افغانستان کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟ عام آدمی کی پامالی۔ فرمان یہ ہے: اللہ کی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ خلقِ خدا کو ناشاد کر کے شاد کون رہ سکتا ہے۔
طالبان کا فیصلہ یہ ہے: اسلامی امارات یعنی علما کی حکومت کے قیام تک جدوجہد جاری رہے گی۔ بجا ارشادلیکن امن کے بغیر یہ مقصد حاصل کیسے ہو گا۔ صرف ایک ہی راستہ ہے، ایک اتفاقِ رائے کہ افغان عوام کی امنگوں کے مطابق ترجیحات طے کی جائیں۔ آبادی کے تمام بڑے طبقات اقتدار میں شامل و شریک ہوں۔ عام آدمی محفوظ ہو۔ اس کے بچے تعلیم پائیں۔ ان کے بیمار علاج کی سہولت سے بہرہ ور ہو سکیں اور محنت کش رزقِ طیب سے آسودہ ہوں۔ ہولناک قدامت پسندی افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ہم سے بھی زیادہ۔
متوازی طور پر کشمکش کے دو عدد دائرے ہیں۔ ایک طرف اندرونی قوتیں ایک دوسرے سے الجھی رہتی ہیں۔ ثانیاً وہ ممالک، جن میں سے بعض اس کے پڑوسی ہیں اور بعض پڑوسی بننے پر مصر۔ امریکی ایک بار پھراسی بھیانک کھیل کے مرتکب ہیں، پچھلی صدی کے آخری عشرے میں سویت پسپائی کے بعدنواز شریف کی مدد سے، اپنی پسند کے حکمران واشنگٹن نے مسلط کرنے کی کوشش کی۔ پھر بے نظیر کے جنرل نصیر اللہ بابر کی مدد سے طالبان ابھر آئے کہ حکمت یار انہیں گوارا نہ تھا۔
چلّا چلّا کر ہیلری کلنٹن بعدازاں کہتی رہیں کہ آئندہ ایسی غلطی کا وہ ارتکاب نہ کریں گے۔ غلطی نہیں، یہ سوچی سمجھی حکمتِ عملی تھی۔ اب بھی افغانستان میں گہرا رسوخ وہ برقرار رکھنے کی امریکی آرزو ہی تباہی کی بنیاد ہے۔ ایک معقول قومی حکومت کی بجائے اشرف غنی، عبد اللہ عبد اللہ اینڈ کمپنی کے لیے ان کی اصل اہمیت سے زیادہ حصہ وہ مانگ رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فاتح طالبان اس پر آمادہ ہو جائیں۔
امریکی تکبر کا کوئی علاج نہیں۔ یہ ایک طرح کا پاگل پن ہوتاہے۔ خوب وہ جانتے ہیں کہ افغانستان سے نکل جانے کا مطلب کیا ہے۔ چین پہ نگرانی مشکل، پاکستان اور ایران کے اندر رسوخ میں کمی، وسطی ایشیا مکمل طور پر ہاتھ سے نکل جائے گا۔ روس کو لبھانے یا خوفزدہ کر کے مطالبات منوانے کی کوشش ناکام رہے گی۔ عالمی چودھراہٹ کا خواب بکھر جائے گا۔ ابھرتا ہوا چین جس کے راستے میں حائل ہے۔ افغان سرزمین کو انہوں نے خانہ جنگی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان پر اڈوں کا دباؤ اسی لیے کہ قیمت یہ کمزور ملک چکائے۔ کشمیر کو بھول جائے، بھارتی بالادستی قبول کر لے اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات ترک کر دے۔ کیا یہ ممکن ہے؟
امن ظاہر شاہ کے دور تک رہا۔ پھر روسیوں نے نیم دیوانے سردار داؤد کی مدد سے ایک قبائلی معاشرے میں سوشلزم نافذ کرنے کا خواب دیکھا۔ وہ رسّی کاٹ دی، افغان اتحاد جس سے بندھا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سلجھانے کی کوشش کی مگر کریملن نے ان کا خواب بکھیر دیا۔ ساڑھے تین سو سال تک فروغ پاتا زعم دریائے آمو کے پانیوں میں ڈوب گیا۔ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کو ہڑپ کر لینے والے روسی گرم پانیوں تک کیا پہنچتے، خود بکھر کر گر ے۔
کسی کو یاد ہی نہیں کہ روسیوں نے ہزاروں سال سے آباد چلے آتے ہزاروں دیہات تباہ کر دیے۔ تیرہ لاکھ افغان قتل اور تیرہ لاکھ اپاہج کر دیے گئے۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں سے 80 لاکھ کو ہجرت کرنا پڑی۔ پاکستان، ایران اور باقی افغان شہروں کی طرف کہ بمباری سے محفوظ تھے۔
افغانستان کی کبھی کوئی مرتّب معیشت نہ تھی۔ صنعت تو رہی ایک طرف، زراعت کا حال یہ تھا کہ دریاؤں کا پانی پڑوسی ممالک استعمال کرتے۔ انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ حکمران رعایا سے لاتعلق اور رعایا حکمرانوں سے۔ چند شہروں کے سوا حکومت کا وجود شاید ہی نظر آتا۔ قبائل کو ان کے رسم و رواج اور سرداروں پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ تعلیم کو فروغ دینے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔ خراسان کی یہ سرزمین کبھی ایران کا حصہ رہی، کبھی وسطی ایشیا سے اٹھنے والے فاتحین غالب آ جاتے؛ تاآنکہ احمد شاہ ابدالی نے تسخیر کی اور افغانستان کا نام دیا۔
