امریکی صدر نے ٹھیک کہا: اگلا ایک عشرہ فیصلہ کن ہوگا مگر کون جانتا ہے کہ آنیوالا کل کیا لائے گا۔ بس یہ کہ امریکیوں کی چھ نسلیں تمول میں پلی ہیں اور چین کی صرف ایک۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: اللہ کے لشکروں کو اسکے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ممکن ہے امریکہ کو چین کے ہاتھوں پٹنا ہو۔
جنرل اسمبلی میں صدر جو بائیڈن کا خطاب بہت چونکا دینے والا نہیں۔ ہاں مگر زچ ہوئے، مقبولیت کے تمنا ئی لیڈر نے ایک راز کھول دیا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کوکرہ ارض پر اتارا گیا تو بتایا گیا: تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔ یہ غلبے کی انسانی جبلت ہے اور اس کی ایک دوسری جہت بھی۔
عمر فاروقِ اعظمؓ نے علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ فی الواقع اچھے ہوتے ہیں مگر بھاتے نہیں۔ کچھ دوسرے لوگ اچھے نہیں ہوتے مگر بھاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کبھی ہم انؐ کے پاس ہوتے تھے اور کبھی آپ۔ کیا کبھی پوچھا تھاکہ ایسا کیوں ہے؟ بولے:: جی ہاں، پوچھا تھا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:انسانی روحیں لشکروں کی طرح اتاری گئیں۔ روزِ ازل ایک دوسرے سے جو آشنا ہوئے، دنیا میں بھی رفاقت کو مائل رہتے ہیں۔ بیس برس پہلے صاحبِ عرفان سے جب یہ واقعہ سنا تو غور کرنا شروع کیا۔ جب کوئی اہم سوال دل میں پڑاؤ ڈال دے تو وہیں خیمہ زن رہتا ہے۔ جب تک کہ جواب نہ پا لے۔ دعا کرتے رہنا چاہئے، غور کرتے رہنا چاہئے۔ ایک کریم النفس استاد سے کوئی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نہیں جانتا مگر پوچھتے رہئے۔ کچھ سوالات جوابات سے بھی زیادہ مقدس ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے: مومن وہ ہیں، اٹھتے بیٹھتے اور پہلوؤں کے بل لیٹے پروردگار کو جو یاد کرتے رہتے ہیں۔ زمین و آسمان کی تخلیق میں جو غور کیا کرتے ہیں۔
پہلے سوال کا جواب قدرے آسانی سے مل گیا۔ اچانک ایک دن ایک مثال سے۔ رسولِ اکرم، رحمتہ اللعالمین ؐکے گرد۔ والوں کا ہجوم کیوں ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ، دورِ جاہلیت میں جن کا نام عبد العزیٰ تھا، سرکارؐ نے عبد اللہ رکھ دیا۔ عمر فاروقِ اعظم ؓ، سیدنا عثمانِ غنی ؓ، سیدنا علی کرم اللہ وجہ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ، جن کے بارے میں فرمان یہ ہے: دین کا چوتھا اس سرخ عورت کے پاس ہے۔ ان کے سوا بھی، مثلاً جناب عبد اللہ بن مسعودؓ، جن کے لیے عالی مرتبت ؐ نے فہمِ دین کی دعا کی تھی۔ وہ جناب علی کرم اللہ وجہ کے نمائندے کے طور پر باغیوں سے مکالمے پر مامور کیے گئے۔ جنابِ عبد اللہ بن عمرؓ، بعض اصحاب نے جنہیں اپنے جلیل القدر باپ کا جانشین بنانے کی تجویز پیش کی۔ عبد اللہ بن زبیر ؓ، ظالم امویوں کا خیمہ جنہوں نے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی۔ بظاہر کامیاب نہ سہی لیکن دلاوری تاریخ میں امر ہو گئی۔
سوال کیا تو انہوں نے کہا۔ کو اسی طرح۔ سے نسبت ہوتی ہے، جیسے۔ کو۔ سے۔ رسولِ اکرم ؐ سے۔ والوں کی نسبت زیادہ تھی۔
سطح بینوں، خوش فہموں اور شاعروں کی بات دوسری ہے، بچو ں کی طرح جو دائمی امن کے امکان پہ یقین رکھتے ہیں، اس آرزو کو سینچا کرتے ہیں:
اب یہ ارماں کہ بدل جائے جہاں کا دستور
ایک اک آنکھ میں ہو عیش و فراغت کا سرور
ایک اک جسم پر ہو اطلس و کم خواب و سمور
اب یہ بات اور ہے خود چاک گریباں ہوں میں
چاک گریبانی آدمی کا مقدر ہے۔ جنگوں سے مفر نہیں۔ غلبے کی جبلت دائمی ہے۔ افراد کی طرح اقوام بھی، بعض اقوام بھی دوسروں کے باب میں مائل اور مخالف ہوتیں۔ محض اسماء کے طفیل نہیں بلکہ دیگر اسباب سے بھی۔
