پوچھتے رہو، مستقل طور پر پوچھتے ہی رہو۔ اس لیے کہ کچھ سوال، جوابات سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ کیا یہ ایسا ہی ایک سوال ہے یا وہی خلط مبحث جو ہمارا قومی شعار ہو چکا۔
آئن سٹائن کو اصرار تھا کہ تخیل کی اہمیت علم سے زیادہ ہے۔ عجیب بات ہے۔ خیال کی پرواز، خالص ادراک سے بڑھ کیسے سکتی ہے۔ ایک گنوار بھی تخیل کا حامل ہو سکتاہے، جس نے کبھی کوئی کتاب پڑھی نہ ہو نہ دانش مندوں کی صحبت کا عادی رہا ہو۔ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس دان شاید سماجی اور معاشی حیوانوں کا ذکر نہیں کر رہا، دنیا میں جو کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض پر دانشوری کی تہمت بھی ہوا کرتی ہے۔
بہت سادہ زندگی گزارنے والے، غیر معمولی انہماک کے اس مفکر کی مراد شاید یہ ہے کہ مجرد علم قندیل نہیں ہو سکتا، غور و فکر کو اگر شعار نہ کیا جائے۔ سوچ بچار کا ایسا انداز، مستقل مزاجی جس میں کارفرما ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس میں لچک بھی پائی جاتی ہو۔ ایک دوسرے موقع پر اس نے کہا تھا: ایک سو بار کیے گئے کامیاب تجربے کے بعد یہ انکشاف بھی ممکن ہے کہ یہ ظفر مندی فریبِ فکر کی پیدا وار تھی۔
تو پھر اصل نکتہ کیا ہے؟ ٹھوس بنیادوں پر تحمل اور تدبر کے ساتھ سوچتے رہنا؟ حتیٰ کہ انشراحِ صدر پیدا ہو جائے۔ اپنے تعصبات کا آدمی ادراک کرنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی دانش میں بالیدگی بڑھتی چلی جائے۔ کون سی چیز بروقت اور ثمر خیز فیصلہ کرنے سے ہمیں روکتی ہے؟ اس سوال کا جواب شاید بہت آسان ہے۔ خود ہماری ذات، ہماری انا اور تعصبات اور خواہشات کی درازی، جن کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی۔ دانش کیسی ہی پختہ ہو، لامحدود بہرحال نہیں ہوتی۔ عقلِ کل کوئی نہیں ہوتا۔ وہ بھی نہیں، جو اپنی ذات سے بڑی حد تک اوپر اٹھ جائے۔ حماقت مگر بے کنار ہوتی ہے۔ انا کا غرور جب اس میں شامل ہو جائے، غلبے کی جبلت جب قائم ہو جائے اور برقرار رہے تو تمام ہوش مندی پاگل پن کی غذا بنتی ہے۔ بے ساختہ اور بے باکانہ جو نمودار ہوتا اور عظمتوں کو خاک بسر کرتاہے۔
ممکن ہے، یہ محض ایک کہانی ہو مگر اس میں سبق بہت بڑا ہے۔ اس لیے کہ ایک دانا آدمی نے لکھی تھی، اپنے چھوٹے سے گھر میں ہمیشہ جو فکر و نظر کے موتی ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ اس آدمی کا نام شیکسپئر تھا۔۔۔ اور اقبالؔ ایسے عبقری نے، جو مغربی ادب کی مرعوبیت سے بلند تھا، اس کے بارے میں یہ کہا تھا:
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا
ایسابروٹس کے ہاتھوں، جب سیزر کی موت واقعی ہو چکی تو انطونی نے کہا: All thy greatness، glories and trumps are shrunk to this little measureکیا تمہاری عظیم الشان کامیابیوں اور فتوحات کا انجام بالاخر یہی تھا؟ اندازِ فکر کی بحث جدا ہے۔ اس سے پہلے غالباً ایک اور سوال پر پڑاؤ ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس فانی حیات کا مقصد کیا ہے؟ دھن دولت؟ آسودگی؟ اختیار و اقتدار اور فاتحانہ جلال؟ اگر یہی ہے، شعوری نہ سہی، لاشعوری طور پر، عملاً تو اکثر کے نزدیک یہی ہے تو یہ سب کچھ انجامِ بد سے کیوں دوچار کرتاہے۔ لینن اور سٹالن، ماؤزے تنگ اور کم ال سنگ آخر کار تاریخ کے کوڑے دان میں کیوں ڈال دیے جاتے ہیں۔