روسی فوج کی مداخلت کے ساتھ ہی وہ بندوبست تمام ہو گیا جو اڑھائی سو سال سے چلا آتا تھا۔ عمرانی معاہدہ ختم ہو گیا اور نیا طے نہ پا سکا۔ آج بھی عالم وہی ہے، جنگی سردار war lords، متحارب جماعتیں، لسانی گروہ اور اقتدار کی وحشیانہ جستجو۔
افغان مجاہدین کی چھوٹی بڑی سات تنظیموں میں صدارتی نظام، شرعی قوانین، چھوٹی سی فوج اور غیر ملکی قرضوں سے گریزپر اتفاق تھا۔ رواداری مگر نام کو نہ تھی۔ کسی کو احساس نہ تھا کہ کسی ایک طبقے کا غلبہ قرار پیدا نہ کر سکے گا۔ پیہم خانہ جنگی کے بعد ملّا عمر کی قیادت میں طالبان ابھرے۔ وقتی طور پر امن قائم ہو گیا، لیکن وہ ادراک نہ کر سکے کہ بیسویں صدی میں ساری دنیا سے کٹ کر کسی ملک کا نظام چلایا نہیں جا سکتا۔ پشتونوں، ازبکوں، تاجکوں اور ترکمانوں، شیعہ اور سنی آبادی میں کشمکش تھی۔ غیر ملکیوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ پاکستان، ایران، بھارت، روس اور امریکہ مختلف دھڑوں کی حمایت اور مدد کرتے رہے، نتیجہ مسلسل خانہ جنگی۔ زندہ رہنے کے لیے قوموں کو ایک کم از کم اتفاقِ رائے درکار ہوتا ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ باہمی تصا دم نے افغانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا یا غیر ملکی مداخلت نے۔ کسی لیڈر اور نظام پر وہ متفق بہرحال کبھی نہ تھے۔ ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کو موقعہ ملا کہ وہ ازبکوں، تاجکوں، ترکمانوں اور ہزارہ قبائل کے ساتھ مکالمے کی راہ ہموار کرتے۔ بالکل برعکس مذہبی مدارس کے تعلیم یافتہ لیڈروں نے ان سب کو روند ڈالنے کی کوشش کی۔ طالبان کے طرزِ عمل کا نتیجہ وحشی امریکیوں کی مداخلت تھا۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد جو اپنا جھنڈا گاڑنے کا آرزومند تھا۔ غلبے کی قدیم انسانی جبلّت کی حشر سامانیوں کے علاوہ افغان مزاج کی ایک اور خرابی کو اس میں دخل تھا۔ ایک معروف پشتون صحافی نے کہا: وہ ٹینک کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں مگر ڈالر کے مقابل نہیں۔
افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے لیڈروں اور دانشوروں میں ایک نظام پر متفق ہونے کی آرزو مستحکم نہیں ہوتی۔ انکل سام افغانستان میں ایک ہزار بلین ڈالر سے زیادہ برباد کرنے کے بعد پسپا ہے۔ ایرانی حکومت بہت سرمایہ کاری کر چکی اور بھارت بھی۔ کچھ بھی انہیں حاصل نہ ہوا۔ کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ افغانوں اور ان کے تمام پڑوسیوں کا مفاد سکون اور قرار میں ہے۔
بہت بڑی قیمت خود ہم نے چکائی ہے۔ مساجد، مارکیٹوں اور مزارات میں بے گناہوں کے چیتھڑے اڑانے والے پاکستانی طالبان کبھی نمودار نہ ہوتے، اگر ہم ہوش کے ناخن لیتے۔ وسعت تو کیا پاتے، خود اپنا وطن ہم نے تباہ کر لیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بالآخر بڑی حد تک امن ہے؛اگرچہ ایک بار پھر وہی شدید خدشات لاحق۔ اپنی اعلان کردہ پالیسی کے مطابق کسی فریق کی حمایت یا مخالفت سے گریز کرنا چاہیے۔ پاک افغان سرحد 2460 کلومیٹر کو محیط ہے۔ ایک ہزار برس سے ہماری تاریخ مشترک ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ عارضی کامیابیوں کی بجائے دیرپا مفاد ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیے۔
افغانستان کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟ عام آدمی کی پامالی۔ فرمان یہ ہے: اللہ کی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ خلقِ خدا کو ناشاد کر کے شاد کون رہ سکتا ہے۔