Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Baat Tab Samajh Mein Aati Hai

Baat Tab Samajh Mein Aati Hai

بات تب سمجھ میں آتی ہے، جب دل و دماغ کے دروازے کھلے ہوں۔ جب لیڈروں، دانشوروں، بعض معزز علما اور ججوں کی طرح خبطِ عظمت نے آدمی کے ہوش و حواس کو گھول کر نہ پی لیا ہو۔

نذیر چوہان کو معافی مل گئی۔ اب وہ آسودہ ہیں مگر آسودہ کہاں۔ اب ایک اور معرکے میں مبتلا ہیں۔ اب انہیں جہانگیر ترین گروپ کی شکست و ریخت کا معرکہ سونپا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ترین گروپ کی اکثریت اپنے لیڈر سے نالاں ہو چکی۔ جلد ہی گیارہ ارکان عمران خان کے سائے میں لوٹ آئیں گے۔ اس سے پہلے یہ فرض فیاض الحسن چوہان کو سونپا گیا تھا۔ چوہان صاحب اور تو کچھ نہ کر سکے مگر نذیر چوہان کو معافی مانگنے پر آمادہ کر لیا۔ اس میں ان کا دخل کم اور سرکاری اداروں کا زیادہ تھا۔ ایک کیس میں ضمانت ہوئی تو جیل سے نکلتے ہی گرفتار کر لیے گئے۔ احتیاطاً ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا کہ دوسرے میں رہا ہوں تو تیسرے میں پکڑ لیے جائیں۔

افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ تاجکستان کے ہیلی کاپٹر اسلحہ کے انبار پنجشیر پہنچا رہے ہیں۔ اس وقت وزیرِ اعظم کا دردِ سر افغانستان کا استحکام ہونا چاہئیے یا جہانگیر ترین گروپ۔ ایک شخص یا ایک قوم کی زندگی میں سب سے خطرناک چیز شاید یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا تعین ہی فرما نہ سکے۔

سپریم کورٹ کسی بھی ملک کا سب سے محترم ادارہ ہوتی ہے۔ اب اس کا حال بھی یہ ہے کہ معززو محترم جج ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ چیف جسٹس کی عدم موجودگی میں جسٹس عطا عمر بندیال اور دوسرے جج اس فکر میں ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ کی توقیر بحال رکھی جائے؛چنانچہ اشارہ دیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا قائم کردہ دو رکنی بنچ بڑے بنچ کا حصہ بن جائے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے گو اثبات میں سر ہلایا مگر کون جانے کیا ہوگا۔ جسٹس فائز عیسیٰ آئین اور قانون کی سربلندی کے ایسے سخت گیر علمبردار ہیں کہ اپنی رائے سے سرِ مو انحراف پر آمادہ نہیں ہوتے۔

یکایک خیال چودہ صدیاں پہلے کی طرف پلٹ گیا۔ خوفناک اذیتوں کے تیرہ برس بتانے کے بعد سرکارﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو مواخات کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ ایک عدد حکومت تشکیل دی۔ مدینہ میں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے مگر اخلاقی عظمت کے امین۔ یہودی تھے اور مشرکین بھی۔ گنتی کے چند ایک عیسائی بھی۔

طے پایاکہ اللہ کے آخری رسولﷺ چیف جسٹس، چیف ایگزیکٹو اور سپہ سالارِ اعلیٰ ہوں گے۔ مشرکین اور یہودی بھی یقین رکھتے تھے کہ کسی سنگین سے سنگین ترمعاملے میں بھی ایک ذرہ برابر نا انصافی کے وہ مرتکب نہیں ہو سکتے۔ مرتکب کیا، اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مدینہ ہی کیا، جزیرۃ العرب کا ایک ایک ہوشمند جانتا تھا کہ وہ صادق اور امین ہیں۔ تاریخِ انسانی کی واحد ہستی جنہیں یہ لقب خود خلقِ خدا نے عطا کیا۔ پھر چودہ سو برس کے بعد ایک دن پاکستانی آئین میں یہ اصطلاح شامل کی گئی۔ یوں تو مسلمانوں نے تاریخ میں کم ہی کبھی انہماک پیدا کیا مگر میثاقِ مدینہ غالباً وہ موضوع ہے، جس پر سب سے کم غور کیا گیا۔ اس سمجھوتے کے تحت مشرکوں، مسلمانوں اور یہودیوں کے حقوق برابر تھے۔ یہی نہیں، وہ ایک امت قرار دیے گئے۔ ان میں سے کسی ایک کو کسی حال میں دوسرے پر ترجیح حاصل نہ ہوگی۔ یہی بات قائدِ اعظم نے 11اگست 1947ء کے خطاب میں کہی تھی۔ یہ کہ فیصلے صادرکرنے میں ریاست کو شہری کے مذہب سے سروکار نہ ہوگا۔

