شعور اگر ہوتا، تاریخ پہ نگاہ اگر ہو تی تو ملّا کو کھلی چھٹی کبھی نہ دیتے۔ کسی کو نہ دیتے۔ ریاست قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔ قانون اگر نافذ نہ ہو تو حکمران فقط واعظ ہو جاتاہے۔ ایک اور قسم کا ملّا۔
لندن سے خان صاحب کے ایک مدّاح نے پیغام بھیجا کہ سعد رضوی کو رہا کرانے کی کوشش کیجیے۔ وزیرِ اعظم کو مشورہ دیجیے کہ نتائج تباہ کن ہوں گے۔ رائے دی تو رنج میں مبتلاانہوں نے لکھا کہ خان صاحب کو دوسری پارٹیوں سے در آنے والے خوشامدیوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان پہ کیا یہ لوگ خود مسلط ہوئے؟ سرپرستوں کی دہلیز پر بھی جھکے تو اپنی مرضی سے۔
پی ڈی ایم کے بکھرنے سے استحکام کی امید پھوٹی مگر تحلیل ہو گئی، جیسے آفتاب کی اوّلین کرنیں شبنم کو اڑا لے جاتی ہیں۔ جہانگیر ترین سے تصادم جاری تھا کہ تحریکِ لبیک سے کہا کہ آبیل مجھے مار۔ جذبات کی شدت سے بپھرے ہوئے اس ملک کے مذہبی لوگوں سے نمٹنا سہل نہیں ہوتا۔ دنیا کا یہ واحد ملک ہے، جہاں علماء ِ کرام دین پہ کم، سیاست پہ زیادہ بات کرتے ہیں۔ پھر اکثر ایسے ہیں، علمِ دین کی جن پہ محض تہمت ہے۔ کچھ آیات حفظ کر لیں، کچھ احادیث اور مسلم تاریخ کے کچھ واقعات۔ مذہب کی روح سے نا آشنا، سرکارﷺ کا فرمان یہ ہے "الدین نصیحہ"۔ دین خیر خواہی ہے مثبت اندازِ فکر کی اس تلقین کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ فقط اپنی قوم، امتِ مسلمہ ہی نہیں، تمام انسانوں کی خیر خواہی، حتیٰ کہ حیوان اور نباتات کی بھی۔ پہاڑوں، ندیوں اور آبشاروں کی بھی۔
رحمتہ اللعالمینﷺ بشارت دیا کرتے۔ خیرہ کن جذباتی توازن کے باوجود، جس کی کوئی دوسری نظیر نہیں، ایسے دردمند کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتاہے۔
حیرتِ گل سے آبِ جو ٹھٹکا
بہے بہتیرا پر بہا بھی جائے
صحرائے عرب کی آندھی مختلف ہوتی ہے۔ ریت کے ذرّوں سے بھری۔ سر، چہرہ اور گردن کو ڈھانپنا پڑتا ہے کہ خراش نہ ڈال دے۔ مکہ کے کوچہ و بازار آندھی میں ویران تھے کہ آپﷺ ابو جہل کے دروازے پر تشریف لے گئے۔ غالباً اس خیال سے کہ خوفزدہ ہو گا اور ممکن ہے کہ ایمان لے آئے۔ اس کے باوجود کہ ہر طرح سے اذیت دیا کرتا، اس کے لیے دعا بھی کرتے رہے۔ بدقسمتوں کا بدقسمت تھا کہ اپنی انا کی پوجا میں ہلاک ہوا۔ شیبا اور ابو لہب بھی ایسے ہی بدبخت تھے۔
مولوی جہنم کی وعید دیتا اور خوف زندہ کرتا ہے۔ ایک ہی تکرار کہ اللہ سے ڈرو۔ اللہ سے کون ڈر سکتاہے۔ تھانیدار کا خوف آدمی کو سونے نہ دے۔ اللہ سے خوفزدہ ہو کر آدمی کیا جیے گا۔ وہ تو نری محبت ہے، سراپا کرم، پیہم اور متواتر جود و سخا۔ ستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرتاہے۔ عبادت کے لیے شب بھر آپﷺقیام فرماتے؛حتیٰ کہ گاہے پاؤں سوج جاتے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو حیرت تھی کہ عرشِ بریں پر پروردگار سے آمنے سامنے کی ملاقات کے باوجود ایسی زحمت کیوں۔ ارشاد فرمایا: عائشہ! کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
شکرگزاری! اس کے سواپروردگار کچھ بھی نہیں چاہتا۔ ہمارے روزے، ہماری نماز، صداقت شعاری اور امانت داری، صدقہ و خیرات سے اسے کیا حاصل؟ کیا اس بے نیاز نے، تمام خزانوں کے اس مالک نے کوئی کھاتہ کھول رکھاہے، جس میں یہ سب جمع ہوتا ہو؟ یہ تو اس لیے ہیں کہ خاک زاد کو بالیدگی عطا ہو۔
