ریاست کی رٹ کمزور ہو جائے تو انتشار کا آغاز ہوتا ہے۔ انتشار طوائف الملوکی تک لے جاتا ہے، انارکی!
پی ٹی آئی کی حکومت کا تاثر یقینا مجروح ہوا۔ عمران خان کمزور پڑتے دکھائی دیے۔ مولانا فضل الرحمن بہت ابھرے، بہت نمایاں ہوئے، دمک اٹھے۔ کچھ ذاتی مقاصد حاصل کرنے میں بھی کامیاب۔ آخری تجزیے میں مگر ناکام، بالآخر نامراد۔ کوئٹہ چمن شاہراہ ضرور بند کر دی۔ ایک آدھ اور بھی کر سکتے ہیں، شاید زیادہ بھی، مگر اس کے بعد؟ اسلام آباد سے حضرت مولانا رخصت ہوئے اور اس طرح کہ اسد اللہ خاں غالبؔ یاد آئے:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
ہم سب جانتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی، یہ بھی ہم سب جانتے ہیں۔ ملک کے مفاد سے مگر ایسی بے نیازی؟
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاؐں گئی
خدا خدا کر کے اقتصادی بحالی کا امکان پھوٹا تھا۔ بربادی کے مولوی صاحب درپے ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض بزر جمہر تھپکی دیتے رہے۔ تاریخ کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی۔ بھید کبھی جلد کھلتا ہے، کبھی تاخیر سے۔ ہمیشہ کے لئے خلق کو اندھیرے میں رکھا نہیں جا سکتا۔ عمران خان کے دھرنے کی جن لوگوں نے پشت پناہی کی تھی، ان کے نام فوراً ہی سامنے آ گئے تھے۔ مولوی صاحب کے معاملے میں ایک عرب ریاست اگر ملوث ہے۔ اتحادی برادران اگر وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں تو کب تک یہ راز رہے گا۔
خان صاحب کو خیر خواہوں نے سمجھانے کی کوششں کی تھی مگر لاحاصل۔ اقتدار کی بہشت بریں کا خوش رنگ خواب قلب و دماغ پر چھا جائے تو اندھا ہو جاتا ہے، آدمی اندھا۔ سرکار ﷺ کے فرامین میں سے ایک کا مفہوم یہ ہے: لالچی جھوٹے کے ہاتھوں لٹتا ہے۔ لیڈران عالی شان سے یہ امید کم ہوتی ہے کہ اپنے آپ سے فرصت پائیں۔ دانشور پوچھتے ہیں کہ سیاست دانوں ہی پر تنقید کیوں؟ پھر اس میں وہ سازش کی بو پاتے ہیں۔ عامیوں سے نہیں، انہیں یہ سوال بیسویں صدی کے علمی مجدّد سے پوچھنا چاہیے۔ سیاستدان اور ملاّ سے جو اپنی قوم کو مستقل طور پر متنبہ کرتا رہا۔
ملک کے نہیں زیادہ سے زیادہ وہ اپنے گروہ کے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اقبالؔ کے عہد میں سیاست کاروں کی اخلاقی حالت، عصرِ حاضر سے بہتر تھی۔ اس کے باوجود آپ نے کہا تھا ؎
امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے
یہ خاک باز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند
شیطان کی زبان سے پھر یہ کہلوایا ؎
ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک
سیاست، سیاست ممنوع نہیں۔ ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کے انبیا سیاست کیا کرتے۔ خود عالی مرتبتؐ نے کی۔ اصحاب رضوان اللہ اجمعین نے کی کس لئے، مگر کس لئے؟ اپنی خاطر نہیں، افتادگانِ خاک کیلئے، انصاف کے لئے۔ انسانیت کی زخمی پیٹھ پر مرہم لگانے کے لئے، ازل سے قہرمان جس پہ کوڑے برساتے آئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ بھی سیاست فرما رہے ہیں، امریکی اخبارات جنہیں عادی جھوٹا کہتے ہیں، Compulsive Liar۔ ابرہام لنکن بھی سیاست ہی کیا کرتے۔ میکسیکو کے خلاف واشنگٹن نے فوج اتاری تو انہوں نے سوال کیا تھا کہ جواز کیا ہے، اس کا جواز کیا ہے؟ تعصّب کے مارے ہم عصروں نے ان کا مذاق اڑایا۔ کالوں کی آزادی کے ہنگام بھی یہی ہوا۔ لنکن نے کہا تھا: جتنے کوڑے انہیں مارو گے، بالآخر اتنی ہی زندگیاں، قصاص میں نذر کرنا ہوں گی۔ لنکن کا انتخاب ایک اتفاق تھا، محض ایک اتفاق۔ دونوں دوسرے امیدوار، ایک دوسرے کے درپے تھے۔ ابرہام لنکن پارٹی کے کنونشن سے سینکڑوں میل دور پڑا تھا۔ قدرت کو مگر کچھ اور ہی منظور تھا۔ آج وہ امریکی تاریخ کا عظیم ترین اخلاقی استعارہ ہے۔ وہ نہ ہوتے تو امریکہ متحد نہ رہ سکتا۔ خانہ جنگی میں بکھر گیا ہوتا۔ دو صدیوں کے بعد جس طرح یوگو سلاویہ بکھرا، سوویت یونین بکھرا۔
