افسوس، افسوس، اس معاشرے کے اخلاقی افلاس پہ افسوس! ریاستِ مدینہ کانعرہ اور ظلم کی فراوانی۔ نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد۔ خرد کی تنگ دامانی سے فریاد!
افراد یا اقوام، ناکامی اور کامیابی اپنے طفیل ہوتی ہے۔ فتوحات اور پسپائی بھی۔ چار ماہ بیت چکے، مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ اللہ کی کتاب پوچھتی ہے، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ان بچوں اور عورتوں کے لیے نہیں لڑتے، جو کمزور پا کر دبا لیے گئے۔ میدانِ جنگ میں ہم اتر سکتے ہیں۔ نہیں اتر سکتے تو کیا دہائی بھی نہیں دے سکتے؟ فریاد بھی نہیں کر سکتے؟ سفارتی مہم بھی نہیں چلا سکتے؟
مسئلہ ملک ریاض نہیں، اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہے۔ پولیس کیوں نہیں پوچھتی۔ ایف آئی اے کیوں تفتیش نہیں کرتی۔ نیب کیوں نہیں کرتی۔ اخبارنویس کیوں واویلا نہیں کرتے۔ ایمان کے تین درجے ہیں۔ طاقت سے مزاحمت، زبان سے احتجاج اور دل میں برا سمجھنا۔ جو سبکدوش فوجی افسر ملک ریاض کے نوکر ہیں، ظاہر ہے کہ وہ اسے دل سے بھی برا نہیں سمجھتے۔ جو انہیں روک سکتے ہیں، وہ انہیں روک کیوں نہیں دیتے۔ خود بری فوج کا پیسہ وہ کھا گیا اور بمشکل واگزار ہوا۔ جو لوگ ذمہ دار تھے، اس لیے ان کے خلاف کارروائی نہ کی گئی کہ اب وہ نظام کا حصہ نہ تھے۔ قانون کے تحت انہیں ملازمت پہ واپس بلایا جا سکتا تھا۔ جس طرح کہ جنرل کیانی نے دو سینئر فوجی افسروں کو بلایا تھا۔ جس طرح کہ جنرل باجوہ نے بعض کے خلاف کارروائی کی۔ حاضر سروس افسروں کے خلاف بھی۔
نوّے فیصد میڈیا کیوں دم سادھے ہے۔ سات برس ہوتے ہیں، ٹیکس کے وفاقی محتسب نے تفتیش کا آغاز کیا تو درجن بھر چینلوں کی گاڑیاں دفتر کے باہر آکھڑی ہوتیں، جب اسے طلب کیا جاتا۔ واپسی پر وہ بیان جاری کرتا اور یہ بیان پورے اہتمام سے نشر کیا جاتا۔ اخبارات اور چینلوں کے اشتہارات بڑھا دیے گئے۔ اخبار نویسوں نے فرمائش کی کہ اسے طلب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ پانچ پانچ کروڑ روپے کے اشتہارات بڑے اداروں کو ملے ہیں، ہن برستا رہے۔
محتسب نے گرفتاری کے وارنٹ پہ دستخط کر ڈالے تھے۔ تھر تھر وہ کانپ رہا تھا۔ چند منٹ کی مہلت مانگی۔ صدر زرداری کو اس نے فون کیا کہ معافی نامہ لکھوا کر رہائی کا حکم جاری کر دیں۔ رحم کی اپیل پر صدر کو سزا موقوف کرنے کا اختیار ہوتاہے۔ پرسوں پرلے روز 92 نیوز کے پروگرام "مقابل" میں واقعہ بیان کرتے ہوئے غلطی سرزد ہوئی۔ ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے جھگڑے میں سپریم کورٹ نے ڈاکٹر سڈل کو کھوج لگانے کا حکم دیا تھا۔ ابتدائی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ بحریہ ٹائون کے ذمے 119 ارب روپے کے ٹیکس واجبات ہیں۔ ارسلان کے ذمے پانچ کروڑ روپے۔ الگ سے نجم سیٹھی کے ذمہ ایک کروڑ روپے۔ واشنگٹن میں ان کی جائیداد کا سراغ ملا تھا۔
زرداری صاحب کا دور بیت گیا۔ قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کے ساڑھے چار برس اور شاہد خاقان عباسی کا زمانہ بھی۔ پندرہ ماہ عمران خان کے بھی۔ کسی کے خلاف کارروائی نہ ہوسکی۔ ایف بی آر کا ہر چئیرمین ان فائلوں پہ سوتا رہا۔ شبّر زیدی بھی تو خوابیدہ ہیں۔ یہ ایک گہرا تاریک راز ہے کہ کیوں۔
نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتفاقِ رائے سے نجم سیٹھی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بنا دیے گئے۔ جن لوگوں سے کوئی امید وابستہ تھی، ان میں سے ایک اعتزاز احسن تھے، جو گاہے ڈنکے کی چوٹ سچ بولتے ہیں۔ وکلا تحریک کے ہنگام جنہوں نے یہ کہا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری بحال ہو گئے تو ریاست ماں جیسی ہوگی۔ زخموں پہ مرہم رکھے گی۔ افتادگانِ خاک کی پریشاں نظری کا دارو سوچے گی لیکن پھر یہ ہوا کہ وہ ملک ریاض کے وکیل ہو گئے۔
پھر یہ ہوا کہ دو افراد کا ذاتی تنازعہ قرار دے کر ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے تنازعے پر قائم ہونے والا کمیشن تحلیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سڈل پہ عدالت کو اعتبار ایسا تھا کہ افغان تجارت میں مدتوں سے چلی آتی فریب کاری کا سراغ لگانے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ بہت سے کنٹینر افغانستان پہنچتے ہی نہیں۔ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں کھلتے ہیں۔ یہ انکشاف بھی کیا کہ کراچی سے چمن اور طورخم کا پانچ سات دن کا سفر وہ چوبیس گھنٹے میں طے کر لیتے ہیں۔ جعلی مہریں اور جعلی رسیدیں۔
اندازہ یہ ہے کہ قومی معیشت کو اس سے اڑھائی تین سو ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ ڈاکٹر سڈل کی رپورٹ کے نتیجے میں ٹیکس آمدن میں بارہ تیرہ ارب روپے سالانہ اضافہ ہوا۔ 119 ارب روپے ملک ریاض سے بھی وصول کر لیے جاتے لیکن زرداری اور نواز شریف کی حکومت میں یہ ممکن نہ ہوا۔ افتخار چوہدری نہایت فیاضی سے انصاف بانٹتے رہے لیکن ڈاکٹر سڈل کو اپنی رپورٹ مکمل نہ کرنے دی۔ عدالت سے سرکاری افسر نے استدعا کی تھی کہ مہلت مقرر کیے بغیر مسلسل تفتیش کی اجازت دی جائے۔ عدلیہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ایسی کوئی استدعا ٹھکرا دی جائے۔ یہ ٹھکرا دی گئی۔ ایف بی آر، وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ افغان تجارت اور ملک ریاض پہ وفاقی محتسب کی گزارشات ملحوظ رکھتیں تو نہ صرف ملک ریاض سے پچاس ساٹھ ارب روپے سالانہ وصول کیے جاتے اور افغان تجارت سے قومی صنعت و تجارت کو لگنے والے زخم بھی مندمل ہونے لگتے۔ کیا یہ محض اغماض تھا؟ فقط کاہلی یا بہت سے لوگ شریکِ جرم تھے؟ جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگے؟
جسٹس افتخار کے خلاف ملک ریاض کی پریس کانفرنس۔ اس کے فوراً بعد ایک بڑے چینل کے سب سے اہم پروگرام میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف پراپیگنڈے کا آغاز۔ اس سے بھی پہلے ملک ریاض کے فرزند علی ریاض کے خلاف ایک ایسا مقدمہ، جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ کاروں کی ایک ریس میں ایک شہری کی ہلاکت پر اقدامِ قتل کا مقدمہ۔ بجا طور پہ باپ برہم تھا۔ اس نے وار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ناصحوں سے اس نے کہا: اگر میں خاموش رہا تو پاگل ہو جائوں گا۔
پریس کانفرنس سے قبل وہ دبئی پہنچا اور ایک بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کو دو ارب روپے پیش کیے۔ قبل از وقت ان اشتہارات کی ادائیگی، جو بعد میں جاری کیے جاتے۔ بعد ازاں یہ رقم ان صاحب کو واپس کرنا پڑی۔ اس لیے کہ چیف جسٹس کے خلاف مہم چلانے کا وعدہ وہ پورا نہ کر سکے تھے۔ دبئی میں ان پبلشرز سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا: ملک صاحب کو کیا ہوا تھا۔ بولے کہ طاقت اور سرمائے کی فراوانی خدائی کی خواہش پیدا کرتی ہے۔ پھر خود ان صاحب نے بھی ایک مہم برپا کی اور یا للعجب پاک فوج کے خلاف۔ یہ کہانی پھر کبھی۔
کوئی احتساب نہیں، یہ کوئی احتساب نہیں۔ احتساب وہ ہوتاہے جس میں طاقتوروں سے باز پرس ہو۔ وہ کہ جس کا آغاز اپنوں سے کیا جائے۔ جس میں قاضی حاکمِ وقت اور اس کے ساتھیوں کو طلب کرے۔ ارشاد یہ تھا "خدا کی قسم میری بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے گا "۔ افسوس، افسوس، اس معاشرے کے اخلاقی افلاس پہ افسوس! ریاستِ مدینہ کانعرہ اور ظلم کی فراوانی۔
نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد۔ خرد کی تنگ دامانی سے فریاد!