آپﷺ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں، جو چھوٹوں کا لحاظ اور بڑوں کی تکریم نہ کرے۔
خلیل الرحمٰن قمر عجیب آدمی ہیں۔ اس قدر تاب و توانائی کہ حیرت ہوتی ہے۔ پرسوں پرلے روزجو لب و لہجہ اختیار کیا اس کی تحسین ممکن نہیں۔ ایک بہت اچھا مقدمہ انہوں نے خراب کر دیا۔ اپنی حماقتوں سے اس ناچیز نے سیکھا ہے کہ غصے کو حرام کیوں کہا گیا۔ سال ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے، ایک بے گناہ بیچارے کو پولیس نے پکڑ لیا۔ تفتیشی افسر سے بات کی تو وہ بھڑک اٹھا اور بدتمیزی کی۔ خاموشی سے سن لیتا یا فون بند کر دیتا تو اچھا ہوتا۔
آئی جی یا کسی اعلیٰ افسر سے بات کی جا سکتی۔ کالم لکھنا تھا، تاخیر ہو تی جا رہی تھی۔ ذہنی دبائو میں اسے برا بھلا کہا اور کچھ زیادہ ہی۔ اس نے گفتگو ریکارڈ کی اور سوشل میڈیا پہ ڈال دی۔ خود اپنے الفاظ حذف کر دیے۔ اوّل وضاحت کی لیکن ٹھنڈے دل سے غور کیا تو صاف صاف معذرت کر لی۔ اگرچہ آئی جی نے کہا کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار ہیں، درخواست لکھ دی جائے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ گاہے اب بھی لوگ اس کا حوالہ دیتے ہیں، چنانچہ یاد رہتا ہے کہ حماقت سے بچنا چاہئیے۔
عورت مارچ کوئی مسئلہ نہیں۔ ان محترم خواتین کے موقف کی پذیرائی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ بیس برس ہوتے ہیں، سیکولر ڈان کے جریدے ہیرلڈ میں ایک سروے چھپا تھا۔ اس پر ایک نوٹ تھا: اگر خود ہم یہ سروے نہ کرتے تو ان اعداد و شمار پہ یقین نہ ہوتا۔ 98 فیصد پاکستانی شہریوں نے شرعی قوانین کی حمایت کی تھی۔ اللہ کے نام پر قتل و غارت کرنے والے طالبان کے باوجودقومی رائے عامہ کا رجحان اب بھی یہی ہے۔ دلیل سے بات کی جا سکتی ہے، دھمکی یا تحقیرکیوں۔ آپﷺ نے فرمایا: نرمی ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے اور یہ فرمایا: جس میں نرمی نہیں، اس میں کوئی خیر نہیں۔
ہم سب انسان ہیں اور ہم سب خطاکار۔ کوئی بھی پھسل سکتا ہے لیکن پھر نظرِ ثانی کرنی چاہئیے۔ خطا وہ پہلا عمل ہے، جو ہمارے جدّ امجد سے سرزد ہوا۔ بہشتِ بریں میں انہوں نے ممنوعہ پھل کھا لیا۔ شیطان نے کہا: یہ دائمی عمر عطا کرنے والا ثمر ہے۔ ہمارے عہد کے عارف نے کہا تھا: شیطان ایک کاشتکار ہے، جونفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔ جبلت کو اکساتا اور سرکشی پر آمادہ کرتا ہے۔ توبہ وہ پہلا ادارہ ہے، جو انسانی خطا کے بعد وجود میں آیا۔ اپنی مخلوق کا حال خالق کوخوب معلوم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم کتنے کمزور ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں ہے: ہم نے انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے آپ پہ رحمت کو لازم لکھ لیا۔
استعمار کی غلامی سے گزرنے والے معاشرے مرعوبیت اور تقلید پالتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے عروج کا دور ہے اور تہذیبوں کے دریا چڑھ کر ہی اترتے ہیں۔ مغرب نے غیر معمولی اقتصادی ترقی ضرور کی مگر خاندان کا ادارہ تباہ کر لیا، مردو زن کے مراسم مسخ ہو گئے۔ اب تباہی کی طرف گامزن ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دوکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، زرِ کم عیار ہوگا
یعنی معیشت ہی سب کچھ نہیں بلکہ مسرت اور سکونِ قلب اور یہ بازار سے خریدے نہیں جا سکتے۔ خاندان کا ادارہ خدا کو بہت عزیز ہے۔ شاید ہی کسی دوسری چیز کے بارے میں اتنی تفصیلات قرآنِ کریم میں ہوں، جتنی میاں بیوی، والدین، اولاد اور رشتے داروں کے باب میں۔ یہاں تک کہ میراث کے قوانین تک پوری وضاحت سے بیان کر دیے گئے تاکہ کبھی کوئی ابہام نہ ہو۔
عورت مارچ کی حامی خواتین کہتی ہیں کہ ان کے جسم پر ان کا اختیار ہے۔ اگر اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی پسند کی شادی کا انہیں حق ہے تو یہ غلط نہیں۔ اگر وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو بھی اللہ نے بہت سی آزادیاں بخشی ہیں، مثلاً جائیداد کا حق اور عزت و وقار سے جینے کا تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئیے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اپنے جسم کے ساتھ جو سلوک وہ چاہے کرے تو یہ اتنی سطحی اور اتنی احمقانہ بات ہے کہ کوئی بھی ہوش مند قبول نہیں کرے گا۔
آدمی کا جسم اور قلب و دماغ اللہ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ انہیں سنبھالنا، سنوارنا اور نکھارنا چاہئیے۔ قدرت کے طے کردہ ابدی قوانین کو ملحوظ رکھا جائے تو آدمی شادکام ہوگا۔ اولاد سے محبت مگر اسے نظم وضبط کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش بھی۔ لندن میں کیا جانے والا ایک تازہ سروے یہ کہتا ہے کہ ان مائوں کے بچّے زیادہ فروغ پاتے ہیں، جو الفت و انس کے ساتھ ساتھ ڈسپلن کا انہیں پابند بناتی ہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ بھی یہی ہے، احترامِ باہم۔ ہر ٹیم کا ایک کپتان ہوتا ہے، چنانچہ ہر گھر کا بھی۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے اخراجات برداشت کرے اور خوش دلی سے۔
آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے، جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا ہے۔ فرمایا: تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک جواب دہ۔ قرآنِ کریم میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کو قوامون کہا گیا۔ یہ بعض صورتوں میں فیصلہ کرنے کی ذمہ داری ہے، حاکمیت نہیں۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ جو عورتیں معیشت کیلئے خود ریاضت کرتی ہیں ان پر اس کلئے کا اطلاق نہیں ہوتا کہ مرد کا ہاتھ اوپر ہے۔ پھر یہ کہ جن گھروں میں مرد جیل کے سپرنٹنڈ نٹ بن جاتے ہیں، برکت اور خوش دلی اٹھ جاتی ہے اور انجام ان کا برا ہوتا ہے۔
یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ اگرچہ ہم ان سے بہتر ہیں لیکن ہندو تہذیب کے اثرات اب بھی بہت گہرے ہیں، جن کی خواتین شوہر کے مرنے پر ستی ہو جاتیں۔ ہم اپنے بیماروں کو دوا دیتے اور اپنے بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ہزاروں سکول اور ہسپتال ہیں، جہاں تعلیم اور علاج مفت ہے۔ خواتین اور بچوں کے باب میں ہمارا روّیہ پوری طرح صحت مندانہ ہرگز نہیں۔ قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں تو اور بھی بدتر۔
بالکل سامنے کی ایک حقیقت ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ اس معاشرے کو خواتین نے بچا رکھا ہے۔ بیٹیاں اپنے والدین کی خدمت کرتی ہیں۔ عمر بھر اپنے شوہر اور بچوں کے لیے ایثار۔ اس کے بدلے میں وہ صرف نان و نفقے کی نہیں، احترام اور محبت کی مستحق بھی ہیں۔ خواتین کے بارے میں کوتاہی ایک دوسری بات ہے کہ صدیوں سے یہ ہمارے مزاج میں ہے مگر ہمیں خود کو بدلنے کی کوشش تو کرنی چاہئیے۔
کچھ نہ کچھ کوشش تو کرنی ہی چاہئیے۔ مثلاً گھروں میں اخراجات کا معاملہ تو خاص طور پر خواتین کی صوابدید پر ہونا چاہئیے، بالخصوص امانت دار خواتین۔ مشورہ دیا جا سکتاہے اور کبھی مداخلت بھی لیکن ہمیشہ کیوں۔ معیشت کی مصروفیت اور دوسرے فرائض آدمی کو مصروف رکھتے ہیں۔ اپنی ذمہ داری کا ایک حصہ اسے خاتونِ خانہ اور بچوں کے سپرد بھی کرنا چاہئیے، جب وہ ہوش سنبھال چکیں۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں، جو چھوٹوں کا لحاظ اور بڑوں کی تکریم نہ کرے۔