ان لوگوں کو پکارنے سے مگر کیا حاصل، جنہیں اپنے انجا م کا اندازہ اور احساس بھی نہیں۔ قرآن کریم کہتاہے، آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔
بحران ہے اور طول پکڑتا جا رہا ہے۔ بے یقینی ہے اور بتدریج بڑھتی ہوئی۔ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ اتوار کی شام دو وفاقی وزرا سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پیر یا منگل کی شام تک قضیہ نمٹ جائے گا۔ کچھ دیر پہلے ایک بیان عنایت ہوا کہ معاملہ آئین کے تحت نمٹایا جائے گا۔ آئین کے مطابق نمٹانے کے لیے تو تیس منٹ بھی کافی ہیں۔
پروردگار نے زندگی کو تنوع اور کشمکش میں پیدا کیااور دائم ایسی ہی رہے گی۔ آدمیوں کے چہرے، ہاتھ پائوں اور آوازیں مختلف ہیں، اسی طرح خیالات اور اس سے بڑھ کر مفادات۔ بقا کی انسانی جبلت بہت طاقتور ہے۔ خوف اس کے اندر رچا بسا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد یہ ہے: تمام زندگیوں کو ہم نے بخلِ جان پر جمع کیا ہے۔ چیونٹی سے ہاتھی تک، سب اپنی بقا کی جنگ لڑتے اور زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر آدمی کی مانند نہیں۔ آدمی کو غلبے کی جبلت بخشی گئی، دائم جو اسے اکساتی ہے، اکساتی رہتی ہے۔
اختلاف رائے میں کوئی خرابی نہیں۔ سچ پوچھیے تو زندگی کا حسن بہت کچھ اسی سے عبارت ہے۔ ابدی اصول مگر یہ ہے کہ فروغ پانے اور ظفرمند ہونے کے لیے کچھ ضابطے لازم ہیں۔ معاشرہ جن پر متفق ہو اور دل و جان سے جن کی پیروی کرے۔ کم از کم اکثریت اور فعال طبقات۔ ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے اور زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرنے کی تگ و دو میں رہیں تو نتیجہ معلوم۔ بے قراری، بے چینی اور بے یقینی۔ عدمِ استحکام اور اس کے زہریلے اثرات۔
عامیوں کی اکثریت روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے کی آرزومند رہتی ہے۔ کم از کم بڑے زردار اپنی دولت کا کچھ نہ کچھ حصہ سمندر پار رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر شریف اور زرداری خاندان۔ ملک کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پچھلے بیس برس میں کم از کم دس بلین ڈالر اس نے بیرونِ ملک منتقل کیے۔ خیر یہ ناجائز دولت محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ بھی ہے مگر جائز طریقے سے کمانے والے بھی کئی ایک یہی کرتے ہیں۔
ہر قوم کو زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے قومی اتفاق رائے درکار ہوتا ہے۔ اسی کو آئین کہاجاتاہے، اسی کو عمرانی معاہدے کا نام دیا گیا۔ کیا کوئی ایک گروہ بھی ایسا ہے، دل و جان سے جو آئین کو مانتا ہو، دل و جان سے جو آئین کی تقدیس کا قائل ہو۔
قائدِ اعظم کے بعد کوئی نہیں، کوئی ایک بھی نہیں۔ مسلم برصغیر کا المناک احساسِ عدمِ تحفظ۔ لیاقت علی خان کے دور میں جس ہنگامے کا آغاز ہوا تھا، آج تک جاری ہے۔ فخرِ ایشیا، قائدِ عوام، ذوالفقار علی بھٹو نے ایک متفقہ دستور دیا۔ چند ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ چھ عدد من مانی ترامیم مسلط کر دیں۔ ہنگامی صورتِ حال کا اعلان کیا اور بنیادی حقوق معطل کر ڈالے۔ بنیادی حقوق کے بغیر کون سی جمہوریت۔ ہزاروں برس پہلے آدمی نے جب ریاست تشکیل دی تو گویا اطاعت کا اقرار کیا۔ اگر وہ اس کے باقی ماندہ حقوق، جان و مال، آبرو اور اظہارِ خیال کی آزادی بھی چھین لے تو باقی کیا بچا۔
