اچانک ایک سوال داغا:کپتان یہ کیوں کہتا ہے کہ وہ این آر او نہیں دے گا۔ این آر او تو کبھی کا دیا جا چکا اور سبھی کو دیا جا چکا
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
بلاول بھٹو کا دعویٰ ہے کہ اکیلے ہی وہ عمران خان کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ ایک جعلی حکومت جس نے مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جواں سال لیڈر کا کہنا ہے کہ تین سال میں پیپلز پارٹی کو دیے گئے 18سو ارب روپے کا حساب مانگنے والے 9000ارب روپے کا حساب دیں۔ امسال 23جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں وفاقی حکومت کے اخراجات 10ہزار ارب روپے سے زیادہ تھے۔ آمدن ساڑھے چھ ہزار ارب اور باقی ظاہر ہے دنیا بھر سے مانگا ہوا قرض۔ وہی اسداللہ خاں غالب کی سی حالت زار:
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نو ہزار ارب روپے سے مراد غالباً وفاقی حکومت کے 3سال کے ترقیاتی اخراجات ہیں یا شاید اس کے زیر انتظام صوبوں، پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان کے بھی۔ اردو زبان کے عظیم کہانی کار ڈپٹی نذیر احمد نے ایک کنبے کی کہانی ناول کی شکل میں لکھی تھی جس کے اخراجات ہمیشہ اس کی آمدن سے زیادہ ہوتے۔ ایک سگھڑ بہو گھرانے کا حصہ بنی۔ گوشوارہ اس نے دیکھا تو حیران ہوئی۔ گھی، آٹا، شکر، گوشت اور دالیں، شربت، دودھ اور دہی اصل قیمت سے ہر چیز کے دام ڈیڑھ گنا۔ عشروں سے ایک ڈھب پر چلے آئے خاندان کے بڑوں کو بہو نے پیشکش کی کہ گھریلو ذمہ داریاں تنہا اسی کو سونپ دیں۔ چند ہفتوں میں ہر چیز نک سک سے درست ہو گئی۔ اخراجات کم ہوتے گئے اور قرض کا بوجھ بھی بلکہ پہلے سے جمع شدہ واجبات کی ادائیگی کا آغاز ہو گیا۔
اتوار کو پی ڈی ایم کے جلسے میں اعلان ہوا کہ پی ٹی آئی کے سوا سب جماعتیں یکجا ہو کر کراچی شہر کے زخم مندمل کریں۔ کون سی جماعتیں؟ میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائِ اسلام، محمود اچکزئی کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور وہ سب چھوٹی چھوٹی جماعتیں جن کے نام یاد رکھنا مشکل ہے۔ ظاہر ہے زرداری خاندان کی پیپلز پارٹی بھی۔ یہ الگ بات کہ ان سب جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی تعداد تنہا ایم کیو ایم کے برابر ہو گی۔ بلکہ سب سے بڑے شہر کی نمائندہ جماعت اب تحریک انصاف ہے۔ چودہ عدد ارکان قومی اسمبلی۔ شہر نے جن لوگوں کو ووٹ کا مستحق ہی نہ سمجھا، ان کے اکسانے پر وہ ہنگامہ کیوں اٹھائے؟ ان پر اگر اعتماد ہوتا تو نمائندگی کا اعزاز عطا ہوتا۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ کراچی میں بگاڑ کا ذمہ دار کون ہے؟ تیرہ برس سے چار حکومتیں شہر میں برسر اقتدار ہیں۔ شہنشاہ آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، محترمہ فریال تالپور اور یکے بعد دیگرے نامزد کئے جانے والے وزرائے اعلیٰ۔ ان میں سے تازہ ترین مراد علی شاہ ہیں۔ قانون کی اونچ نیچ سے باخبر اکثر قانون دان ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی نظام عدل کارفرما ہوتا تو عالی جناب ایوان وزیر اعلیٰ میں نہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے ہوتے۔ وہ ہی کیا بلاول بھٹو اور ان کے والد گرامی بھی۔ ایک بار جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جنہوں نے مطلع کیا تھا کہ تیسری آنکھ انہیں بخشی گئی ہے۔ آنے والے واقعات کا انہیں پہلے سے ادراک ہو جاتا ہے۔ سرما کی اس سرد اور سفاک شب نہایت صبر کے ساتھ پورے ایک سو بیس منٹ تک سپہ سالار کو صدر مملکت کا خطبہ سننا پڑا۔ جناب صدر کا حال ان دنوں یہ تھا کہ ایوان صدر کی راہداری میں کسی بھی وقت کسی گارڈ سے گفتگو شروع کرتے تو گھنٹہ بھر جاری رہتی۔ رات گئے بستر پر تشریف لے جاتے اور ظہر سے کچھ دیر پہلے بیدار ہوتے۔
یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ تب ان کے یار غار مولانا فضل الرحمن ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تو چار گھنٹے اٹھنے نہ دیا۔ نادر روزگار شاعرفیض احمد فیضؔ کے ناصح کی طرح، جس کے بارے میں کہا تھا:
دم تنبیہ تیرا ذکر کیا ناصح نے
دیر تک میں نے اسے پاس بٹھائے رکھا
مولانا فضل الرحمن تنبیہ نہیں، نصیحت نہیں غالباً حصہ رسدی کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ جناب صدر کے دل پر بوجھ ایسا تھا کہ قصہ شروع ہوا تو دراز سے دراز ترہوتا گیا۔ کتھارسس کی یہ کوشش ناتمام رہی۔ علاج کے لئے امارات لے جائے گئے۔ کئی دن دنیا کے بہترین معالج نگران رہے۔ ملک کا سب سے بڑا پراپرٹی ٹائیکون روتا رہا، ان کے پائوں سہلاتا رہا اور کہتا رہا:خدانخواستہ زرداری صاحب کو کچھ ہو گیا تو میرا کیا بنے گا۔ یہ کھرب پتی چودھری شجاعت حسین کا ذکر کمال رشک سے کرتا ہے، زرداری صاحب کی شکایت نہیں کرتا۔ شاید اس لئے کہ جو کچھ اس نے نئے زردار سے حاصل کیا کم از کم اتنا لوٹا بھی دیا۔ چودھری صاحبان کی وہ ستائش کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ حکمرانوں میں سب سے زیادہ شائستہ و مہربان وہ تھے۔ امیر یا غریب چودھریوں کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ ان میں لاہور کے دو دانشور بھی شامل ہیں جو قلم کی بجائے اب اپنی دولت و جائیداد پر فخر کرتے ہیں:
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
کبھی یہ مدبر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایک ایجنٹ کے قصیدے بھی لکھا کرتے۔ جس کا مکروہ نام متروک ہو چکا، مرنے سے پہلے ہی جب مر چکا، کوڑھ کے کسی مریض کی طرح عبرت کا نمونہ بن چکا؛ہر چند عبرت حاصل کرنے والے کم ہیں۔
کراچی کی حالت زار پر رونے والوں میں شہباز شریف شامل تھے۔ سچ یہ ہے کہ دوسرے تو فقط نوٹنکی کے اداکاروں کی طرح چیختے چلاتے ہی رہے، شہباز شریف آنسوئوں سے رو دیے۔ کیسا درد بھرا دل ہے۔ ایسے ہی ایک آدمی کے بارے میں برصغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بتایا گیا۔ شاہ الٹا ہنس پڑے اور کہا کہ یوسف ؑکے بھائی بھی روتے ہوئے باپ کے پاس گئے تھے۔ حضرت یوسفؑ اور ان کے والد گرامی جناب یعقوبؑ۔ غالبؔ نے کہا تھا:
قیدمیں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
شب ایک دوست نے سوال کیا!پی ڈی ایم کی تحریک کیا جمہوریت کے لئے برپا ہے؟ بلاول بھٹو اور ان کے والد ماجد کیا عام آدمی کے لئے گِریا کناں ہیں؟ پھر بھنا کر بولے:کچھ باتیں صحافیوں کی سمجھ میں نہیں آتیں کہ عمران خان کی حماقتیں اور نادانیاں اپنی جگہ، پی ڈی ایم کی تشکیل کا اصل فائدہ اپوزیشن رہنمائوں کو ہوا، شہدا کے لئے مختص جو زمین مولانا فضل الرحمن نے ہڑپ کر لی تھی اب اس کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ شہباز شریف خاندان کے سر پہ 35ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام تقریباً دھل چکا، نواز شریف جیل سے رہائی پا کر لندن میں آسودہ ہیں۔ سندھ میں زرداری صاحب کی بادشاہت برقرار رہی اور شاید آئندہ بھی رہے گی۔ پھر اچانک ایک سوال داغا:کپتان یہ کیوں کہتا ہے کہ وہ این آر او نہیں دے گا۔ این آر او تو کبھی کا دیا جا چکا اور سبھی کو دیا جا چکا۔