کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل افغانستان کے لیے کیا لائے گا۔ حکمت اور رواداری کا تہیہ ہو تو بند دروازے کھل سکتے ہیں ؛حتیٰ کہ معجزہ رونما ہو سکتاہے مگر کیا حکمت اور رواداری کارفرما ہے؟
شام ہونے کو آئی اور معلوم نہیں کہ پنجشیر میں صورتِ حال کیا ہے۔ طالبان کیا ابھی تک مصالحت کے لیے عزم پر قائم ہیں۔ احمد ولی مسعود کے رویے میں کچھ لچک آئی ہے یا نہیں۔ آخری اطلاع یہ ہے کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور میزبان تاجکستان میں افغانستان میں قیامِ امن پر اتفاق رائے ہو گیا۔
اس اتفاقِ رائے پر عمل کیسے ہو گا۔ تاجکستان سے اگراحمد ولی مسعود کی حوصلہ افزائی جاری رہے گی۔ اگر عبدالرشید دوستم اور استاد عطا محمد نور کے جنگجو وادی میں جمع ہوتے رہیں گے۔ اگردرپردہ انہیں بھارت اور امریکہ کی حوصلہ افزائی حاصل رہی؟
طالبان کے سامنے، جو ابھی تک تحمل پر قائم ہیں، بظاہر حکمتِ عملی کے تین نکات ہیں۔ آگے بڑھنے اور جنگ چھیڑنے سے گریز کریں۔ تاجک قبائل کو اقتدار میں حصہ رسدی سے کچھ زیادہ عنایت کر دیں۔ اپنا ایک وفدتاجکستان بھیجیں اور دوشنبہ کی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کریں، جہاں سویت یونین کی باقیات اب بھی اقتدار میں ہیں۔
1973ء تک افغانستان میں امن قائم رہا۔ پھر ظاہر شاہ کے چچازاد سردار داؤد نے ان فوجیوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر لیا، جو ان کی صوابدید سے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔ وہ اور آج کا دن، امن لوٹ کر نہیں آیا۔ مدتوں افغانستان ایک پرامن ریاست تھا۔ پہلے برطانیہ اور سویت یونین، پھر امریکہ اور سویت یونین کے درمیان تعلقات میں توازن پر استوار۔
خانہ جنگی کے جہنم کا دروازہ سردار داؤد نے کھولا۔ آج تک جو بند نہیں ہو سکا۔ ماسکو کی حمایت سے کمیونسٹ فوجیوں نے سردار داؤد کو قتل کر ڈالا اور اس قبائلی معاشرے پر کمیونزم مسلط کرنے کی کوشش کی جو صنعتی تو کیا، ابھی ڈھنگ سے زرعی دور میں بھی داخل نہ ہوا تھا۔ نوبت بالاخر روسی فوج کی براہِ راست مداخلت تک پہنچی۔ ایک عشرے کی چھاپہ مار جنگ کے بعد سویت یونین پسپا ہوا تو افغان دھڑوں میں اقتدار کی خوں ریز جنگ کا آغاز ہوگیا۔ ملک لا تعداد ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ پھر بے نظیر بھٹو اور جنرل نصیر اللہ بابر کی سرپرستی میں طالبان ابھرے لیکن یہ ایسی حکومت تھی، تین ممالک کے سوا کسی نے جسے تسلیم نہ کیا۔ پاکستان اور اس کی درخواست پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ نائن الیون کا حادثہ ہوا تو امریکی در آئے۔
اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے بعد خفیف اور ناکام وہ لوٹ گئے لیکن افغانستان آج بھی ایک دلدل ہے۔ پنجشیر کے سوا ہر کہیں بظاہر طالبان کا غلبہ ہے لیکن جب تک پنجشیر سپرانداز نہیں ہوتا، استحکام نا ممکن۔ پنجشیر میں بغاوت کا آغاز ہو گیا تو شمال کے صوبوں تک پھیل جائے گا۔ جس سے آگے دریائے آمو ہے اور آمو سے پرے تاجکستان۔
تاجک حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان اگر مستحکم ہوگئے اور اپنی پسند کا شرعی نظام نافذ کردیا تونشاۃِ ثانیہ کی اسلامی تحریک، Islamic renaissance partyشاید پھر سے بھڑک اٹھے۔ ربع صدی پہلے طے پانے والا معاہدہ ہوا میں اڑ جائے۔ خانہ جنگی اورخوں ریزی شروع ہو جائے۔
تاجکستان میں بھارتی اثرات غیر معمولی ہیں۔ ایک فوجی اڈہ بھی ان کا یہاں قائم ہے۔ دوشنبہ کے ہوائی میدان کی عمارت میں داخل ہوں تو بھارتی اداکاروں کی عظیم الشان تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ اتنی بڑی کہ خود بھارت میں کہیں نہ ہوں گی۔ وہ ہالی ووڈ، ایران اور بھارت کی فلمیں دیکھتے ہیں اور بھارت کی سب سے زیادہ۔ تاجکستان بظاہر روس کا پچھواڑہ ہے لیکن امریکی اور اسرائیلی اثرات بھی کارفرما ہیں۔
