چراغ بجھ گیا ہے، بولتا ہواچمن خاموش ہوگیا۔ سیاست میں نجابت و شرافت کا آخری پیکر مٹی اوڑھ کر سو چکا ہاں مگر ایسے لوگ مرتے نہیں بلکہ امر ہو جاتے ہیں۔
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
دور تک پھیلے گیہوں کے سبز کھیتوں کے درمیان پھولتی سرسوں کا نظارہ مبہوت کرتا ہے لیکن نعمت اللہ خاں کی وفات۔ ایک غم ہے جو جی میں بیٹھ گیا ہے۔ یہاں سے وہاں تک درد کی چادر تنی ہے۔ سرما کے سیاہ بادل کی طرح، جو ٹلنے کا نام نہ لے۔ خان صاحب روداد سنتے رہے۔ یہ ایک فلور مل کا مالک تھا، جو اخبار نویس کو اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ وہ ایک پیدائشی انجینئر تھا۔ بحری جہازوں کے انجن سے کم قیمت میں فلور مل بنا تا اور بیچ ڈالتا۔
سہراب گوٹھ میں یہ اس کی اپنی تھی، دو ایکڑ کو محیط۔ تیس برس پہلے ایک ایکڑ بلدیہ سے خریدا اور دوسرے پر قبضہ جما لیا تھا۔ کبھی کسی نے پوچھا ہی نہ تھا لیکن اب وہ اندیشوں میں گھرا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ ارباب رحیم سے اس بارے میں ناچیز نے بات کی۔ خوش دلی سے سفارشی خط لکھ دیا مگر یہ کہا: کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ خان صاحب مانتے کسی کی نہ تھے، ضابطے پہ چلتے۔
فریاد سن چکے تو بولے: اخبار میں اس پلاٹ کی نیلامی کا اشتہار دیا جائے گا۔ آپ خرید لیں۔ اس نے کہا: خان صاحب اگر ایم کیو ایم والے آن پڑے تو کیا ہوگا۔ اگر وہ زیادہ بولی دے کر خرید لیں تو مجھے کئی گنا قیمت ادا کرنے پر مجبور کریں گے۔ ایک ایکڑ پر پھیلی مشینری کا میں کیا کروں گا۔ اس نے تجویز کیا کہ اشتہار کسی بہت چھوٹے اخبارمیں چھاپا جائے۔ اپنی ہمیشہ کی بارعب آواز میں خان صاحب بولے: اشتہار اس اخبار میں چھپے گا، جس میں ہارون صاحب کا کالم۔ کسی نے اصل قیمت سے زیادہ کی بولی دی تو بتا دیا جائے گا کہ بلدیہ قبضے کی ذمہ دار نہیں۔
خان صاحب ایسے ہی تھے۔ بے ریا اور صداقت شعار۔ خیال کی جنت بسانے والے مگر حقیقت پسند اور عملی آدمی بھی۔ ڈاکٹر فیاض عالم نے کل ان کا نوحہ لکھا اور روئے۔ فیاض عالم، جو تھر میں خان صاحب کی میراث سنبھالے ہیں۔ ریگ زار میں پانی دریافت کرتے اور مکینوں کو سبزی اگانا سکھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی تحریر سے سانحے کا علم ہوا۔ اس میں اطلاع یہ نہیں تھی کہ وفات آج ہوئی۔ مرثیے کے انداز سے یوں لگا کہ مہینوں پہلے کا واقعہ ہے۔ خود کو کوسا کہ مجھے خبر کیوں نہ ہوئی۔
اقبالؔ یاد آئے۔ مولانا عبد القادر گرامی کی وفات پہ مرثیہ نہ لکھا تو لوگوں نے طعنہ زنی کی۔ حتیٰ کہ اس پر نظمیں لکھی گئیں کہ اقبالؔ فارسی کے آخری عظیم شاعر کو بھول گئے۔ حالانکہ وہ ان کے ذاتی دوست تھے۔ دوست ہی نہیں، اقبالؔ ان کے مدّاح بھی تھے۔ خود ایک بار کہا تھا: گرامی کو دیکھ لو۔ آنے والی نسلوں کے سامنے اس پہ فخر کر سکو گے۔ چھ ماہ گزر چکے تو اقبالؔ کا مرثیہ منظرِ عام پر آیا۔
یادِ ایامِ کہ با او گفتگو ہا داشتم
چہ خوشا حرفِ کہ گوید آشنا با آشنا
ان سنہری دنوں کی یاد کہ ہم اس سے بات کیا کرتے۔ وہ دل گداز لفظ اب یاد آتے ہیں، جو ایک دوسرے کی روح سے شناسا دوست بات چیت میں برتا کرتے۔ خان صاحب کا مرثیہ ہفتوں کی ریاضت چاہتا ہے۔ اس طرح کہ درد کو سینچا اور پالا جائے۔ پھردرد کا شجر پھلتا ہے۔ ایسا پھل جو کبھی نہیں مرجھاتا۔ دائم دلوں میں آباد رہتا ہے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا
