Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Taleem Aur Ishteal

Taleem Aur Ishteal

جس کے طرزِ تکلم اور نشست برخواست پر تعلیمی اثرات نہیں وہ ڈگریاں ہولڈر تو ہوسکتا ہے اُسے با علم نہیں کہہ سکتے کیونکہ تعلیم یافتہ دلیل سے قائل کرتا ہے۔ پنجاب گروپ آف کالجز صوبے کا ایک بڑا نجی تعلیمی نیٹ ورک ہے یہاں طلبا و طالبات کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تعلیمی معیار کی بات کریں تو اگر مثالی نہیں تو بھی کافی حد تک بہتر ہے کیونکہ گزشتہ ایک عشرہ میں اس نیٹ ورک سے فارغ التحصیل نے کئی اہم پوزیشنزلی ہیں مگر یہ نجی تعلیمی اِداروں کا نیٹ ورک آجکل عوامی نفرت وعتاب کا شکار ہے۔

یہاں کے طالب علم طیش میں ہیں جبکہ سوشل میڈیا تیل ڈالنے کا کام کررہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لاہور میں قائم اسی نیٹ ورک کے ایک کالج میں ریپ ہونے کا الزام ہے جسے جواز بناپر لاہور میں احتجاج شروع ہوا جو اب پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس کا اور کوئی نقصان ہو یا نہ ہو یہ تعلیمی نیٹ ورک متنازع ہوچکا ہے اور دوبارہ ساکھ بنانے کے لیے صفائیاں دیتے ہوئے طویل عرصہ درکار ہوگا۔

واقعہ سچا ہے یا جھوٹا، ابھی تحقیقات ہونا ہیں لیکن خدشہ ہے کہ دلیل سے قائل کرنے کی بجائے اشتعال میں آنے سے صنفِ نازک کے لیے تعلیمی مواقع مزید کم ہوجائیں گے لہذا بہتر ہے کہ تحقیقات سے قبل عدالت لگا کر مجرموں کا تعین کرنے اور سزا سنانے کا عمل ترک کر دیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع ملے وگرنہ جس طرح کا ماحول ہے سے خدشہ ہے کہ کہیں مشتعل ہجوم سڑکوں پر سزائیں نہ دینے لگیں۔

کالج میں ریپ کے واقعہ بارے مظاہرین کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں چند ایک لڑکیوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے لڑکی کو روتے دیکھا اور بعد میں کمرے سے اُس کی چیخیں سنیں جسے بنیاد بنا کر طلبا و طالبات بپھر گئے اور پنجاب کالجز پر حملے شروع کر دیئے۔ یہ ہوش مند طرزِعمل نہیں ویسے بھی جس واقعہ کا کوئی مدعی نہ ہو اُس پر کوئی اِدارہ کاروائی نہیں کر سکتا یہاں تو جس لڑکی کی آبروریزی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اُس کے والدین ایسے کسی واقعہ کی پُرزور نفی کرتے کہتے ہیں کہ اُن کی بیٹی گھر میں سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی اِس وجہ سے ہسپتال لیکر گئے اور آجکل چھٹیوں پر گھر ہے۔

لیکن احتجاجی یقین کرنے کو تیار نہیں اور املاک کی توڑ پھوڑ کے ساتھ گاڑیوں کونذرِ آتش کرتے پھر رہے ہیں ایسا انصاف دنیا میں کہیں نہیں ہوتا جیسا آجکل پنجاب کی سڑکوں پر ہورہا ہے اگر ایک لمحے کو یہ تصور کر لیا جائے کہ واقعہ ہوا ہے تو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں مل جاتی، یہ سراسر غنڈہ گردی ہے اور امن و امان کی فضا خراب کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ لگتا ہے جس پر قابو پانا اور ملوث رزیلوں کوبے نقاب کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔

صوبائی وزیرِ تعلیم رانا سکندرحیات نے اچھا کیا جو مشتعل طلبا و طالبات کو مطمئن کرنے چلے گئے لیکن ماحول دیکھ کر وہ بھی جذباتی ہوگئے نہ صرف کالج کی وابستگی معطل کردی اور گارڈ کی گرفتاری کا حکم صادر کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے کی بھی ہدایت کر دیں۔ ایسے اطوار تو مراد راس جیسے کم فہم و دانش کے بھی نہ تھے جس کا مظاہرہ رانا سکندر حیات نے کیا۔ بچگانہ باتیں اور احکامات انصاف خاک ہوتا الٹا آتشِ طیش کو پھیلانے میں مدد ملی کاش احکامات صادر کرنے سے قبل معلومات لے لی جاتیں مگر جو سنا اُس پر بغیر سوچے سمجھے یا کسی سے مشاورت کیے ہی تصدیق کرتے ہوئے کاروائی کرادی یہاں نہ مدعی ہے نہ وکٹم، نہ ہی ملزم ہے اور نہ ہی ثبوت، مگر وزیر کی تصدیق سے لوگوں کو باتیں کرنے اور جھوٹے بیانیے کو سچائی کا پیراہن پہنانے کا موقع ہاتھ آگیا۔