پنجشیر ایک چھوٹی سی وادی ہے۔ چوڑائی میں برائے نام اور طوالت میں لگ بھگ 70کلومیٹر۔ داخلے کا ایک چھوٹا سا تنگ درّہ ہے، جسے بند کر دیا جائے تو حملہ آور داخل نہیں ہو سکتے۔ بند رہے تو خوراک اور ادویات فراہمی مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہو جائے لیکن پرلی طرف سے تاجکستان کے ہیلی کاپٹر کمک پہنچا سکتے ہیں۔ امریکی اپنے پیچھے کئی درجن لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر چھوڑ گئے لیکن طالبان کے پاس کافی عملہ اور وقت نہیں کہ فضائی فوج منظم کر سکیں۔ یوں بھی ہزار دردِ سر ہیں۔ خود کابل کے ہوائی اڈے پر قیامت کا سماں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق خوراک اور ادویات کا ذخیرہ ختم ہونے کو ہے۔ فوری طور پر بیرونی امداد نہ پہنچی تو قحط پھیل سکتاہے۔
فوری طور پر ادویات اور خوراک صرف پاکستان فراہم کر سکتاہے لیکن کیا راولپنڈی اور اسلام آبادکو بحران کا ادراک ہے؟ کیا پاکستان کے پاس کافی وسائل موجود ہیں کہ المیے کو ٹال سکیں۔ کیا کسی نے اس بارے میں سوچا ہے؟ منصوبہ بندی فرمائی ہے؟ عمران خان کے اردگرد باتیں بنانے والے تو بہت ہیں۔ کام کاج کرنے والے شاذ ہی۔ تین سال میں وہ ڈرگ ریگولیشن اتھارٹی میں پانچ سات افراد پر مشتمل مافیا کی زنجیر توڑ نہیں سکے۔
وزارتِ خارجہ کے جلیل القدر منصب پر شاہ محمود قریشی متمکن ہیں جو سو فیصد سچی بات بھی کہہ رہے ہوں تو اعتبار نہیں آتا۔ عدمِ تحفظ کا مارا ہوا آدمی، خارجہ امور کی گتھیاں سلجھانے کی بجائے جو ملتان اور پارٹی کی سیاست میں الجھا رہتاہے۔ دائم اپنے بچاؤ کی فکر میں مبتلا۔ عمران خاں کی مردم شناسی کے کیا کہنے کہ عثمان بزدار ایسے گوہرِ تابدار تلاش کیے اور انہیں چمکایا کرتے ہیں۔
وادیء پنجشیر ایسی دشوار گزار ہے، سویت فوج بھی آسانی سے جس میں کبھی داخل نہ ہو سکی۔ کچھ دستے پہنچے بھی تو ہر بار انہیں پسپا ہونا پڑا۔ زمرد کی کانوں کے باوجود اس کی اپنی کوئی آزاد معیشت نہیں۔ ضروریاتِ زندگی کے لیے دوسروں پر انحصار ہے مگر کمال کے جنگجو۔
طالبان کے لیے بیرونی امداد کے تمام ذرائع منقطع۔ کابل حکومت کے 9.5بلین ڈالر واشنگٹن میں پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف نے امداد روک دی ہے۔ جرمنی کی انجیلا مرکل نے بھی، جو ہر سال پانچ سو ملین ڈالر بھجوایا کرتیں۔ کینیڈا کے جسٹس ٹروڈو نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ شرعی قوانین نافذ ہوئے تو طالبان کی حکومت تسلیم نہ کی جائے گی۔ کیا پاکستان، ایران، چین، روس اور ترکی بروئے کار آسکتے ہیں؟
کیا افغانستان کو دلدل سے نکالنے کے لیے طالبان کا ہاتھ وہ تھام سکتے ہیں۔ یہ ناممکن تو نہیں لیکن اس کے لیے پہل بہرحال اسلام آباد کو کرنا ہوگی۔ شمالی اتحاد کے لیڈر اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ طالبان بھی اس کی بات سننے پر آمادہ ہیں۔ ایران، ترکی، چین اور روس کے ساتھ بات کرنے میں کوئی دشواری نہیں۔ ہاں مگر ہتھیلی پر سرسوں جمائی نہیں جا سکتی۔ ایسے میں بہترین حکمتِ عملی شاید یہی ہے کہ ایک نگران حکومت میں تاجکوں کا حصہ قدرے زیادہ ہو۔ اس کا مطلب مگر یہ ہوگا کہ ازبک، ترکمان اور ہزارہ قبائل کے باب میں بھی اتنی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔
طالبان کمانڈر کیا اس کے متحمل ہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ ابھی تک وہ حکومت تشکیل نہیں دے سکے۔ پارٹی میں ایک سے زیادہ اندازِ فکر پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں ہم آہنگی سہل نہیں۔ امریکی فوج کی اچانک پسپائی سے ایک بحران ختم ہوا اور دوسرے کا آغاز ہو گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل افغانستان کے لیے کیا لائے گا۔ حکمت اور رواداری کا تہیہ ہو تو بند دروازے کھل سکتے ہیں ؛حتیٰ کہ معجزہ رونما ہو سکتاہے مگر کیا حکمت اور رواداری کارفرما ہے؟