عدمِ تحفظ اور بے یقینی کس قدر خوفناک چیز ہے۔ انسانی کردار کا تمام حسن اور رعنائی برباد ہوتی ہے۔ پارٹیاں نہیں، ایسے میں جتھے بنتے ہیں۔ تجزیے نہیں ہوتے، تعصبات بروئے کار آتے ہیں۔ جب تک یہ بات نہیں سمجھی جائے گی، کچھ نہیں ہوگا، کبھی بھی نہیں!
کوپن ہیگن کی ایک سڑک پر کسی نے ہارن بجایا تو گاڑی میں سوار تین کے تین مسافروں نے بے ساختہ کہا " کون پاگل ہے؟"ناروے کا دارالحکومت ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ مغرب کا تصور ذہن میں آتا ہے تو ہم لندن، پیرس اور نیویارک کے عظیم الجثہ کاروباری اور صنعتی مراکز کے بارے میں سوچتے ہیں۔ وسطی یورپ، خاص طور پر سکینڈے نیویا کے اکثر شہر چھوٹی آبادیوں پر مشتمل ہیں۔ اچانک احساس ہوا کہ اس دیار میں اس قدر سکون اورٹھہرائو کیسے ہے۔ قانون کا احترام دلوں میں جاگزیں ہے۔ طرزِ زندگی بن گیا ہے۔
برصغیر، بالخصوص پاکستان کے لوگ اس کا بہت کم ادراک رکھتے ہیں۔ مغرب میں ادارے ہیں، جن کا احترام کیا جا تاہے۔ خود چین، جاپان اور ملائیشیا ایسے ممالک میں بھی۔ مشرق میں ایک دوسری مثال دبئی کی ہے۔ ریاستی رٹ قائم ہے۔ پولیس کے ایک کانسٹیبل کا فیصلہ بہرحال نافذ ہوتاہے۔ پورے کرو فر اور شان و شوکت سے۔ کہیں بھرپورجمہوریت ہے اور کہیں برائے نام لیکن ریاست اور شہریوں میں اعتماد کا رشتہ قائم ہے۔ معاشی فروغ تو بہت دور کی بات ہے۔ اس سکون اور اثبات کے بغیر تعلیمی ادارے پھل پھول سکتے ہیں اور نہ ہسپتال اور سرکاری دفاتر۔ ایک بے دلی، مایوسی اور بے یقینی معاشرے کو گھیرے رکھتی ہے اور بیشتر توانائی خود شکنی میں ضائع ہو جاتی ہے۔ بے سمت ایک سفر، جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
جولائی 2014ء میں جب یہ نکتہ جناب عمران خان کی خدمت میں عرض کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بات سننے سے انکار کر دیا۔ موصوف کا کہنا یہ تھا کہ وہ پانچ لاکھ لوگ لے کر آئیں گے اور شریف حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیں گے۔ آج ویسا ہی ایک بحران درپیش ہے۔ ڈیڑھ سے ساڑھے تین فیصد تک ووٹ حاصل کرنے والی، ایک چھوٹی سی مذہبی پارٹی نے طوفان اٹھا رکھا ہے۔
بارہ پندرہ برس ہوتے ہیں، ریاست ہائے متحدہ میں بھی یہ سوال اٹھا تھا۔ جب الگور اور بش جونئیر امریکی صدارتی امیدوار تھے۔ تاثر یہ تھا کہ بش کے حامی دھاندلی کے مرتکب ہوئے۔ عدالت نے فیصلہ صادر کر دیا تو پورے ملک نے صمیمِ قلب کے ساتھ مان لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک جنونی، جذباتی اور جھوٹا آدمی سمجھاجاتا ہے۔ مستقل طور پر اپنے حریفوں پر وہ الزام تراشی کرتے رہتے ہیں۔ آئے دن اپنے ساتھیوں کو برطرف کرتے ہیں اور ابلاغ کے قومی اداروں سے شاکی رہتے ہیں۔ اس کے باوجود عدمِ استحکام نہیں تو وجہ یہ کہ سول ادارے اپنا کام احساسِ ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ بحث اور کج بحثی بھی لیکن ریاست انتشار میں مبتلا نہیں ہوتی۔ کاروبارِ حیات جاری رہتا ہے۔
ہر طرزِ حیات کے تقاضے ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام استوار نہیں ہو سکتا، سیاسی پارٹیاں جب تب باشعور، منظم اور جمہوری خطوط پر منظم نہ ہوں۔ جمہوری دنیا میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ ایک شخص یا خاندان ذاتی جائیداد کی طرح پارٹی کے امور پر فیصلہ کرتا رہے۔ امریکی صدر کا انتخاب، پارٹی کارکنوں کے وفود کرتے ہیں۔ ایک ایسے مرتب قرینے کے ساتھ، کوئی جس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