آج بھی بہت سے لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو عظیم لیڈر مانتے ہیں۔ 1977ء کے الیکشن میں وہ، ان کے چاروں وزرائِ اعلیٰ اور کئی اراکینِ اسمبلی کیا بلا مقابلہ منتخب نہ ہوئے تھے؟ بھٹو کیا خبطِ عظمت کا شکار نہ تھے؟ کیا نرگسیت کے وہ مریض نہ تھے؟ ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل احتجاجی تحریک اٹھی اور بڑھتی چلی گئی۔ مارشل لا کے گیارہ برس اور بے نظیر کے دو سالہ اقتدار کے بعد فوج، خفیہ ایجنسیوں اور فعال طبقات کی مدد سے نواز شریف سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ بہت امیدیں ان سے وابستہ کی گئیں، جیسی کہ بعد ازاں عمران خاں سے۔
یا للعجب اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی نواز شریف نے ایک آئینی ترمیم قومی اسمبلی کے لیے مرتب کی۔ تجویز اس میں یہ تھی کہ وزیرِ اعظم جب چاہیں، آئین کے جس حصے کو چاہیں معطل کر دیں۔ خورشید محمود قصوری سمیت کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور یہ ترمیم ایوان میں پیش نہ ہو سکی۔ سیاسی حرکیات کے شناور چوہدری نثار علی خاں نواز شریف کے اور بہت سے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں مگر اس کا کبھی نہیں۔ معلوم نہیں کیوں۔
من مانی کی وہی خواہش جو بادشاہوں اور فوجی آمروں میں ہوتی ہے۔ ایک نسل کو بھٹو نے دھوکا دیا، دوسری کو نواز شریف اور تیسری کو عمران خاں نے۔ خلقِ خدا کے زخموں کی پرواہ انہیں تھی اور نہ ایں جناب کو۔ کوس لمن الملک بجانے کی آرزو۔
لوگوں کے دکھ اور ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے وہ بلک رہے ہیں۔ خاک آلود بستیوں میں بسنے والوں کی اکثریت۔ لگ بھگ بارہ برس پہلے ایک بارصحرائِ تھر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ دوسری بار جانے کی ہمت نہ ہوسکی۔ پیہم بھوک سے اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، ستے ہوئے چہرے۔ لاچار لوگ، جن کی بے بسی دائمی ہو گئی ہے، چند ہفتے قبل شائع ہونے والی ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی بجٹ کا بڑا حصہ اشرافیہ لوٹ لے جاتا ہے۔ دنیا کا یہ عجیب ملک ہے۔ مال دار لوگ جہاں صرف بیس فیصد ٹیکس دیتے اور اسّی فیصد غریبوں کے لہو سے نچوڑا جاتاہے۔ آمدن نہیں ِ، خریداری پہ ٹیکس ہے۔ صابن کی ہر ٹکیہ، ماچس کی ہر ڈبیہ اور سکول کی یونیفارم خریدنے والے ہربچے پر۔ سرکار کے صنعتی اور کاروباری اداروں پر ہر سال پانچ چھ سو ارب روپے لٹا دیے جاتے ہیں۔ فریاد کرنے والے تیس چالیس برس سے چیخ رہے ہیں، سنتا کوئی نہیں۔ صرف پی آئی اے کے چند ہزار ملازم پالنے پر چالیس ارب روپے سالانہ اٹھتے ہیں۔ بھائی ایک ہی بار انہیں دے چکو اور جہاز کسی اور کے حوالے کرو۔ یہی سٹیل مل ہے، یہی ریلوے۔ ایک کے بعد دوسرا ناکردہ کار وزیر۔ کسی کا دل نہیں دکھتا، کوئی آنکھ نم نہیں ہوتی۔ کبھی کسی کو خیال نہیں آتا کہ ایک دن اسے خدا کے حضور پیش ہونا۔ نمک کی کان میں سب نمک ہو گئے بلکہ اس سے بھی کمتر۔ قرآنِ کریم کہتاہے: دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی سخت۔ پتھروں میں تو ایسے ہیں، جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔ اس دردمند شاعر احسان دانش نے کہا تھا
احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی
یہاں روز ٹھوکریں لگتی ہیں۔ آئے دن قوم رسوا ہوتی ہے لیکن کسی دل میں احساس جاگتا ہے نہ توبہ کی توفیق کسی کو عطا ہوتی ہے۔ کس طرح کے لوگ ہیں، یہ کس طرح کے لوگ۔
پیچھے پلٹ کر دیکھو تاریخِ انسانی کی گواہی کیا ہے۔ لیڈر وہ شخص نہیں ہوتا ہمہ وقت جو جو اپنا سکہ جمانے، اپنا نقش بٹھانے اور اپنا قد بالا کرنے کے خبط میں مبتلا رہے بلکہ وہ جسے درد کی دولت عطا ہو۔ ان لوگوں کو پکارنے سے مگر کیا حاصل، جنہیں اپنے انجا م کا اندازہ بھی نہیں۔ قرآن کریم کہتاہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