سیاست ایک چیز ہے لیکن ایک شے ظرف بھی ہوتی ہے۔ ایک خصوصیت دردمندی بھی ہوتی ہے، ایثار بھی۔ نرگسیت، شہرت، دولت اور اقتدار کے پجاریوں کی تو مدح سرائی ہو اور اہلِ درد کو بھلا دیا جائے؟ کیا یہ انصاف ہے؟
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھرسچ ہے اب ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھاغم بھی کسی کی ذات تھی
ماؤزے تنگ کا چین افلاس اور بھوک کا مارا تھا، بیجنگ میں آج بھی کوئی ان کی تحقیر نہیں کرتا کہ جنگِ آزادی کے سالار تھے۔ تیس سے چالیس لاکھ زندہ سلامت آدمی تو صرف آنجباب کے ثقافتی انقلاب میں مارے گئے۔ خود ڈنگ سیاؤ پنگ معتوبین میں تھے۔ چین کو عالمی قوت کی راہ پہ گامزن کرنے والے۔ کبھی ان کے چھوٹے قد کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ان کے صاحبزادے کو تیسری منزل سے دھکا دے کر گرادیا گیا تھا۔ نفرت کی آندھی بے پناہ تھی۔ کیسے کیسے شاہ بلوط اس میں زمیں بوس ہوئے۔
ڈنگ سیاؤ پنگ کا کارنامہ فقط معاشی تعمیرِ نو تو نہیں کہ بیجنگ آج عالمی سیاست کا اہم ترین کھلاڑی ہے بلکہ جذباتی توازن کا باب بھی کھلا۔ پیش قدمی کی سب سے زیادہ استعداد اب اسی قوم میں ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ، یہی ظفر مندی کی نشانی ہوا کرتی ہے۔ ایران، بنگلہ دیش بلکہ عالمِ عرب اور اقصائے افریقہ تک ایک کے بعد دوسری سرزمین کو وہ تسخیر کرتے جا رہے ہیں۔
1776ء میں حصولِ آزادی کے 89برسوں بعد امریکہ میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ شمال اور جنوب باہم صف آرا ہوئے تو پندرہ لاکھ مارے گئے۔ تب اس قوم نے دریافت کیا کہ خود کو وہ ختم کر دیں گے۔ ابرہام لنکن بھی نیلسن منڈیلا تھے کہ اپنی قوم کو ہوش مندی سکھائی۔ دوبار سینیٹ کے لیے جس کی درخواست مسترد ہوئی، دو نمایاں امیدواروں کی خوفناک چپقلش میں محض اتفاق سے صدارتی امیدوار بنا۔ اپنی قوم سے اس نے کہا: آج جتنے کوڑے کالوں کی پشت پہ برساؤ گے، اتنی ہی زندگیاں صلے میں دینا پڑیں گی۔
جی ہاں ایک طبقے کو شودر بنا کر معاشرے میں آہنگ پیدا نہیں کیاجا سکتا۔ آہنگ کے بغیر استحکام نہیں اور استحکام کے بغیر نشوونما کا خواب محض ایک سراب۔ آج کا بھارت کہ معاشی دیو بن جانے کے باوجود، جاپان، آسٹریلیا اور یورپی یونین، سب سے بڑھ کر امریکی اشیرباد کے باوجود جو ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا ہے۔ اجتماعی حیات اور اتحاد خطرے میں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ادراک اور احساس کی بجائے لیڈرانِ گرامی تعصبات کی آگ پہ تیل چھڑک رہے ہیں۔ بنیادوں میں بارود بھر رہے ہیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سیاستدان نہیں، یہ مفکر اور مدبرہوتے ہیں، قوم کی درحقیقت جو تعمیر کرتے ہیں۔ تعلیم دیتے، تربیت کرتے اور اخلاقی احساس کے بیج بو تے ہیں۔ ہیجان سے نجات دلا کر ہجوم کو امت میں ڈھالتے اور غور و فکر کی متاع بانٹتے ہیں۔ پسماندہ رہنے اورپچھڑ جانے والی اقوام؟ جتھے بندی سے خود شکنی، جذبا تیت، خطابت اور شخصیت پرستی سے خودشکنی۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہو تے نہیں جہاں پیدا
میڈیا سیل سے گالم گلوچ کے پتھر نہیں بلکہ فکر و نظر کے لعل و گہر۔ نون لیگ ہو، پی ٹی آئی یا پیپلزپارٹی، ان سب کے فدائین میں ایک بے تاب تمنا کارفرما کہ حریف کو کچل کر پامال کر دیں۔ نام و نشان ہی اس کا باقی نہ رہے۔