دوسرے اعتراضات اپنی جگہ لیکن پاکستان میں جماعتِ اسلامی کے سوا ایک بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں، پابندی کے ساتھ جس میں عہدیداروں کا چنائو کیاجاتا ہو۔ قوموں کا مزاج صدیوں میں ڈھلتا ہے اور آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ صدیوں کی ملوکیت کا ثمر ہے کہ آج بھی ہمارے ذہن میں لیڈر کا تصور بادشاہ کا ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کہیں کسی طرح کوئی اچھا حکمران میسر آجائے تو قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
آج کا مغرب ہو یا قدیم اسلامی معاشرہ تابہء ابد جو انسانیت کے لیے مشعلِ راہ رہے گا، خیرہ کن ظفرمندیوں کی بنیاد ہمیشہ قانون کی حکمرانی اور نظامِ عدل کی پختگی پر تھی۔ ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں میں ایک بھی ایسی نہیں، جس میں یہ احساس او ر ادراک کارفرما ہو۔ تحریکِ انصاف کا دوسرا نام عمران خان ہے۔ جسے چاہیں وہ منصب عطا کریں اور جسے چاہیں معزول کر دیں۔ انتہا یہ ہے کہ عثمان بزدار ایسا شخص مسلط کر دیں۔ پھر اسے دیانت دار ہی نہیں، غیر معمولی اوصاف کا استعارہ قرار دیں مگر احتجاج کی کوئی لہر نہ اٹھے۔ پارٹی کا کوئی قابلِ ذکر لیڈر ایسا نہیں، جو بزدار کو اہل اور با صلاحیت مانتا ہو۔ نجی گفتگوئوں میں ان کی آرا عام لوگوں اور اخبار نویسوں سے مختلف نہیں ہوتیں لیکن دربار میں کوئی معترض نہیں ہوتا۔
نون لیگ شریف خاندان کی ملک ہے۔ برسوں سے میاں صاحب مزمّن امراض کا شکار ہیں۔ گردے خراب، بلند فشارِ خون، ذیا بیطس اور قلب کی علالت۔ دل سے دماغ کو خون لے جانے والی شریان کب کی نڈھال ہو چکی۔ اسی کا اثر شاید ان کی یادداشت پہ پڑا ہے ؛چنانچہ اقتدار کے برسوں میں اسحٰق ڈار اور شہباز شریف فیصلے صادر کرتے رہے۔ جی ایچ کیوسے متعلق نہایت اہم فائلیں وزارتِ دفاع میں پڑی رہتیں۔ بعض اوقات اسلحے کی خریداری اور ضروری ادائیگیوں کے لیے فنڈز کی فراہمی بھی۔ ہر بار جنرل راحیل شریف کو وزیرِ اعظم سے ملاقات کرنا پڑتی۔
ایک آدھ بار تو وزیرِ اعظم نے فوجی جوانوں اور افسروں کی تنخواہوں میں تاخیر کا اشارہ بھی دیا اور اسحٰق ڈار ان سے متفق تھے۔ یہ الگ بات کہ پھر خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ 2002ء کے الیکشن سے پہلے نو ن لیگ میں بھگدڑ مچی اور بیشتر موثر امیدوار قاف لیگ کو پیارے ہو گئے۔ فیصل آباد میں میجر نادر پرویز ڈٹ کر کھڑے رہے اور قومی اسمبلی کی 9 میں سے چھ نشستیں جیت لیں۔ 2008ء کے الیکشن کا مرحلہ آیا تو انہیں ٹکٹ دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔ اس لیے کہ صاحبزادی کی شادی میں جنرل مشرف کو مدعو کرنے کی خطا کی تھی۔
سب جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا حال بھی یہی ہے۔ بھٹو نہیں تو بیگم نصرت بھٹو اور وہ نہیں تو بے نظیر۔ سگے بھائی سے ان کی کشمکش اور سگی والدہ نے ان کے بارے میں کہا تھا: یہ تو جنرل ضیاء الحق سے بھی بڑھ کر ظالم ہے۔ بے نظیر نہیں تو ان کے شوہرِ نامدار اور وہ پٹ چکے تو بلاول بھٹو، جن کی شخصیت میں مقبولیت کے عوامل ہی نہیں۔
پارلیمنٹ نہیں، سیاسی پارٹیاں جمہوریت کا بنیادی ستون ہیں اور اتنی ہی اہم شہری حکومتیں۔ افسوس کہ سیاسی کارکنوں میں اس کا شعور ہے اور نہ میڈیا میں۔ عمران خان سے وابستہ ہونے والی امیدیں دم توڑ چکیں۔ کسی بھی اعتبار سے اب وہ ایک مصلحت پسند روایتی سیاستدان ہے۔ اخبار نویسوں میں اب ایسے ہیں، جو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ نواز شریف کو جرات اور استقامت کا استعارہ بتاتے ہیں۔ وہ آدمی جو ثابت نہیں کر سکتا کہ اس کی آمدن جائز ذرائع کی پیدا وار ہے ؛حتیٰ کہ اب تو مولانا فضل الرحمٰن کے مداح بھی پیدا ہو گئے۔ اس لیے کہ وہ خوئے انتقام کی تسکین کا باعث بن سکتے ہیں۔
عدمِ تحفظ اور بے یقینی کس قدر خوفناک چیز ہے۔ انسانی کردار کا تمام حسن اور رعنائی برباد ہوتی ہے۔ پارٹیاں نہیں، ایسے میں جتھے بنتے ہیں۔ تجزیے نہیں ہوتے، تعصبات بروئے کار آتے ہیں۔ جب تک یہ بات نہیں سمجھی جائے گی، کچھ نہیں ہوگا، کبھی بھی نہیں۔