قدرت ہمیں سکھانا چاہتی ہے لیکن ہم سیکھیں بھی۔ حسرت کے ساتھ قرآنِ کریم کہتاہے: افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔ عرض کیا کہ کورونا وائرس پر ہر طرح کی بحث ہے مگر بنیادی سوال پہ کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ کہ جب حرام کو حلال سمجھ لیا جائے گا تو اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ صاف اور صریح الفاظ میں قرآنِ کریم بتاتا ہے، کیا چیز طیب ہے، کون سی مکروہ اور کون سی حرام۔ پھر وہ حکم دیتا ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے، اس پر اللہ کا نام پڑھا جائے۔
ادبیات کے انگریزاستاد، میرے دوست نو مسلم عمران نے ایک بار کہا تھا: اسلام سب کے لیے کافی ہے۔ تاجر، صنعت کار، کسان، مزدور۔ برف زار اور صحراؤں میں بسنے والے سب کے لیے۔ دیارِ مغرب کے مسلمانوں کو اجازت ہے کہ یہودیوں کا ذبیحہ کھا لیں۔ ذبح کرتے وہ اللہ کا نام لیتے ہیں۔ ایک آدھ نہیں، بہت سے سائنسی مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ ذبح کا گوشت زیادہ مصفا اور مفید ہوتا ہے۔
آدمی بھوکا ہے، دولت کی ہوس میں بے لگام۔ لگ بھگ بیس برس ہوتے ہیں، ہماری بہن طیبہ ضیا نے اپنے طور پر ایک طویل مقالہ لکھا تھا کہ نیویار ک کے بعض مسلمان قصاب اس سے کہیں زیادہ پائے فروخت کرتے ہیں، جتنی گائیں یا بکرے وہ ذبح کرتے ہیں۔ حرام اور مطلق حرام۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جنگلی جانوروں سے ربط بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں۔ بھینس، گائے، بکری، مرغی اور گھوڑا بھی جنگلی تھے۔ گھوڑے کو آدمیوں نے سدھا لیا اور ہزاروں برس تک وہ اس کا رفیق رہا۔ سواری، تجارت اور جنگ میں۔ گائے، بھینس اور بکری کا دودھ ہمیشہ سے انسان پیتا آیا ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ شاذ ہی کہیں خالص مشروب ملتا ہے۔
اوّل تو جانوروں کو ٹیکے لگائے جاتے ہیں، جس سے کینسر کا موذی مرض بھی لاحق ہو سکتاہے۔ نوبت اب یہاں تک آپہنچی کہ کیمیکل سے جعلی دودھ بنایا جاتاہے۔ بچوں کی زندگیاں تباہ کرنے کا اہتمام۔ نگرانی پر جو سرکاری اہلکار مامور ہیں، وہ صرفِ نظر کرتے ہیں۔ رشوت لے کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کبھی کسی وزیرِ اعلیٰ کی حمیت جاگتی ہے تو چھاپے مارے جاتے اور لاکھوں لیٹر دودھ بہا دیا جاتا ہے۔ اخلاقی حالت یہ ہے کہ کوئی تحریک نہیں اٹھتی۔
سائنسدان کوئی آلہ ایجاد نہیں کرتے، جس سے دودھ کو جانچا جا سکے، حالانکہ یہ چند ماہ سے زیادہ کی مشق نہیں۔ کچھ آلات موجود تو ہیں لیکن عام افراد کی پہنچ سے دور۔ ان کا چرچا ہوتاہے اور نہ بڑے پیمانے پر تیاری کی حوصلہ افزائی۔ قانون کا خوف ہی نہیں۔ مقدمہ درج ہو بھی جائے تو کیا۔ پولیس نہیں تو مجسٹریٹ چھوڑ دیتاہے۔ پاکستان میں صرف دو کمپنیاں ایسی ہیں، جو گائے کا خالص کچا دودھ بیچتی ہیں۔ شہروں میں جعلی مکھن عام ہے۔ تھوڑے سے دہی میں بہت سا بناسپتی گھی انڈیل دیا جاتاہے۔ اب یہ مکھن ہے۔ ریستوران والے جانتے ہیں اور گاہک بھی۔
اخلاقی احساس کے بغیر زندگی کیا ہے۔ کورونا وائرس پہلی ابتلا نہیں جو آدمیت پہ ٹوٹی ہے۔ افریقی وائرس ایبولا کے حملے میں مرنے والوں کی تعداد 90 فیصد تھی۔ فرق یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر نہ پھیلا۔ کم و بیش کانگو وائرس کا معاملہ بھی یہی تھا۔ ایڈز سے اب تک 4 کروڑ افراد جاں بحق ہو چکے۔ احتیاطی تدابیر معلوم ہیں مگر آدمی کی وحشت کا علاج کیا۔ قانون ہی کافی نہیں، انسانوں کو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تربیت، احساس اور شعور۔ زندگی کھانے کے لیے نہیں ہے بلکہ کھانا زندگی کے لیے۔