سمرقند میں دوسری بار شیبانی خان کے ہاتھوں پٹنے کے بعد عظیم ترین جنرلوں اور حکمت کاروں میں سے ایک، ظہیر الدین بابر نے یہ کیوں کہا تھا: ہم بادشاہوں سے فقیروں اور شاعروں کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں؟ 475برس کے بعد، اس کے حکم پر لکھا گیا حجری کتبہ تلاش کر لیا گیا ہے۔ اور ازبکستان کے ایک عجائب گھر میں رکھا گیا ہے۔ آسودہ پرند کی طرح، خیال کی پرواز بھی ہموار نہیں ہوتی۔ ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آیا۔ نواب زادہ نصر اللہ خاں نے، جو اس ناچیز کو سنایا، دوسرے ملاقاتی جب رخصت ہو چکے تھے۔ 1993ء کے انتخابات میں بے نظیر کی فتح یقینی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف سے ہم آہنگ تھی۔ زرداری نام کی دیمک نے پیپلزپارٹی کو ابھی کھوکھلا نہ کیا تھا۔ پنجاب کے نگران گورنر خواجہ طارق رحیم اور پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر سرگوشی کے انداز میں انہوں نے کہا: فکر نہ کیجیے گا نواب صاحب، 25ہزار ووٹ آپ کے ڈبوں میں پہلے سے ڈال دیے جائیں گے۔
قرائن اور آثار کی شہادت اگر قابلِ قبول ہے تو اس الیکشن میں بڑے پیمانے کی دھاندلی نہ ہوئی تھی۔ صرف اس تاثر نے نون لیگ کو برباد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے نالاں ہے۔ اب تو خیر انہوں نے اس امر کا پورا اہتمام کرلیا ہے کہ مقتدرہ کے سرخیل ہی نہیں، اس کے تیور دیکھنے والے سب لوگ عالی جناب سے متنفر ہوں۔ پاکستان سے زیادہ اب انہیں بھارت عزیز ہے۔ امریکہ اور برطانیہ، جو ان کا دوسرا گھر ہیں، ممکن ہے کہ کبھی واحد وطن ہو جائے۔
وہی ایک ایسا دانا نہیں، اور بھی ہیں اور ان میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔۔ ہمارے بعض مقتدرہ بھی اسی طرزِ فکر سے مرعوب نظر آتے ہیں۔۔۔ اور نہیں جانتے کہ حبِ وطن کے بحر کی بے پایاں موج جب اچھلتی ہے تو سونامی بن جایا کرتی ہے۔
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
خیر اس حقیقت پسند آدمی نصر اللہ خاں نے جو پشتون نہیں تاجک تھے۔۔۔ اور اسی لیے رومان پسندی کے باوجود زیادہ عملی آدمی، پیپلزپارٹی کے ان محترم قائدین سے یہ کہا: ہمارے بزرگ دعا دیا کرتے: اللہ انجام بخیر کرے۔ براہِ کرم میرا انجام خراب نہ کیجیے۔
نواب زدہ کا انجام اچھا ہوا؛اگرچہ نون لیگیوں، بالخصوص اس زمانے میں نواز شریف کے نفسِ ناطقہ شیخ رشید نے مرحوم کی کردار کشی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ نواب زادہ نے اس طوفانی دور میں صبرِ جمیل کا جلوہ ایسا دکھایا کہ ہمیشہ اس پہ رشک کیاجائے گا۔
سیاستدان غور و فکر کے خوگر نہیں ہوتے۔ برصغیر میں کئی عشرے گزارنے والی ایک مشہور برطانوی اخبار نویس نے ارشاد محمود کی موجودگی میں یہ کہا: ہمارے سیاستدان بھی مایوس کن ہیں، بس یہ کہ نظامِ احتساب استوار ہے۔ سیاست یا صحافت، یہ باتونی سیاست اور باتونی صحافت غور و فکر سے کیا یکسر عاری نہیں ہو گئی؟ کیا یہ قدیم قبائلی جنگوں کی طرح بے معنی، فرسودہ اور لغو نہیں ہو چکیں؟ اگر یہ جملے ناشائستہ ہیں تو معافی چاہتا ہوں۔ انہیں حذ ف کر دیجیے۔
ممکن ہے، یہ سوال زیبا ٹھہرے کہ سحر سے شام اور شام سے سحر تک ہمہ وقت ہمہ قسم کے جو مباحث جاری ہیں، کیا ان کا تعلق ملک، معاشرے اور قوم کے حقیقی مسائل سے بھی کچھ ہے؟
اب وہ استاد یاد آئے، ایک سرمئی شام جو ایک پیچیدہ سوال کا جواب نہ دے سکے مگر یہ کہا:Keep on asking، some questions are nobler then the answers۔
پوچھتے رہو، مستقل طور پر پوچھتے ہی رہو۔ اس لیے کہ کچھ سوال، جوابات سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ کیا یہ ایسا ہی ایک سوال ہے یا وہی خلط مبحث جو ہمارا قومی شعار ہو چکا۔