اس کتاب کا ایک اور سبق یہ ہے کہ کسی حال میں صاحبِ ایمان کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہئیے۔ زندگی صبر، امید اور جدوجہدمیں ہے۔ بریگیڈئیر سلطان کی کتاب The "Stolen" Victory پڑھ چکا تو والٹیر کا وہی جملہ یاد آیا: Every word of a writer is action of generosity لکھنے والے کا ہر جملہ، ہر لفظ سخاوت کا عمل ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر کتاب پر یہ قول صادق نہیں۔ لیکن بریگیڈئیر سلطان کی کتاب پہ یقینا۔ افسوس کہ یہ کتاب میں نے بہت تاخیر سے پڑھی۔ مرحوم کی خواہش تھی کہ یہ ناچیز اسے اردو میں لکھے اور اس کا انگریزی ایڈیشن وہ خود رقم کریں۔ بریگیڈیر سلطان کی صاحبزادی نے یہ کتاب پروفیسر احمد رفیق اختر کے لیے ناچیز کو عنایت کی۔ ازراہِ کرم انہوں نے مجھے پہچانا اور کہا کہ ایک نسخہ مجھے بھی عنایت کریں گی۔ عاریتاً پروفیسر صاحب سے لے لی۔ رک رک کر ایک ایک پیرا گراف پہ غور کرتے ہوئے پڑھی۔ عجیب بات ہے کہ یہ کتاب برائے فروخت نہیں۔
1993ء میں جب کام کا آغاز کیا تو بریگیڈئیر صاحب نے کہا تھا: یہ دنیا کی بہترین کتاب ہونی چاہئیے۔ ان کا اندازِفکر ہمیشہ سے یہی تھا۔ ہر کام کو درجہء کمال تک پہنچانے کی پوری سعی۔ آئی ایس پی آر کو متعلقہ اشاعتی ادارے پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن سے اس کتاب کے حقوق حاصل کرنے چاہئییں۔ اردو میں اس کا ترجمہ کرانا چاہئیے اور فوراً۔ پاکستانی فوج کے ہر فرزند کو ان اوراق کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔ اس لیے نہیں کہ یہ شجاعت کی حیرت انگیز داستان ہے۔ اس لیے بھی کہ مشرقی پاکستان کے بارے میں مغالطے دور کرتی اور حقائق روشن کر ڈالتی ہے۔ اس لیے بھی کہ جنگی اخلاقیات پر ایسی دستاویز شاذ ہوگی۔
بریگیڈئیر نے کتاب کا آغاز ان جنگی اصولوں سے کیا ہے، بدر کے موقع پر رسولِ رحمت ﷺکے حکم سے سید نابلال ؓنے جن کا اعلان کیا تھا:
0کسی خاتون اور بچّے کو نقصان نہیں پہنچے گا 0کھیت میں کام کرتے کسی کسان، کسی بزرگ یا معذور آدمی کو بھی نہیں 0پھل دار درخت کاٹا نہیں جائے گا 0 ایک گھونٹ پانی اور خوراک کا ایک لقمہ بھی قیمت چکائے بغیر نہیں لیا جائے گا 0کوئی سوار جنگی قیدی کو پیدل نہیں چلائے گا 0ہتھیار ڈالنے والے حسنِ سلوک کے مستحق ہوں گے 0آخر میں پھر یاد دہانی کہ بچّے ہر حال میں محفوظ رکھے جائیں گےعمر بھر بریگیڈئیر سلطان مرحوم نے ان سب اصولوں کی پاسداری کی۔ کئی سو چھوٹے بڑے معرکوں کی روداد میں ان واقعات کا ذکر ہے۔ توجہ سے پڑھی جائے توکتاب کا ایک ایک لفظ دل و دماغ پہ نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔
ملٹری کالج جہلم نے بریگیڈیر سلطان کو اپنی پون صدی کی تاریخ کا سب سے بہادر فرزند قرار دیا تھا۔ شاید وہ واحد زندہ سپاہی تھے، جن کے لیے نشانِ حیدر تجویز کیا گیا۔ 1965ء اور 1971ء دونوں بار وہ تمغہء جرات کے مستحق ٹھہرے۔ ان کا اندازِ فکر مختلف تھا۔ دوسری بار تمغہ ملا تو جی ایچ کیو کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا "میں نے اپنی جنگ دھات کے اس ٹکڑے کے لیے نہیں لڑی تھی جو میری موت کے بعد دیوار پہ لٹکایا جائے گا۔ "