مصرع کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
اور لکھنے والوں کو اقبالؔ نے مشورہ یہ دیا تھا
بلبلِ شوریدہ نغمہ ہے تیرا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
نعمت اللہ خاں ایسی شخصیت کا احاطہ آسانی سے نہیں کیا جا سکتا۔ بے ریا اور صداقت شعار۔ بے حد ریاضت کیش اور آسودہ۔ پابندِ صوم و صلاۃ بلکہ تہجد گزار مگر زعمِ تقویٰ سے پاک۔ سادہ اطوار مگر صاحبِ فراست، دھیمے مگر شجاع۔ بڑے خواب دیکھنے اور ان کی تکمیل کرنے والے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے کہا تھا: عظیم سپنے دیکھا کرو کہ معرکے تبھی سر ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ زندگی کا جلال و جمال تبھی آدمیت کی تکمیل کرتا ہے۔
خان صاحب بلدیہ کراچی کے مئیر تو یوں آسانی سے بن گئے کہ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تھا لیکن پھر زمانے کی آنکھ نے عجیب منظر دیکھے۔ ترقیاتی بجٹ چھ ارب سالانہ سے بڑھا کر 41 ارب تک لے گئے۔ سڑکوں، پلوں اور زیرِ زمین راستوں کا جال بچھا دیا۔ جنرل مشرف کے ساتھ ایک خاموش معاہدے کے تحت ایم کیو ایم نے دہشت گردی معطل کر رکھی تھی۔ بھتہ وصول کرتے مگر قتل و غارت نہیں۔ لگ بھگ ربع صدی کے بعد خان صاحب نے کراچی کو تعمیر و ترقی کے راستے پر ڈال دیا۔ پاکستانی بحریہ اور چھائونی کے فوجی افسروں کو ترقیاتی عمل میں گھسیٹ لیا۔ کہا کہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ اس لیے کہ آپ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ کسی بھی شہر کی تاریخ میں اس تیز رفتاری سے ترقیاتی کام میں شاذ ہی اضافہ ہوا ہوگا۔ کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دیے اور بہت آسان شرائط پر۔ ہر یونین کونسل کو پانچ لاکھ روپے بخشے، جس کا وعدہ نہیں تھا۔ شہر کو ہریالی سے بھر دیا، حالانکہ منشور میں لکھا نہیں تھا۔
آخرِ شب جاگتے اوررات گئے تک کام کیا کرتے۔ ریاضت کے نشے میں مخمور، اپنی نیند وہ گاڑی میں پوری کرتے۔ ایک مسافت سے دوسری مسافت کے درمیان۔ تکان کی پرواہ ہی نہ کرتے۔ چھٹی نام کی کوئی چیز ان کی زندگی میں نہیں تھی۔
جہاں میں فرصت میسر آتی ہے فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہء حر کے واسطے جہاں میں فراغ
اتوار کی صبح تھرپارکر روانہ ہو جاتے۔ وہاں بہت سے کنویں کھدوائے۔ فکر و نظر میں وسعت تھی اور تعصبات سے کراہت۔ خبطِ عظمت سے پاک ایسا کوئی آدمی جب نمودار ہوتا ہے تو معجزے سے ہونے لگتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا تھا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے، وہ جھوٹ نہ بولے اور خیانت نہ کرے۔ مبالغے سے خان صاحب کو گریز تھا۔ میں نے پوچھا: کرپشن پر آپ نے قابو پا لیا؟ تونفی میں سر ہلایا۔ مراد یہ تھی کہ محدود کر دی، تحلیل نہیں کرسکے۔ اجلے اور ولولہ انگیز مگر نمود و نمائش سے پاک۔ بندگانِ خدا کے خدمت گزار مگر ان سے بے نیاز بھی۔ شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا، سب کا رفیق۔ ان پہ نگاہ پڑتی تو خیال آتا:
ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو
چراغ بجھ گیا ہے، بولتا ہوا چمن خاموش ہوگیا۔ سیاست میں نجابت و شرافت کا آخری پیکر مٹی اوڑھ کر سو چکا مگر ایسے لوگ مرتے نہیں بلکہ امر ہو جاتے ہیں۔ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور