اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: کسی قوم کو ہم اس وقت پکڑتے ہیں جب اپنی معیشت پہ اسے ناز ہو جاتا ہے۔ اور میر ؔ صاحب نے یہ کہا تھا
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ
مدتوں بعد پہلی بار بھارت امریکی گٹھ جوڑ کے ہنگام پاکستانی قیادت گھبراہٹ کا شکار نہیں۔ بھارت اور امریکہ تزویراتی (strategic) حلیف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں مقیم بھارتی ہندوئوں کے ووٹ چاہتے ہیں۔ وہ کہہ چکے، میں ہندو سے محبت کرتا ہوں۔ پاکستان اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ صرف مفادات ہی مشترک نہیں، دونوں لیڈر مسلم دشمن۔
مشرقِ وسطیٰ کو صدر ٹرمپ اپنے پالتو اسرائیل کے رحم و کرم پہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے ایران کو بلیک لسٹ کرنے کے علاوہ تہران پر پابندیوں کا اہم ترین پہلو یہی ہے۔ فلسطینیوں کووہ زیادہ سے زیادہ دس پندرہ فیصد رقبہ دینا چاہتے ہیں۔ بیشتر عرب ممالک کو انہوں نے اس پہ رضامند بھی کر لیا۔ اسی کو وہ پوری صدی کا سب سے بڑا سمجھوتہ قرار دیتے ہیں۔
بیچ میں خبر آئی کہ نریندر مودی سے ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی اقلیتوں، انسانی حقوق اور کشمیر پہ بھی بات کریں گے۔ یہ اشک شوئی کی کوشش ہے، بہلانے کی۔ بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ اس قدر سنگین ہو چکا کہ کانگریس سمیت سیکولر عناصرمسلمانوں کے خلاف نئے قوانین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ احمد آباد میں پیر کے دن ہندو مسلم فسادات ہوئے، دہلی اور علی گڑھ میں بھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق بھارتی وزیرِ اعظم نے ان سے کہا کہ گجرات کے ایک کروڑ باسی ان کے خیر مقدم کو بے تاب ہیں۔ یہ الگ بات کہ احمد آباد کی کل آبادی ستّر لاکھ ہے۔ امریکی صدر کے دورے کو" نمستے ٹرمپ" کا نام دیا گیا ہے یعنی" سلام بخدمت ٹرمپ "۔ اس مہم پر پیسہ پانی کی طرح بہایاجا رہا ہے۔ شہروں کی صفائی، کچی آبادیوں کے گرد دیواریں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ننگے بھارت کو ڈھانپا جا رہا ہے۔
معاملے کے بہت سے پہلو ہیں۔ متزلزل معیشت اور متصاد م قومیتوں کی کشمکش میں پھنسے مودی کو سیاسی بحالی درکار ہے۔ امریکی صدر کو نیا الیکشن جیتنا ہے۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار معیشت کا فروغ ہے۔ امریکی مارکیٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈالر۔ سعودی عرب سے ایک معاہدہ طے ہوا ہے کہ ایک ہزار ارب ڈالر کا اسلحہ وہ خریدیں گے۔ بھارت کو بھی جدید ہتھیار وہ بیچنا چاہتے ہیں۔ خریداری پر مودی آمادہ ہیں۔ طالبان کے ساتھ سمجھوتے میں بھی یہی عنصر کارفرما ہے، 100بلین ڈالر سالانہ کی بچت ورنہ خطے میں اپنے رسوخ سے وہ کیوں دستبردار ہوں گے، جہاں چین سے محاذ آرائی درپیش ہے۔
امریکیوں کے لیے معیشت ہی سب کچھ ہے۔ مونیکا لیونسکی والے شرمناک سکینڈل کے باوجود صدر کلنٹن کو گوارا کیا گیا کہ اقتصادی فروغ حاصل تھا۔ ٹرمپ کے ہاتھ میں بھی ترپ کا یہی پتہ ہے۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کی غایت بھی یہی تھی، جس میں بالاخر کچھ رعایتیں واشنگٹن نے حاصل کر لیں۔