کاش کوئی انہیں بتا سکے فنا و بقا کا فیصلہ چیخ و پکار سے فقط سرکاری، سیاسی اور غیر سیاسی لشکروں کی قوت سے کبھی نہیں ہوتا۔ آخری فیصلہ تاریخ صادر کرتی ہے، بھاڑے کے کارکن اور دانشور نہیں۔ کسی عہد کے تعصبات جب تحلیل ہوچکیں۔
زندگی اور موت، کامرانی اور ناکامی اس کے ہاتھ میں ہے، جس نے زندگی، کائنات اور آدمی کو پیدا کیا۔ نشیب و فراز کے، حیات و موت کے جس نے قانون بنائے اور یہ قانون اٹل ہیں۔۔۔ جو جیے گا وہ کسی اصول کی چھاؤں میں جیے گا۔ جو مرے گا، وہ انحراف میں مرے گا۔ صداقت کی جڑیں گہری اور ثمر بار شاخیں فلک گیر ہوجاتی ہیں۔ جھوٹ ایک سراب ہے، خواہ انسانوں کا ایک سمندر اس کا پشتیبان ہو۔ انجامِ کار کانٹے اگاتی پیاس ہے، بے بسی کی موت۔ تاریخ یہی ہے۔
آگ بجھی ادھرہوئی، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کاررواں
یومِ تکبیر پہ بھانت بھانت کی بولیاں اوررنگ برنگے دعوے: ایٹمی طاقت نواز شریف نے بنایا، ہمیں سرخرو کیا۔ جی نہیں، یہ بھٹو تھے، ایٹمی پروگرام پہ جنہوں نے خود کو نچھاور کر دیا۔
بدترین حالات میں بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی نیو رکھی۔ یہ اعزاز کوئی چھین نہیں سکتا، چھپا نہیں سکتا۔ ایٹمی دھماکے کے لیے امریکی سرپرستی کی پیشکش نواز شریف نے مسترد کی۔ قوم کی قوم اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ حکمرانوں کے ایما پر جواز تراشنے والے دانشور آخر کو بھکاریوں سے بدتر ہوئے۔ ایک عام سپاہی سے لے کر جنرل جہانگیر کرامت تک، سبھی سرخرو تھے۔ جی ایچ کیو ہمہ وقت نگراں۔ کامل یکسوئی سے اس کی پشت پہ کھڑا میڈیا۔ مجید نظامی مرحوم نے جتلا یا:دھماکہ نہیں کرو گے تو آپ کا قوم دھماکہ کر دے گی۔
ایک نے بنیاد رکھی، دوسرے نے دھماکہ کیا۔ بیچ کے 24برس دوسرا کوئی اور نہ تھا؟ وہ جو خون پسینہ ایک کرتے رہے، زندگیاں ہتھیلیوں پر۔ اس طرح اپنے مقصود سے محبت کی، ماں جیسے اولاد کو پروان چڑھاتی ہے۔ بے دردی اور پتھر دلی سے ان سب کو بھلا دیا جائے؟
تکمیل جنرل محمد ضیاء الحق نے کی۔ راجیو گاندھی کو بتایا کہ پاکستان پہ میلی نظر ڈالی تو بھارت ایک قبرستان کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ بھٹو پہ دباؤ رہا، ضیاء الحق پہ کم نہ تھا، بارتھو لومیو سے جنرل نے کہا تھا: ایٹمی پروگرام بند کرانے آئے ہو تو تشریف لے جاؤ۔ اس موضوع پر بات نہیں ہوسکتی۔ یہی غلام اسحٰق خاں نے کہا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان، ثمر مبارک مند سمیت سائنسدانوں کی وہ ٹیم، سالہا سال تک جنہوں نے جگر لہو کیا?اور سائنسدانوں ذکر ہی نہیں جن کی یہ تخلیق ہے، جن کا یہ کمال ہے۔ آئی ایس آئی کے جانباز، سر ہتھیلیوں پہ رکھے اجنبی سرزمینوں میں جو بھٹکتے۔ سمگلر سیٹھ عابد سمیت کتنے ہی دوسرے، جن کے عمل دائم مہمیز اور زبانیں مستقل بند رہیں۔ سینکڑوں گمنام ہیرو۔
شاید ہی کوئی متعلق سیاستدان اور سائنسدان ہو، ایک آدھ بات، جس سے اخبار نویس نے اگلوا نہ لی۔ 1974ء سے اقتدار کے آخری دنوں تک 19برس ایک ایک مرحلے کے نگران، غلام اسحق خان کو ہر طرح اکسایا۔ کہا تو یہ کہا "کبھی ہم اس کے امین تھے، اب اور لوگ اس کے امین ہیں " سمندرایسے ظرف کا آدمی!
سیاست ایک چیز ہے لیکن ایک شے ظرف بھی ہوتی ہے۔ ایک خصوصیت دردمندی بھی ہوتی ہے، ایثار بھی۔ نرگسیت، شہرت، دولت اور اقتدار کے پجاریوں کی تو مدح سرائی ہو اور اہلِ درد کو بھلا دیا جائے؟ کیا یہ انصاف ہے؟
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھرسچ ہے اب ان کو کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھاغم بھی کسی کی ذات تھی