Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Bohran Ya Istehkam

Bohran Ya Istehkam

مصر اور اردن دو ایسے ممالک ہیں جو اسرائیل کے دوست اور ہمسایہ ہیں۔ دونوں میں جو ایک اور قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی نگہبانی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ دونوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا اور سفارتی تعلقات بھی قائم کر رکھے ہیں۔ یہ عرب لیگ کو ایسے کسی بھی فیصلے سے روکتے ہیں جس سے اسرائیل ناراض ہوسکتا ہو، جس کا صلہ ہے کہ اسرائیلی حملوں سے محفوظ ہیں۔ اسرائیل کیا سوچتا ہے اور کیا چاہتا ہے؟ یہ سب کچھ مذکورہ دونوں ممالک کی قیادت اچھی طرح آگاہ ہے صدر السیسی اور شاہ عبداللہ دوم کو اگر اسرائیل کے مخلص دوست کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔

رواں ماہ دس دسمبر منگل کو ملک میں ہونے والے انتخابات میں اخوان المسلمون کی حزبِ اختلاف اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے نظریاتی اتحادیوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کرلی ہیں، جس کی وجہ سے موجودہ وزیرِ اعظم بشیر خصاونہ کے لیے اقتدار میں مزید عرصہ رہنا ممکن نہ رہا اس لیے کابینہ سمیت مستعفی ہو چکے ہیں۔ نئی حکومت کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود انتخابی نتائج بحران کا موجب بنتے ہیں یا استحکام کا باعث، ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اردن کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں جس طرح حیران کُن اور قابلِ زکر کامیابیاں حاصل کی ہیں اُس کی وجہ سے بڑی آسانی سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتوگئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں اقتدار و اختیار کے اصل مالک شاہ عبداللہ دوم کیا اِس نئی صورتحال کو قبول کرلیں گے؟

بظاہر وہ عوامی فیصلے میں رکاوٹ بنتے نظر نہیں آتے کیونکہ وزیرِ اعظم بشیر خصاونہ اور اُن کی کابینہ کا استعفیٰ قبول کر لیا گیا ہے اور انھیں نئی حکومت کی تشکیل تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے ایسے اِشارے ملتے ہیں کہ وہ نئی صورتحال سے پریشان نہیں اور نہ ہی انتخابی نتائج کو اپنی بادشاہت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں بلکہ عوامی فیصلے کے مطابق اقتدار کی منتقلی پر آمادہ ہیں۔

اردن کو مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو پچانوے فیصد سنی مسلمان، تین فیصد عیسائی جبکہ دو فیصد دیگر مزاہب ہیں۔ اِس ملک کو 25 مئی 1946 کوآزادی ملی رقبہ 89,342 مربع کلو میٹر اور 2023 کی مردم شماری کے مطابق آبادی ایک کروڑ چودہ لاکھ چوراسی ہزار آٹھ سو پانچ نفوس پر مشتمل ہے۔ پیٹرولیم ریفائنری، سمینٹ اور فاسفیٹ جیسے کیمکل کی اہم صنعتیں ہیں۔ برآمدات میں کپڑے، مختلف کیمکل اور پوٹاش وغیرہ کا اہم حصہ ہے جبکہ زیادہ درآمدات تیل، مشینری، خوراک، بڑی گاڑیاں وغیرہ ہیں۔

مغرب میں اسرائیل، شمال میں شام، مشرق میں عراق، جنوب میں سعودی عرب ہے یہ ملک اسرائیل کا اطاعت گزار ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو جب اسرائیلی فضایہ نے نشانہ بنایا تو تہران نے ایک شب کئی ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں سے بدلہ لینے کی کوشش کی تو جہاں ایک طرف اسرائیل نے ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کو ناکارہ بنایا تو اردن نے بھی حملے میں استعمال ہونے والے ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے میں غیر ضروری دلچسپی اور سرعت کا مظاہرہ کیا۔ اِس ملک کو اسرائیل خطرہ تصور نہیں کرتا بلکہ اپنا بااعتماد ہمسایہ خیال کرتا ہے۔