زندگی کے آخری برسوں میں، کبھی میں انہیں افسردہ دیکھتا۔ گہراغم تھاکہ اجازت دی جاتی تو وہ دشمن کو ڈھاکہ میں داخل نہ ہونے دیتے۔ درحقیقت یہ ذمہ داری انہیں سونپ دی گئی تھی۔ متعلقہ ڈویژن کے بریگیڈیر کی گرفتاری کے بعد وہ ایک پوری بریگیڈ کے انچار ج بنا دیے گئے تھے، شہر کا جسے دفاع کرنا تھا۔ تمام تیاریاں مکمل کر لیں تو اچانک ہتھیار ڈالنے کا حکم ملا۔ بے چین ہو کر وہ جنرل نیازی سے ملنے گئے لیکن اس وقت ہتھیار ڈالنے کے لیے وہ پلٹن میدان پہنچ چکے تھے۔ مشہورِ عالم جریدے ٹائمز، کرسچین سائنس مانیٹر، بی بی سی اور درجنوں اخبارات بریگیڈیر سلطان اور 31 بلوچ رجمنٹ کی خیرہ کن شجاعت اور جنگی مہارت کی کہانیوں سے بھرے پڑے تھے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ خود بھارتی اخبارات نے انہیں غیر معمولی خراجِ تحسین پیش کیا۔ جس کسی نے 1971ء میں ہونے والی جنگ کی تاریخ لکھی اور جو کوئی لکھے گا، وہ اس جگمگاتے باب کو دہرائے گا۔ بھارتی جنرلوں نے قیدی کرنل کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ بھارت کے اندر قیدیوں کے کیمپ میں میجر وکرم نے ساتھیوں سمیت انہیں قطار میں کھڑا کر دیا تھا کہ گولیوں سے اڑا دیے جائیں کہ ایک حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ "جنیوا کنونشن کی تم خلاف ورزی کر رہے ہو۔ تمہاری رائفلیں ہم چھین لیں گے اور تم پہلے مقتول ہو گے۔ "انہوں نے کہا۔ بدتمیز وکرم پسپاہوگیا۔ بعد میں ایک بھارتی جنرل پاکستانی سپوت سے ملنے آیا اور خفیف لوٹا۔
بریگیڈئیر کے اعزازات بے شمار ہیں۔ ایک رجمنٹ اور کچّے مورچے، مقابلے میں ایک پورا بریگیڈ تھا۔ پکّے مورچے اور فضائی تحفظ، جو 31 بلوچ رجمنٹ کو حاصل نہ تھا۔ 9 دسمبر1971ء کو بھارتی کمانڈر ایچ ایس کلرنے جب انہیں لکھا: آپ کی تعداد بہت کم ہے۔ چاروں طرف سے آپ گھر چکے ہیں، ہتھیار ڈال دیجیے۔ جواب میں بریگیڈئیر نے لکھا "ہم جنگ کے انتظار میں ہیں۔ امید ہے، اگلی بار اپنے ہاتھ میں آپ اس قلم کی بجائے سٹین گن پکڑے دکھائی دیں گے۔ رقعہ گولی میں لپیٹ کر بھیجا گیا۔
1965ء کی جنگ میں، مقبوضہ کشمیر میں لگ بھگ ایک سو چھاپہ مار کارروائیاں ان کے دستے نے کیں۔ سینکڑوں کلومیٹر اندر تک گئے اور ہر بار محفوظ لوٹے۔ ایک معرکے میں ایک پوری بھارتی پلٹن کا وجود ہی مٹا دیا۔ بریگیڈیئر کی زندگی کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ ان کے ہاں تھکاوٹ اور پسپائی کا تصور ہی نہیں۔ 1965ء میں اپنی سب سے بڑی فتح اس حال میں انہوں نے حاصل کی کہ ان کے اکثر سپاہی شدید سردی کے سبب بیمار اور درماندہ تھے۔
عمر بھر بریگیڈیئر نے جنگی فنون میں عرق ریزی کی یا انگریزی کے ادبِ عالیہ میں۔ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک، خوف جن کی کھال میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ جن کا ایک ایک لمحہ اپنے مقصدِ حیات کے لیے وقف ہوتاہے۔
ایسی عظیم کتاب ایک آدھ کالم میں کیسے نمٹ سکتی ہے۔ کئی بار لکھنا ہوگا اور وہ واقعات بھی، جو کتاب کا حصہ نہیں۔ مثلاًجنرل ضیاء الحق نے انہیں سبکدوش کیوں کیا۔ مثلاً اپنے گھر میں مدعو کرکے جب یہ کہا کہ کیا تلافی ممکن ہے تو بریگیڈئیر نے جواب دیا: جنرل صاحب، جنگ لڑنے کے سوا میں نے کچھ سیکھا ہی نہیں۔
یہ کتاب اس بھید کو آشکار کرتی ہے کہ مسلم تاریخ نے طارق بن زیاد، محمد بن قاسم اور صلاح الدین جیسے جنرل کیسے جنے۔ جذبہء شہادت کی عظمت کا بھید ان پر کھلتا ہے، جو قلب و دماغ سے موت کا خوف نوچ پھینکتے ہیں۔ قربان ہونے پہ تل جاتے ہیں۔ خوف پہ آدمی جب قابو پا لیتا ہے تو دوسروں جیسا نہیں رہتا۔ شہید کے لیے دائمی حیات ہے۔
اس کتاب کا ایک اور سبق یہ ہے کہ کسی حال میں صاحبِ ایمان کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہئیے۔ زندگی صبر، امید اور جدوجہدمیں ہے۔