خطا سرزد ہو تو اعتراف کرنا چاہیے مگر یہ نہیں کہ ردعمل میں چوروں اور ٹھگوں کا دامن تھام لیا جائے۔ اس دن سے پہلے اللہ اس دنیا سے اٹھا لے کہ میں اس قماش کے لوگوں کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کروں۔
تین عشرے ہوتے ہیں، جناب احمد ندیم قاسمی کا جملہ پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا"اخوان المسلمون نے اس دور میں سنّت منصورتازہ کر دی" وہ ایک مانے ہوئے ترقی پسند تھے اور کوئی ان سے یہ گمان نہ لگتا۔ ابوالکلام آزاد اور سید ابواعلیٰ مودودی کے دیرینہ رفیق نصراللہ خان سے منسوب ایک بات کبھی سنی تھی، وہ ذہن میں گونجتی رہی" قمیض اٹھا کر دیکھو: احمد ندیم نہیں، وہ دراصل احمد شاہ ہے"۔ کبھی کوئی گفتگو ان دونوں کے درمیان ہوئی ہو گی، جس سے یہ نتیجہ انہوں نے اخذ کیا ہو گا۔ کہراور دھوپ کے موسم گزرتے گئے اور دیکھنے والوں نے ایک اور احمد ندیم قاسمی کو دیکھا۔ نعت لکھنے لگے اور ایسی نعت کہ دل تڑپ اٹھتا، آنکھ بھیگ جاتی:
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں اورشاعروں سے ملاقات میں ہمیشہ ایک جھجک رہی۔ اپنی کم مائیگی کا احساس۔ بعض اوقات نصیب ہوئی تو احساس ہوا کہ آدمی ویسے نہیں ہوتے، جیسے کہ دکھائی دیتے ہیں ع
دل دریا سمندروں ڈونگے کون دلاں دیاں جانے ہو
دل کا دریا بحرسے گہرا، کون دلوں کی جانے ہو۔ جنرل ضیاء الحق کے دورمیں، فراغت کے ایام میں، باغی حبیب جالب اور منفرد شاعر ظہیر کاشمیری سے مدتوں ملاقات رہی۔ دل کبھی بے تاب ہو جاتا ہے کہ ان دونوں کی روداد لکھوں۔ جو کچھ دیکھا سنااور سہا، ہمت نہیں پڑتی۔ اس لئے کہ ان کے مداحوں کو خوش آئے گی اور نہ مخالفین کو۔ فیض احمد فیض اورمنیر نیازی سے ایک گو نہ دلچسپی رہی خالد چودھری کے تو سط سے اپنی وہ مشہور غزل فیض صاحب نے اس ناچیز کو اشاعت کے لئے بھجوائی تھی:
ہم کے ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
عباس اطہر مرحوم کے ساتھ منیر نیازی کے ساتھ کئی بار ملاقات ہوئی۔ آپ کی ناگہانی وفات پر تعزیتی کالم تو ضرورلکھا مگر وہی تشنہ سا۔ اس نابالغ معاشرے میں پوری بات کون کہہ سکتا ہے، کون سنتا ہے۔
اقبالؔ کو یہ ناچیز اپنے عہد کا علمی مجدد مانتا ہے۔ اس کی رائے میں بعض اعتبار سے تاریخ کے سب سے بڑے شاعر، باایں ہمہ عبقری کے فلسفہ عقل و عشق پہ ایک ذرا سی تنقیدکی تو ایک عزیز دوست آزردہ ہوئے اور یہ کہا:تم نے یہ کیا کیا؟
ہم ایک شخصیت پرست قوم ہیں اور یہ طالب علم بھی ہرگز مستثنیٰ نہیں۔ 1996ء سے30 اکتوبر 2011ء تک تن تنہا عمران خان کی وکالت کرتا رہا۔ تاآنکہ طوفان اٹھا۔
وہ کام کیا ہم نے جو رستم سے نہ ہو گاکبھی روداد لکھوں تو لوگ تعجب کریں کہ کن کن کو اس کی تائید پر آمادہ کیا۔ آج یہ احساس ہوتا ہے کہ اعتدال سے کام لیا ہو تا۔ پروفیسر صاحب گاہے ٹوکتے بھی مگر یہاں ایک جنون کی سی کیفیت تھی۔ دل یہ کہتا رہا کہ ایک عامی کے قلم اور زبان نے ایک عظیم تغیر کی راہ ہموار کی ہے۔ جی شاد ہونا چاہیے۔ منظر کھلا تو کچھ اور ہی کھلا:
وہ شاخ تھی، قفس تھا نہ آشیانہ تھا
کسی بھی اعتبار سے عمران خان کی حکومت، پچھلے ادوار سے مختلف نہیں۔ طریق کو ہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی عصر رواں کے عارف سے، سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، ہم اللہ سے ہار گئے اور اللہ سے ہار جانے میں کیا خرابی ہے۔ ان کا اشارہ غالباً حدیث قدسی کے بارے میں تھا، جس کا مفہوم یہ ہے:اپنی راہ پر آدم زاد بھاگتا چلا جاتا ہے مگر اس راہ میں وہ تھکا دیا جاتا ہے۔ آخر کو ہونا وہی ہے، جو پروردگار کو پسند ہو۔ فرمایا: جہاں جہاں تم نے رکنا اور ٹھہرنا ہے اور جہاں پہنچنا ہے پہلے سے ہم نے لکھ رکھا ہے۔