پچھلی صدی میں دس کروڑ آدمی طاعون کی نذر ہوئے اور یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، تاآنکہ اس پہ قابو پالیا گیا۔ صحیح سمت میں آدمی جدوجہد کرتا ہے تو تدارک ممکن ہوجاتا ہے۔ ٹی بی، پولیو اور چیچک بھی اتنے ہی خطرناک تھے لیکن نمٹا دیے گئے۔ ہر مرض کی اللہ نے دوا اتاری ہے۔ پاکستان ایسے چند ملکوں کے سوا، پولیو کا اب کہیں وجود نہیں۔ مذہبی انتہا پسند افواہیں پھیلاتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پینے والے بچّے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ رتی برابر بھی اس میں صداقت نہیں لیکن جب جہالت نے نفرت کا سبق پڑھایا ہو تو یہی ہوتاہے۔
کھانا کھانے کے آداب ہیں۔ ہاتھ دھوئے جائیں۔ سامنے سے شروع کیاجائے۔ کھانا کھانے کے بعد پانی پیا نہ جائے بلکہ اس سے پہلے۔ ایک ذرا سی بھوک باقی ہو تو ہاتھ اٹھا لیا جائے۔ چبا چبا کر کھایا جائے۔ ہاتھ سے کھانے میں لطف دوبالا ہوتاہے۔ شرط یہ ہے کہ طعام سے فوراً پہلے ہاتھ دھوئے جائیں۔ سائنسدانوں کو اب شدّت سے اس پر اصرار ہے۔ فرمایا: صفائی شرطِ ایماں ہے۔
خاتون اخبار نویس نے مہاتیر محمد سے صحت کا راز پوچھا تو انہوں نے کہا: والدہ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ کھانے کا لطف جب عروج پر ہو تو ترک کر دیا جائے۔ خاکسار نے اس کا تجربہ کیا۔ معلوم ہوا کہ آخری لقمے زیادہ لذت انگیز ہوتے ہیں۔ خواہ ہی سادہ سی کھچڑی ہی کیوں نہ ہو جو کل احمد خاں نے میرے لیے بھیجی تھی کہ بخار نے آن لیا تھا۔ آخر میں کھانے کا لطف کم ہوتا چلا جاتاہے۔ معدہ اطلاع دیتاہے مگر آدمی سنے بھی۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ارشاد کیا تھا: مدینہ منورہ میں جو پہلی بدعت رائج ہوئی، وہ پیٹ بھر کھانا تھا۔ سرکارﷺکا فرمان یہ ہے: ابنِ آدم کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ درویش کو دیکھا ہے کہ تین گھنٹے سوتے اور دن بھر میں زیادہ سے زیادہ دو چپاتیاں کھاتے ہیں۔ ہمہ وقت متوجہ اور تازہ دم۔ نیند کا معاملہ بھی یہی ہے۔ جتنی چاہے دراز کر لو، جتنی چاہے کم۔ صحت مندی کے لیے اچھی نیند لازم ہے لیکن ٹی وی اور موبائل نے اس کے بیشتر امکانات ختم کر دیے ہیں۔ نیند کتاب پڑھتے ہوئے آتی ہے۔ سوشل میڈیا یا ٹی وی کی خرافات میں نہیں، جن پر خلط مبحث زیادہ او رڈھنگ کی بات کم ہی ہوتی ہے۔
1947ء سے پہلے ہندوستان کے ایک سفیر برطانیہ میں ہوا کرتے تھے۔ ایک رسمی سا عہدہ تھا مگر ملکہ کی بارگاہ میں رسائی ہوتی۔ کم از کم ایک بار۔ پانچ لاکھ پاؤنڈ میں گوادر خریدنے والے سر فیروز خان نون ایک زمانے میں اس منصب پر فائز تھے۔ عشائیے پر ملکہ نے ان سے کہا: سنا ہے کہ ہندوستان میں اب بھی لوگ ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ فیروز خاں نون کی حسِ مزاح غیر معمولی تھی۔ بولے: جی ہاں، جس طرح حضرت عیسیٰؑ کھایا کرتے۔
مدینہ منورہ دنیا کا مرکز بنا تو دور دراز سے ایک حکیم طبابت چمکانے آیا۔ مہینوں وہاں وہ مقیم رہا۔ ایک بھی مریض ا س کے دوا خانے میں داخل نہ ہوا۔ شہر والوں سے سوال کیا تو انہوں نے کہا: ہم تھوڑا سا کھاتے ہیں اور بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔۔ اوروہ کیا کھاتے تھے؟ جو کی روٹی، ستّو، بکری کا دودھ، اونٹ کا گوشت، جس میں چکنائی برائے نام ہوتی۔ زیتون کا تیل، کھجور اور سبزیاں۔ جیسا کہ بار بار عرض کیا، فطرت سے آدمی جتنا ہم آہنگ ہو، اتنا ہی آسودہ۔ جتنا اس سے دور، اتنا ہی دکھی، اتنا ہی پریشان اور زبوں حال۔
قدرت ہمیں سکھانا چاہتی ہے لیکن ہم سیکھیں بھی۔ حسرت کے ساتھ قرآنِ کریم کہتاہے: افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