اردن میں آئینی بادشاہت ہے جس کی بنیاد آٹھ جنوری 1952 میں نافذ ہونے والے آئین پر رکھی گئی یہاں بادشاہ اپنے اختیارات کا استعمال اپنی مقرر کردہ حکومت کے زریعے کرتا ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے کسی حد تک جوابدہ ہوتی ہے کیونکہ حکومت مقرر کرنے کا اختیار بادشاہ کے پاس ہے۔ اسی بناپر حکومت کا بادشاہ کے احکامات کے خلاف جانے کا تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسے کسی اقدام کا مرتکب ہونے والے کو معزولی جیسا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

منگل کے انتخابی نتائج کی روشنی میں بادشاہ عبداللہ دوم نے جعفر حسان کوملک کا نیا وزیرِ اعظم مقررکیا ہے جنھوں نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ماضی میں وزیرِ منصوبہ بندی کے طورپر کام کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے دفتر کے سربراہ کی حثیت سے بھی کام کر چکے ہیں۔ معتمد خاص رہنے والے کی نامزدگی کو بادشاہ کی طرف سے عوامی فیصلے کو بے اثر بنانے کا حربہ کہا جا رہا ہے۔

سات فروری 1999کو بادشاہ بننے والے شاہ عبداللہ دوم کی پالیسیوں کے لیے حالیہ انتخابی نتائج کو تجزیہ کار ایک دھچکہ قرار دیتے ہیں اور ایسی قیاس آرائیاں زور پکڑتی جارہی ہیں کہ اپنے والد شاہ حسین کے بعد سے پچیس سالہ حکمرانی میں شاہ عبداللہ دوم کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کچھ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ عرب بہار کے اثرات ابھی مکمل طور پر زائل نہیں ہوئے بلکہ کچھ اثر موجود ہے انھی کا نتیجہ اردن کے انتخابی نتائج ہیں لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم نے اردن کی عوام کو جھنجوڑا ہے۔

شب و روز غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے باوجود اردن کے شاہ کی خاموشی کو لوگوں نے پسند نہیں کیا جس کے نتیجے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے نظریاتی اتحادیوں کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بظاہر اصل اقتدار و اختیار کا مالک بادشاہ ہے اور پیش بندی کے طورپر انھوں نے اپنے معتمدکو وزیرِ اعظم کے منصب پر آگے لا کر عوامی فیصلے کو مات دے دی ہے، مگر عوامی فیصلے کو یکسر ردی کی ٹوکری میں ڈالنا ممکن نہیں رہا۔ نئی حکومت کی ترجیحات کہ آیا وہ شاہ کی وفاداری داری تک محدود رہے گی یا عوامی فیصلے کی روشنی میں غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرے گی کو مدِ نظر رکھ کرہی بحران یا استحکام بارے کچھ کہا جا سکتا ہے۔

اِس میں شائبہ نہیں کہ متوقع وزیرِ اعظم جعفر حسان کے لیے حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں مملکت کو اِس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ نئی حکومت کے لیے معیشت پر غزہ جنگ کے اثرات کم کرنا بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ اِس سے سیاحت میں بڑی کمی آچکی ہے جس کے باعث ملکی زریعہ آمدن کم ہونے کے ساتھ سیاحت سے وابستہ کاروباری لوگ مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ سرمایہ کاری میں آنے والی کمی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا اور حائل رکاوٹوں کو دور کرنا نئی حکومت کے لیے ایک اور دردِسر ہوگا۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو صرف بادشاہ کی خوشنودی سے حل ہونے والے نہیں بلکہ ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کے متقاضی ہیں۔

نئے نامزد ہونے والے وزیرِ اعظم دوران تعلیم امریکہ میں رہائش پذیر رہے اسی بناپر اُنھیں امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والا خیال کیا جاتا ہے مگر انتخابی نتائج کی روشنی میں عوام نے جو فیصلہ سنایا ہے اُن کا تقاضا ہے کہ بیرونی تائید و حمایت کے ساتھ اندرونی استحکام پر توجہ دی جائے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ملکی مسائل حل ہونے کی بجائے اضافہ ہوگا۔ نیز بادشاہت کے لیے بھی خطرات جنم لیں گے بیرونی دنیا اور بادشاہ کی حمایت برقراررکھنے کے ساتھ ملکی آبادی کوکیسے مطمئن رکھنا اگر ضروری ہے توملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے بھی نئی حکومت کو لائحہ عمل بنانا ہوگا۔