لگ بھگ بارہ برس ہوتے ہیں، جنرل حمید گل سے سوال کیا۔ چینیوں سے آپ کا واسطہ رہا۔ خاص طور پر افغانستان پہ روسی یلغار کے ہنگام۔ کیا وہ کبھی اپنی سرحدوں سے باہر نکلیں گے؟ ایسے میں قوتِ متخیلہ سے مالا مال مرحوم جنرل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ بولے: آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ عرض کیا: اس لیے کہ کچھ ماہرین کا اندازہ ہے کہ چین ایک دن عالمی اقتصادی قوت ہوگا۔ طاقت نشہ پیدا کرتی ہے۔ ماضی کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں، غلبے کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔ چینی بھی دوسروں جیسے آدم زاد ہیں۔ وہی ان کی جبلتیں ہیں۔ ہزاروں برس سے ان پر حملے ہوتے آئے ہیں۔
صاحب قراں، امیر تیمور گورگانی کی پہلی یلغار کامیاب نہ ہو سکی۔ دوسری بار راہ میں تھے کہ فرشتہء اجل آپہنچا۔ بعد ازاں بھی خوں آشام منگول چڑھائی کرتے رہے۔ اگلی صدیوں میں جاپان تھا۔ پھر برطانیہ، امریکہ اور فرانس۔ چینی تاریخ میں ایک پوری صدی کو توہین کی صدی کہا جاتا ہے humiliation years of Hundred۔ مغربیوں نے کمال یہ کیا کہ چین کو افیون کا عادی بنا دیا کہ قوتِ عمل تمام ہو جائے۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا شاید ایک ہی واقعہ ہے۔ The China Milage کے مصنف، تاریخ دان جیمز بریڈلے نے لکھا ہے۔ فرینکلن ڈیلانو روزاویلٹ کا نام سنتے ہی چین کا خیال آتا ہے۔ اسے کبھی اچھی نوکری نہ ملی مگر زندگی شاہانہ۔ دولت کا انبار اس کے پاس کہاں سے آیا تھا؟ ڈیلانو خاندان سے۔ اس کے امریکی د دادا ویرن ڈیلانو چین میں افیون فروشی کے بادشاہ تھے۔ Yaleیونیورسٹی کے بعض ادارے آج بھی اس کے عطیات سے قائم ہوئے۔ یونیورسٹی کی زمین بھی افیون کے نوابوں کی عطا کردہ ہے۔ کولمبیا کیمپس کی سب سے مشہور عمارت کا نام ایبٹ لو کے نام پر رکھا گیا، ویرن ڈیلانو کا شریکِ کار۔
پرنسٹن یونیورسٹی کا پہلا سرپرست سٹیفن گرین تھا، ڈیلانو کا جانشین۔ میساچوسٹیس کا پہلا صنعتی شہر ایبٹ لو ول افیون کی آمدن سے تعمیر کیا گیا۔ مشرقی ساحلوں میں پہلی ریلوے لائن افیون کی کمائی سے بچھی جیسے سیالکوٹ کے فٹ بال بیچنے والوں نے شہر کی شاہراہیں اور ہوائی اڈہ تعمیر کیا۔ رالف والڈو ایمرسن کو مافوق الفطرت علوم کا ماہر مانا جاتا ہے۔ اس کے پاس اتنا وقت کہا ں سے آیا کہ بیٹھا غور و فکر کیا کرتا۔ اس لیے کہ اس کی شادی افیون کے کاروباریوں میں ہوئی تھی، کولج خاندان میں۔ کوئی بھی شخص جو اپنے ساتھ Forbesکا نام استعمال کرتا ہو، جیسا کہ جان فوربز کیری، اس کا ماضی کھنگالیے تو کالی افیون دکھائی دے گی۔ جان کیری کا جدِ امجد چین میں افیون بیچتا تھا۔ اہلِ چین بھی اب ذلت کے سو سالوں کا ذکر کرتے ہیں تو اسی پسِ منظر میں۔ برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی بحری افواج کی سرپرستی میں یہ کاروبار جمایا گیا۔
بالکل اسی طرح جیسے کروڑوں افریقی اغوا کر کے لائے گئے اور آدھے راستے میں جاں سے گئے۔ جیسے کروڑوں ریڈ انڈین موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ امریکی تاریخ خوں ریزی، قتل و غارت اور دوسری اقوام کو غلام بنانے کی تاریخ ہے۔ قوموں کے مزاج صدیوں میں ڈھلتے ہیں۔ یورپ سے امریکہ کی طرف ہجرت کرنیوالوں میں جرائم پیشہ افراد کی اکثریت تھی۔
سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد صدر بش سینئر نے نیا عالمی نظام تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے اسی کا اعادہ کیا ہے۔ واضح طور پر انہوں نے کہا کہ بموں اور میزائلوں سے نہیں، یہ جنگ دولت اور سیاست کے بل پر لڑی جائیگی۔ چین اور روس کا انہوں نے نام نہ لیا۔ سب مبصرین مگر متفق ہیں کہ اشارہ انہی کی طرف تھا۔
امریکی صدر نے ٹھیک کہا: اگلا ایک عشرہ فیصلہ کن ہوگا مگر کون جانتا ہے کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ بس یہ کہ امریکیوں کی چھ نسلیں تمول میں پلی ہیں اور چین کی صرف ایک۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ممکن ہے امریکہ کو چین کے ہاتھوں پٹنا ہو۔