیپ، جمیعت علمائے اسلام مفتی محمود گروپ کی مخلوط حکومت کے سربراہ مولانا مفتی محمود وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہوگئے۔

اس غیرحقیقت پسند اور عاجلانہ فیصلے کا دفاع ہرگز ممکن نہیں۔ بعض اشخاص ماضی میں یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ نیپ سے بھٹو کے معاندانہ طرزعمل کے پیچھے مسلم لیگ قیوم گروپ کے سربراہ خان عبدالقیوم خان تھے جو بھٹو کابینہ میں وزیر داخلہ تھے۔

بالفرض اگر ہم اس بات کو درست مان بھی لیں تو پھربھٹو کیا تھے جو ایک فرد واحد کے زیراثر آگئے؟

تلخ حقیقت یہی ہے کہ نیپ کی بلوچستان حکومت کی برطرفی اور صوبہ سرحد کی حکومت کا احتجاجاً مستعفی ہونا یہ ایسے معاملات تھے جس سے بھٹو اور ان کی جماعت و حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی۔

اس سنگین غلطی سے بڑی اور خوفناک غلطی خفیہ ایجنسیوں کارچایا عراقی اسلحہ سازش کیس تھا۔ اس سازش یعنی عراقی اسلحہ برآمدکرنے اور نیپ پر الزام دھرنے کے ذمہ دار خان عبدالقیوم خان تھے۔

وفاقی حکومت کا وزیراعظم سمیت اس کہانی کے پلڑے میں بلاسوچے سمجھے وزن ڈالنا حیران کن تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کیوں یہ نہ سمجھ پائے کہ یہ سازش اصل میں انہیں ترقی پسندوں سے دور کرکے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے بالکوں کا محتاج بنانے کے لئے رچائی گئی۔

نیپ حکومت کی برطرفی اور بلوچستان میں گورنر راج لگائے جانے کے عمل میں نواب محمد اکبر بگٹی کے کردار نے انہیں بلوچ قوم پرستوں کا "ولن " بنادیا، عشروں بعد اکبر بگٹی چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر قتل کئے گئے تو 1970ء کی دہائی کا بلوچ ولن بلوچوں کا قومی ہیرو بن گیا۔

ہم اس جملہ معترضہ سے آگے بڑھتے ہیں۔

بالائی سطور میں بھٹور کی دو بڑی غلطیوں کا ذکر کیا میرے مطالعے اور مشاہدے کے مطابق ان کی تیسری بڑی غلطی اس بالادست اشرافیہ کو پیپلزپارٹی اور حکومت میں شامل کرنا تھی جس اشرافیہ کی کمر توڑنے کیلئے پیپلزپارٹی بنائی گئی پیپلزپارٹی یقیناً سوشلسٹ پارٹی تھی نہ کمیونسٹ پارٹی اپنے منشور کے حساب سے یہ ایک روشن خیال لبرل ڈیموکریٹک پارٹی تھی۔ روشن خیال لبرل ڈیموکریٹک پارٹی بھی اسلامی " تڑکے " سے محفوظ نہ رہ سکی۔

"اسلام ہمارا دین ہے" بھارت سے ایک ہزار سال جنگ لڑنے کا اعلان، یہ دونوں باتیں اس ملک اور بالخصوص پنجاب کے عمومی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئیں۔

مذہبی جماعتوں کو جتنا "سیاسی" رزق پنجاب سے ملا اور ریاست کو جتنی بھارت نفرت کے سودے پنجاب سے ملے اس کا دوسرے صوبوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔

اسلام دو قومی نظریہ نظریہ پاکستان کے سودے اور بھارت دشمنی کا بڑا مرکز پنجاب ہی تھا اور قدرے اب بھی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بٹوارے کی صورت میں پنجاب کے مشرقی حصے سے آنے والے متاثرہ پنجابی مہاجر خاندان زیادہ تر پنجاب میں مقیم ہیں

اردو بولنے والے مہاجرین کو پنجابی مسلم مہاجرین کے مقابلے میں ننانوے فیصد کم بھی مشکلات نہیں دیکھنا پڑیں۔ وہ انتقال آبادی کے مرحلے میں تشدد سے محفوظ رہے جبکہ پنجابی مہاجرین کا کوئی خوش قسمت خاندان ہی ہوگا جس کے افراد بٹوارے کا رزق نہ بنے ہوں۔

پنجاب کے اس عمومی ماحول میں پیپلزپارٹی نے سیاسی ضرورت کے لئے اسلام ہمارا دین ہے اور بھارت سے ایک ہزار سال جنگ کریں گے، کی باتیں ہی کیں تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پیپلزپارٹی کے قیام کے ساتھ ہی اس کے خلاف فتوے بازی شروع ہوگئی۔

بعدازاں 1970ء کے انتخابات سے قبل مشرقی اور مغربی پاکستان کے 27 مولویوں نے ایک مشترکہ فتویٰ جاری کیا اس فتوے کی روشنی میں پیپلزپارٹی کو ووٹ دینا حرام قرار پایا صرف یہی نہیں بلکہ نکاح فسخ ہونے کی ڈھمکیری بھی چھوڑی گئی

یہ فتویٰ اس کے باوجود سامنے آیا کہ پیپلزپارٹی کے منشور کا سرنامہ "اسلام ہمارا دین ہے" تھا۔

پی پی پی اپنے قیام کے ساتھ ہی طلباء، مزدور، کسان اور کچلے ہوئے طبقات کی پارٹی سمجھی جانے لگی مگر آگے چل کر اس جماعت میں شمولیت کے لئے جس طرح اشرافیہ کی دوڑیں اور لائنیں لگیں وہ دلچسپ رہیں۔

انہی دنوں ہزاروں اور لاکھوں حامیوں سمیت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے سرداروں، میروں، پیروں، جاگیرداروں، چوہدریوں اور خانوں نے پارٹی پر قبضہ کرلیا۔

مثال کے طور پر ملتان سے تعلق رکھنے والے نواب صادق حسین قریشی جنہوں نے 1970ء کی انتخابی مہم سے قبل بھٹو کے دورہ صوبہ پنجاب کے دوران ملتان کے قریب واقع قصبہ "قادرپورراں" کے بس سٹاپ پر بھٹو کے قافلے پر حملہ کروایا تھا آگے چل کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے بلکہ پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ بھی بنائے گئے۔ (جاری ہے)