عمران خان کے لئے جنرل حمید گل مرحوم نے خاکسار کو قائل کیا تھا۔ کوشش میں وہ لگے رہے۔ وہ مان کر نہ دیا تو مجھ سے ایک دن ذکر کیا۔ عرض کیا کہ آپ یہ بات اور یہ بات اس سے کیوں نہیں کہتے۔ جنرل صاحب اول درجے کے رومان پسند تھے۔ ایک چمک ان کی آنکھوں میں ابھری اور کہا: کیوں تم اس سے جا کر نہیں ملتے۔ ملا اورمیں اسے قائل کرنے والوں میں شامل تھا۔ ناکامی سے پریشان چند ایک کے سوا رفتہ رفتہ سب بھاگ گئے۔
ناچیز وہیں کھڑا رہا۔ اب اگر یہ عرض کروں کہ ان دنوں بھی میں اسے ٹوکتا رہا، مثلاً مشرف کا ساتھ دینے سے منع کیا، الیکشن 1996ء میں حصہ لینے سے تو شاید بعض لوگ یہ بات نہ مانیں۔ اس میں البتہ کوئی شبہ نہیں کہ ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، بہت کچھ اسی ناچیز نے کیا۔ ظاہر ہے کہ عالمی کپ، شوکت خانم ہسپتال کے معرکے سر کرنے اورنمل کالج کی تعمیر پر۔ قد آور آدمی کی شایدکرشماتی شخصیت سے مرعوب ہو کر۔ پھر وہ وقت بھی آیا، میری باتوں پر جب وہ بگڑنے لگا۔ ایسے ہی ایک موقع پر حفیظ اللہ خان سے اس نے کہا: ہارون مجھے احمق سمجھتا ہے۔ احمق تو قطعی نہ تھا۔ ایسے عظیم الشان کارنامے انجام دینے والا ہونق کیسے ہو سکتا ہے۔
اعتراض صرف یہ تھا کہ دانا اور جہاندیدہ لوگوں کی بجائے خوشامدیوں میں گھرا رہتا، ہر ایرے غیرے کی بات سنتا۔ مخالفین کی غیبت اور اپنی تحسین پر شاد رہتا ہے، جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے جو ں جوں بادشاہ بننے کا امکان بڑھتا گیا، ابن الوقت اس کے گرد جمع ہوتے گئے۔ ابتدا سے ایک طرح کی بے تکلفی چلی آتی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ جوبڑھتی گئی۔ ظاہر ہے کہ کسی ذہنی تحفظ کے بغیر بات کی جاتی۔ رفتہ رفتہ اُسے ناگوار ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ میں پیچھے ہٹتا گیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب اس نے کہا: تم تو عید کا چاند ہو گئے۔ یہ الیکشن 2013ء سے پہلے کی بات ہے۔ اول دن ہی جتلا دیا تھا کہ اسمبلی کا ٹکٹ لوں گا نہ پارٹی کا کوئی عہدہ۔ اس لئے صاف صاف بات کرنے میں کبھی تامل نہ ہوا۔
پُر اعتماد ہمیشہ رہتا ہے۔ ایک دن کچھ زیادہ تھا۔ خاکسار کی ستائش کی اور کہا:دہشت گردی کے موضوع پر ایک عالمی سیمینار کروں گا، جس سے جارج گیلوے اور ہارون الرشیدخطاب کریں گے۔ ایک دوسرے موقع پر کہا: سینیٹر تو بہرحال اسے بنائوں گا ہی۔ دانا وہ کبھی نہ تھا، سیاسی حرکیات کا شناور اور نہ مردم شناس۔
غلطی کہاں سرزد ہوئی؟ خیال یہ تھا کہ حکومت بنائی تو ڈھنگ کے لوگ چن ہی لے گا، دیانت دار، سلیقہ شعار اور درد مند۔ مگر افسوس مگر افسوس۔
اس سے بھی زیادہ بڑی غلطی یہ کی کہ تھک ہار گیا تو اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کر لی۔ اقتدار واحد ترجیح رہ گئی اور جب اقتدار ہی منزل مقصود ہو تو کہاں کی اخلاقیات اور کیسی درد مندی۔ خود غلطی اس ناچیز سے سرزد ہوئی۔ لازم ہے اس پر وہ معافی مانگے۔ دست بستہ اور صمیم قلب کے ساتھ۔ اپنی غلطی کا مجھے اعتراف ہے! البتہ یہ نہیں کہ بغض و عناد پالواورانتقام لینے کی سعی کروں۔ اللہ محفوظ اس سے رکھے۔ اس لئے کہ انتقام جو لینا چاہتے ہیں۔ انتقام ہی لے سکتے ہیں، زندگی نہیں کیا کرتے، پھردوسری طرف ڈاکو کھڑے ہیں۔
خطا سرزد ہو تو اعتراف کرنا چاہیے مگر یہ نہیں کہ ردعمل میں چوروں اور ٹھگوں کا دامن تھام لیا جائے۔ اس دن سے پہلے اللہ اس دنیا سے اٹھا لے کہ میں اس قماش کے لوگوں کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کروں۔