یہ دنیا میں بالادستی کی جنگ ہے۔ پاکستان میں چین کے سفیر یائو جنگ کا کہنا ہے کہ امریکہ سے ہم نہیں الجھنا چاہتے، صرف دنیا میں ایک باعزت مقام کے آرزومند ہیں۔ چینیوں کا اندازِ گفتار یہی ہے ورنہ واقعہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان رسوخ کا معرکہ مدتوں پہلے شروع ہو چکا۔ ایلس ویلز بار بار اسلام آباد آتی اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ پاکستان کو سی پیک سے با ز آجانا چاہئیے۔ چینی قرضے اس کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بدلے میں امریکہ پاکستان کی معاشی پشت پناہی پر آمادہ ہے۔ سی پیک کے تحت سڑکیں بن چکیں، بجلی کے کارخانے نصب ہو چکے، ریل کے نئے منصوبے پر کام شروع ہونے والا ہے۔ بھارت کے باب میں چین ہمیشہ ایک وفادار ساتھی ثابت ہوا، قابلِ اعتماد دوست۔
سی پیک کو سمیٹا جا ہی نہیں سکتا۔ کوئی حکومت یہ جرات کر ہی نہیں سکتی۔ پاکستانی عوام اس کی تاب ہی نہیں لا سکتے۔ اس کی اجازت ہی نہیں دے سکتے۔ سمجھنا چاہے تو امریکی قیادت یہ بات سمجھ سکتی ہے۔ اس پہ مگر پاگل پن سوار ہے۔ 1990ء کے عشرے میں دیکھا گیا نئے عالمی نظام کا خواب واشنگٹن میں اب بھی زندہ ہے۔ افغانستان میں تب روس شکست کھا چکا تھا اور چین کوئی بڑی طاقت نہیں تھی۔
واحد نہ سہی لیکن امریکہ اب بھی سب سے بڑی قوت ہے۔ عالمی غلبے کے لیے تین طاقتور ممالک اس کے حلیف ہیں۔ بھارت اور جاپان، جن کی چین سے پرانی دشمنی چلی آتی ہے۔ گوری نسلوں پر مشتمل آسٹریلیا جو مشرقِ بعید میں چینی غلبے کے تصور سے نفرت کرتا ہے۔ امریکی خواہش یہ ہے کہ چین کو ترک کرکے پاکستان اس بلاک میں شامل ہو جائے۔ اس کے علاوہ کہ امریکہ ہمیشہ ایک ناقابلِ اعتماد حلیف ثابت ہوا، اس کا مطلب خطے میں بھارتی غلبے کو قبول کرنا ہے۔ سکّم، بھوٹان، مالدیپ، بنگلہ دیش اور کسمساتے ہوئے سری لنکا کی مانند۔
سری لنکا کی عظیم اکثریت پاکستان سے ویسی ہی محبت رکھتی ہے، جیسے ترک عوام۔ بھارت کی مسلط کردہ خانہ جنگی سے، پاکستانی امداد کے بغیر سری لنکا کبھی نجات نہ پا سکتا۔ دو برس ہوتے ہیں، کولمبو جانا ہوا تو عام لوگوں کی بے مثال محبت کا مشاہدہ ہوا۔ امریکی خواہش پر پاکستان اگر بھارتی غلبے کو قبول کر لے تو اس کا مطلب ہوگا، خود اپنے آپ سے بے وفائی۔ چین سے لا تعلقی اور اپنے نظریاتی وجود سے انکار۔ پھر اس ملک کا جواز ہی کیا رہے گا۔ یہ تو خودکشی ہوگی۔ اس لیے کہ بھارت مصالحت اور امن کا نہیں، مملکتِ خداداد کے خاتمے کا آرزومند ہے۔
صوفی اور درویش مدتوں سے کہتے آئے ہیں کہ دوسری عالمی طاقتوں کی طرح انکل سام کو بھی غروب ہونا ہے۔ اب پہلی بار یہ بات سیاست کے رمز آشنا بھی کہنے لگے ہیں۔ خود بھارت کے بارے میں بھی، اندرونی آویزش نے جسے ایک دلدل میں اتار دیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ دلدل گہری ہوتی جا رہی ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ برطانیہ اور سوویت یونین جیسی عالمی طاقتیں تب برباد ہوئیں، جب اپنی استعدادسے بڑھ کر بوجھ اٹھا یا۔ پاکستان نہیں، بھارت کو برباد ہونا ہے۔ چند برس پہلے ہر ہفتے تین سے پانچ بڑے دھماکے ہوا کرتے۔ دہشت گردوں کی کمر اب ٹوٹ چکی۔ کراچی، بلوچستان اور قبائلی پٹی آزادہے۔
ہمارے تجزیوں میں اور تو سبھی کچھ ہوتا ہے، بس وہی ایک ہستی نہیں، جس نے انسان اور کائنات کو پیدا کیا۔ جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ جس نے ہر ذی روح کو اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے۔ وہ حیّ وقیوم، جسے اونگھ اور نیند نہیں آتی۔ دیکھنے والے جس کیقدرتِ کاملہ کے نظارے ہر آن دیکھتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: کسی قوم کوہم اس وقت پکڑتے ہیں جب اپنی معیشت پہ اسے ناز ہو جاتا ہے۔ اور میر ؔ صاحب نے یہ کہا تھا
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