مولوی اس بالیدگی کا دشمن ہے۔ فرقہ پرست اور ایسا کٹر فرقہ پرست کہ خدا کی پناہ۔ پاکستان میں دو تین شیخ الاسلام پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے سو، سوا سو سال پہلے قائم ہونے والے ایک مدرسے کے بارے میں کہا: اساتذہ اور امام تو کیا، اس کے طلبہ، چپراسی اور چوکیدار بھی اولیا اللہ تھے۔ خاکسار حیرت زدہ رہ گیا۔ گویا یہ مدرسہ مدینہ منورہ سے بالا ہو گیا، جہاں آخری وقت تک کچھ منافق موجود رہے۔ کچھ غیر مسلم غلام بھی۔ انہی میں سے ایک نے فاروقِ اعظمؓ پر خنجر سے وار کیا تھا۔ اسی دیار میں وہ خارجی پیدا ہوئے، جنابِ علی کرم اللہ وجہ جن کے معیار پر پورے نہ اترتے تھے۔ انہی میں سے ایک آپؓ پہ حملہ آور ہوا، جب نمازِ فجر کے لیے مسجد کو روانہ ہوئے۔ روایت کے مطابق تب آپؓ نے یہ کہا: فزت برب الکعبہ۔ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔
گویا اب کامیاب ہوا۔ وہ تو ہمیشہ کامران تھے۔ وہ علم کا دروازہ تھے۔ سرکارﷺکا فرمان یہ تھا کہ علی جس کا مولا ہے، اس کا میں مولا ہوں۔ پھر یہ کیوں کہا۔ اس لیے کہ محمدﷺکے رفیق عاجزی اور انکسار میں گندھے تھے۔ دعوے کو باطل گردانتے، خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ سے دور، بہت دور۔ مولوی کے پاس خبطِ عظمت، زعمِ تقویٰ اور تنگ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ ادنیٰ خیال ذہن پہ دستک دے تو چونک اٹھتے۔ مولوی اپنے آپ کو مفتیء اعظم کہتاہے، شیخ الاسلام قرار دیتاہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
برصغیر کی تاریخ میں اقبالؔ کے سوا کوئی جری اور عالم نہ اٹھا، جو ملّا کا باطن بیان کرے۔ علمائِ کرام کا بے حد احترام تھا۔ ان میں گنتی کے جو لو گ صاحبِ علم اور صاحبِ تقویٰ تھے، ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ خواجہ مہرِ علی شاہ سے التماس کیا تھا کہ ابن عربی کی فصوص الحکم انہیں سبقاً سبقًا پڑھا دیں۔ خواجہ اب علیل تھے اور کارِ دنیا سے بے نیاز۔ جواب میں فقط یہ لکھا: طبیعت ماند ہے۔
1947ء کے بعد مولویوں کی بن آئی۔ مذہب کے نام پر اقتدار کا خواب دیکھا۔ اجلے بھی ان میں تھے مگر باید و شاید اور کونوں کھدروں میں وہ چھپ گئے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پرلے درجے کے قدامت پسند۔ مورخ ٹائن بی کے مطابق تو برصغیر کا مرض یہی ہے۔ ملّا کا بس چلے تو ہمیں ساتویں صدی میں گھسیٹ لے جائے۔
حکومت اور بھی بدتر۔ یکسر نا اہل اور نالائق۔ پی ڈی ایم کی پامالی نے جو موقع وزیرِ اعظم کو عطا کیا تھا، اوّل جہانگیر ترین اور پھر سعد رضوی کی گرفتاری سے کھو دیا۔ الزام ان محترم پر یہ ہے کہ پارٹی کی جائیداد پہ انہوں نے قبضہ جما لیا ہے۔ نوٹس دیا ہوتا، رفتہ رفتہ دباؤ میں لایا ہوتا، پولیس طلب کرتی، ایف آئی اے بلاتی، نیب میں حاضر ہونا پڑتا۔ اس سے بڑھ کر بھی یہ کہ پہلے ہی مرحلے میں فرانسیسی سفیر کے تبادلے کا مطالبہ کیوں مان لیا تھا؟ مان لیا تھا تو پارلیمنٹ میں لے جاتے۔ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ اسے مسترد کر تی مگر یہ نکمے لوگ۔ کوئی توکل، نہ عقیدہ، کوئی سلیقہ، نہ قرینہ۔ بس دعوے ہی دعوے۔ اونچی دکان، پھیکا پکوان۔
معیشت اور سیاست میں پہلے ہی سڑاند ہے۔ اصلاح کا امکان پہلے ہی کم تھا۔ اب اور بھی کم ہوا۔ اندیشہ ہے کہ اب کوئی دھماکہ ہوگا اور ایک نئے تجربے کا آغاز۔ ایک اور ناکام تجربے کا۔ اس لیے کہ فیصلہ سازوں میں سمت کا احساس اور ادراک ہی نہیں۔ شعور اگر ہوتا، تاریخ پہ نگاہ اگر ہو تی تو ملّا کو کھلی چھٹی کبھی نہ دیتے۔ کسی کو نہ دیتے۔ ریاست قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔ قانون اگر نافذ نہ ہو تو حکمران فقط واعظ ہو جاتاہے۔ ایک اور قسم کا ملّا۔
حرف آخر:صدشکر کہ ابھی ابھی ہنگامہ کاروں پہ پابندی لگا دی گئی۔ مامون الرشید نو برس حماقت میں مبتلا رہا۔ تآنکہ امام رضا، ان پہ اللہ کی رحمت ہو، نے اسے جتلایا۔ کاش کوئی اس کپتان کو بھی سمجھا سکے جو خود کو زمانے کا امام سمجھتا ہے۔