ہمارے لبرل دانشوروں نے اس تقریر میں سے سیکولرازم ڈھونڈ نکالا۔ قائدِ اعظم نے کم از کم 101تقاریر میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنی چار عشروں کی سیاسی تاریخ میں ایک بار بھی لفظ "سیکولرازم" انہوں نے برتا نہیں۔ قائدِ اعظم اور نہ اقبالؔ نے؛حالانکہ یہی وہ زمانہ تھا جب سیکولرازم کی اصطلاح پہلی بار استعمال ہوئی۔ ہولی اوکس ایک پادری تھا، جسے انجیل کا ایک قابلِ قبول ایڈیشن مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ درجنوں انجیل کا مطالعہ کیا تو ملحد ہو گیا، مذہب سے بے زار۔ اسی نے یہ اصطلاح تراشی۔ وضاحت کرتے ہوئے اس نے لکھا: کوئی شخص سچا سیکولر نہیں ہو سکتا، وجودِ باری تعالیٰ پراگر یقین رکھتاہو۔

کانگرس کے نفس ناطقہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے ایک ہاتھ میں سوشلزم تو دوسرے ہاتھ میں سیکولرازم کا پرچم تھا۔ قائدِ اعظم کو ان دونوں اصطلاحوں کے استعمال سے گریز تھا۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف برداری کی تقریب میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی قوم اکبرِ اعظم کے نقشِ قدم پر چلے گی۔ قائدِ اعظم کا دو ٹوک جواب یہ تھا: ہم نے جمہوریت چودہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ پاکستان میں کسی دینِ الٰہی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دینِ الٰہی کے لیے کوئی حقیقی گنجائش تو خود اکبر کے عہد میں بھی پیدا نہ ہو سکی۔ اپنے ایک مشہور سکھ جنرل کو، جس کا نام اب حافظے میں نہیں، ایک بار اس نے نیا مذہب اختیار کرنے کی ترغیب دی تو اس نے کہا: جہاں پناہ! جہاں تک وفاداری کا تعلق ہے، ہم اس کا ثبوت فراہم کر چکے۔ تشنگی ہو تو پھر سے آزما لیجیے لیکن مذہب اس طرح اختیار نہیں کیا جاتا۔ یعنی یہ کہ اعتقاد دربار کے سائے میں جنم نہیں لیتا۔

اکبر سے بہت پہلے یہ خیال علاؤ الدین خلجی کے دماغ میں پھوٹا تھا۔ منگولوں کو شکست دینے، امن و امان قائم کرنے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء ارزاں کرنے کے تین عظیم کارنامے سرانجام دینے کے بعد، جام بدست بادشاہ نے ایک دن اعلان کیا کہ اب وہ دو میں سے ایک کارنامہ لازماً انجام دے گا۔ دنیا فتح کرے گا یا ایک نیا مذہب ایجاد کرے گا۔ دلی کے موٹے کوتوال نے، جو شاید بادشاہ کا سب سے قابلِ اعتماد رفیق تھا، خطرے کی بو سونگھی اور تخلیے کی درخواست کی۔ تاریخِ فرشتہ کے مطابق اس نے کہا: جہاں پناہ، یونان نہیں، یہ ہندوستان ہے۔ آپ دنیا کو فتح کرنے نکلیں گے تو خود اپنا ہی پایہء تخت کھو دیں گے۔ رہا مذہب تو وہ ایجاد نہیں کیا جا تا، آسمان سے اترتا ہے۔ خالقِ کون و مکاں اس کے لیے اپنے پیغمبرﷺ مبعوث فرماتا ہے۔ بادشاہوں کا نہیں، یہ انبیاء کا منصب ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بیک وقت الکحل اور اقتدار کے نشے میں سرمست ہونے کے باوجود یہ بات اس کی سمجھ میں آئی۔

بات تب سمجھ میں آتی ہے، جب دل و دماغ کے دروازے کھلے ہوں۔ جب لیڈروں، دانشوروں، بعض معزز علما اور ججوں کی طرح خبطِ عظمت نے آدمی کے ہوش و حواس کو گھول کر نہ پی لیا ہو۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.