رہی سہی کسر اے ایس پی شہربانو نے پوری کردی جو پہلے بھی ایک واقعہ سے شہرت کشید کر چکیں۔ لباس پر عربی زبان کی عبارت تحریر ہونے پر ایک لڑکی کو بپھرے ہجوم نے گھیر لیا توایک عیسائی نوجوان نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اُس کا تحفظ کیا مگر شہربانو منصب کے بل بوتے پر کریڈٹ لے گئیں۔ یہ واردات واقفانِ حال سے چھپی نہ رہ سکی مگر حاکمانِ وقت اور بااختیار لوگوں نے جب شہربانو کی تحسین شروع کردی تو میڈیا بھی اُسی روش پر چلنے لگا۔ اب جب وہی خاتون آکر کہانی سنانے لگی تو سچ پر بھی کسی نے یقین نہ کیا جس نے ویڈیوز اور تصاویر پھیلانے پر ایکشن لینا تھا اُس نے میڈیا کوریج کومسئلہ کا حل جانا اِس طرح جھوٹے افسانے پر سچائی کا لیبل چسپاں ہوتا گیا۔

کاروباری چپقلش اور حسد ہمارے ہاں عام ہے کیونکہ پنجاب گروپ آف کالجز کا تعلیمی معیار بہتر ہونے کی بناپر اولاد کے لیے والدین کی اولین چوائس ہے لیکن دیگر نجی تعلیمی اِداروں کو ایسی پزیرائی نہیں مل رہی اسی بنا پر یہ امکان رَد نہیں کیا جا سکتا کہ بے بنیاد واقعہ کو اُچھالنے میں کاروباری چپقلش اور حسد کا عمل دخل ہو۔

یہ بات زبانِ زد و عام ہے کہ میاں عامر محمود کے میاں منیر کاروباری شراکت دار ہیں جو مریم نواز کی صاحبزادی اسما نواز کے سُسر ہیں اور مریم نواز آجکل اپوزیشن کا ہدفِ تنقید ہے تو ممکن ہے کاروباری رقابت اور سیاسی مخالف نے رنگ دکھایا ہو جو بھی ہے دلیل کی بجائے مشتعل ہوکر بزور بات منوانا کسی تعلیم یافتہ اور ذمہ دارکے شایانِ شان نہیں۔ سنی سنائی بات پر بغیر تحقیق ماردھاڑ کرنا جہالت ہے حادثہ کہیں بھی ہو سکتا ہے جس کا حل ذمہ دارکا تعین اور سزا ہے لیکن من گھڑت واقعہ کو بنیاد بناکر تعلیمی اِداروں پر حملے کرنا۔ پولیس پر چڑھ دوڑنا اور جھوٹ پھیلانا جُرم ہے ایک بچی کی زندگی تباہ کردی گئی ہے اُس کے ساتھ واقعہ ہوا یا نہیں اینٹی ریپ ایکٹ تو نام شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا یہاں دھڑلے سے بیانیے کی تقویت کے لیے تصاویر دکھائی جارہی ہیں وقت آگیا ہے کہ پارلیمان ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کرے۔

حالاتِ حاضرہ سے آگاہی نتیجہ خیز لائحہ عمل بنانے میں مددگار ہوتی ہے لیکن پنجاب کالج واقعہ کے حوالے سے صوبائی حکومت کے بڑے عہدوں پر براجمان لاعلمی کے شاہکار لگے۔ وزیرِ اعلٰی نے زرائع ابلاغ کی موجودگی میں چوہدری پرویز الٰہی کو ق لیگ کا حصہ کہہ اپنی لاعلمی ظاہر کی حالانکہ وہ دو برس قبل اِس جماعت سے کنارہ کش اور پی ٹی آئی کے مرکزی صدر ہیں۔ چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان اِس حد تک کینہ پرور ہیں کہ صرف منظورِ نظر ماتحتوں پر مہربان ہوتے ہیں جس سے خفا ہوں عین ترقی سے قبل سورس رپورٹ پر کیس بنوا کر اُس کی ترقی رکوا دیتے ہیں اسی لیے گوشہ نشین کی مانند ہیں اِن حالات میں بھلا آگاہی کیسے ہو؟

جب کہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کی کارکردگی صرف سوشل میڈیا تک محدودہے اور وہ اہم تعناتیاں بھی اپنے ہم مزاج اور بچوں کی طرح ناراض ہونے والے لوگوں کو ہی دیتے ہیں۔ گجرات اِس کی واضح مثال ہے جہاں ایسے حالات ہوں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے جو آجکل پنجاب میں ہو رہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ وزیراعلٰی اپنے ہمرکاب بیوروکریسی کی بدنامیوں کا بوجھ اُٹھانے کی بجائے اہل اور باصلاحیت ایسے افراد کو اہم عہدوں پر لائیں جو نیک نامی کاباعث بنیں اور ہنگامی حالات میں ناکارہ ثابت نہ ہوں بلکہ بگاڑ پر قابوپانے میں معاونت کریں۔