کل شب نون لیگ کے ایک لیڈر نے ناچیز کو سمجھانے کی کوشش کی۔ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ حماقت پر تلی رہتی ہے۔ سیاستدانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔ عرض کیا کہ کس لئے؟ جو باقی بچ رہا ہے، اسے برباد کرنے کے لئے؟ اربوں ڈالر پہلے ہی لوٹ چکے۔ لٹ کر سمندر پار پہنچ چکے۔ ظاہر ہے فوجی اقتدار کا جواز کوئی نہیں۔ یہ مگر ارشاد کیجئے کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ میں جنرل ایوب خان، جنرل محمد ضیاء الحق، حتیٰ کہ یحییٰ خان کی کتنی دولت پڑی ہے؟ جی ہاں، جنرل پرویز مشرف مگر سعودی سلطان کی عنایت اور لیکچرز کی آمدن سمیت، ذرائع آمدن معلوم مگر لندن میں پرویز مشرف کا فلیٹ عامیوں جیسا ہے۔ گوجرانوالہ کے کئی صنعت کاروں کے ان سے بہتر۔
جی ہاں جنرل بھی فرشتے نہیں۔ کھوٹے ان میں بھی ہوتے ہیں، ملک ریاض کے ملازم۔ سمندر پار نوکریاں کرنے والے بھی۔ جی ہاں انہیں باز رہنا چاہیے۔ باز نہ آئیں تو قانوناً روک دینا چاہیے۔ لوٹ مار میں سیاستدانوں سے ان کا مگرمقابلہ نہیں۔ جنرل کیانی سے عرض کیا کہ خود نوشت لکھیں تو دس ملین ڈالر کما سکتے ہیں، کم از کم ایک ملین ڈالر۔ آج کی شرح سے پندرہ کروڑ روپے سے ایک ڈیڑھ ارب روپے تک۔ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ سنی ان سنی کر دی۔ اگر یہ تجویز میاں محمد نواز شریف کی خدمت میں پیش کی جاتی؟ شہباز شریف، حتیٰ کہ خان عمران خان صاحب مد ظلہ العالی کو۔ لپک نہ پڑتے؟ جھپٹ نہ لیتے؟
دنیا بھر میں کہیں بھی کسی قوم نے رفعت پائی تو سول اداروں کے طفیل پائی۔ عسکری اقتدار میں یہ ادارے سمٹ سہم جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سول اقتدار میں بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو سریر آرا ئے سلطنت ہوئے تو کارخانے قومیانے پر اکتفا نہ کیا۔ سرمایہ کاروں کی تذلیل کی۔ ان کے پاسپورٹ ضبط کر لئے۔ واپس کئے تو ٹی وی کیمروں کے سامنے۔ اس کے بعد کہاں کا کاروبار، کیسا کاروبار۔ اس کے بعد کہاں کی صنعت کاری۔ روپیہ ملک سے باہر بھاگنے لگا۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں معیشت سنبھلی۔ ایوب خاں کے بعد بھر پور صنعت کاری کبھی نہ ہو سکی۔ سرمایہ کاروں کی نگرانی تو چاہیے۔ قانون سبھی پہ نافذ ہو۔ یہ مگر یاد رہنا چاہیے کہ سرمایہ حسّاس ہوتا ہے، بہت حسّاس۔ خوف زدہ ہو جائے تو فرار ہو جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ خوف کا ہتھیار بہت سلیقہ مندی سے برتنا چاہیے۔ انسانی صلاحیت آزادی میں پنپتی اور پرواز کرتی ہے۔
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی؟
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
سول سروس بھی بھٹو نے برباد کی۔ اپنے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا حوالہ دیا اورارشاد کیا تھا : God willing and Waqar livinig, ill sort out the civil service۔ اجتماعی حیات کے اپنے تقاضے ہیں۔ سب سے بڑھ کر امن اور استحکام۔ دیرپا امن آزادی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ہی لیکن کڑا ڈسپلن بھی۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرلے
اگست 2014ء میں عمران خان کی جن لوگوں نے حوصلہ افزائی کی تھی۔ چودھری برادران سمیت، آج جو مولوی صاحب کے پشت پناہ ہیں، دانستہ یا نادانستہ معاشرے کو ادھیڑنے کے مرتکب ہیں۔ ریاست کی رٹ کمزور ہو جائے تو انتشار کا آغاز ہوتا ہے۔ انتشار طوائف الملوکی تک لے جاتا ہے، انارکی!