بیس برس ہوتے ہیں، لاہور کے دانا سے عارف نے یہ کہا:آپ کو شاعری کرنی تھی، افسری نہیں۔ اس آدمی کا نام شعیب بن عزیز ہے اور اس کا ایک شعر یہ ہے ؎
دیارِ شب کی مسافت نے کیا دیا ہم کو
ہوائے شام ہمیں اب گھروں میں رہنے دے
میرا حال بھی یہی ہے، اب میں صحافت کے کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ آزادی کی میں التجا کرتا ہوں مگر آزادی اب کہاں؟
اس صحرائی شہر رحیم یار خان میں یہ 1969ء کا موسمِ خزاں تھا، میاں محمد حفیظ نے یاد کیا۔ ہزاروں دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔
اکرام سے پھوٹنے والا اندیشہ اور طرح کا ہوتا ہے۔ عالمگیر ہوٹل کے کشادہ عقبی کمرے میں میاں صاحب تشریف فرما تھے۔ حلیم الطبع، طویل قامت، گندم گوں، عہدِ قدیم کی نجابت کا ایک نادر نمونہ۔ ان کی دوسری لائبریری کہ پہلی اور کشادہ تر تودولت کدے میں تھی۔
اس میٹھے لہجے میں، مدّتوں بعد جو فقط عارف میں دیکھا، انہوں نے کہا: لاہور جانے کی تیاری کرو، ڈاکٹر صاحب سے میں نے بات کر لی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے اْن کی مراد میرے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم تھے۔ سوال پیچیدہ ہو تو فیصلہ وہ صادر کرتے۔ ابّا جی مرحوم کم از کم پچیس سال ان سے بڑے تھے۔ ایسے یکسو کہ طے کر لیں تو پہاڑ بھی راہ روک نہ سکتا۔ حیرت ہوتی کہ ڈاکٹر صاحب میاں صاحب کی فرمائش کبھی مسترد نہ کرتے۔ سات برس سے زیادہ گزرے کہ وہ چلے گئے مگر کہاں چلے گئے۔ دلوں میں اب بھی زندہ ہیں۔ یہیں کہیں، آس پاس۔
ابھی ابھی انہی کنجوں میں اس کے سائے تھے
ابھی ابھی تو وہ تھا ان برآمدوں میں یہاں
دل بھر آیا۔ ایک اداسی، باپ کی خواہش تھی کہ بیٹا بڑا آدمی بنے۔ اپنے خالہ زاد میاں محمد خالد حسین کی طرح لندن سے سی اے کی ڈگری پائے۔ کم از کم ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہی بن جائے۔ فرزند ایسا کہ مان کر نہ دیا: اردو پڑھوں گا، استاد بنوں گا یا پھر اخبار نویس۔ وہ میرا منہ دیکھتے رہے۔ رحیم یار خاں کے سائیکل سوار نامہ نگار انہوں نے دیکھے تھے۔ ساری زندگی ایک کتاب کے ساتھ بسر کر دی۔ اللہ کی آخری کتاب!جس کا بڑا حصہ ازبر تھا۔
فضا میں عرض کیا: میاں صاحب آپ جانتے ہیں، روپے پیسے کا کوئی شوق نہیں، بس پڑھنے لکھنے کا۔ حیرت سے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے: روپیہ پیسہ کیوں نہیں؟ جاؤ، اللہ تمہیں عزت دے گا اور روپیہ بھی بہت۔
میز پر پڑی چائے کی پیالی ٹھنڈی ہو گئی۔ بڑے بھائی ناراض تھے۔ ڈاکٹر محمد نذیر مسلم کے سامنے مگر دم مارنے کی مجال کسے تھی۔ بلدیہ کا دھانسو چیئرمین بیچ سڑک پر پٹا اور اپنے حواریوں سے کہا:خبردار اِن کی شان میں کوئی گستاخی نہ کرے۔ میاں محمد حفیظ سے اختلاف کی جسارت کون کرتا۔ وہاں تو پتھر پگھل جایا کرتے۔ ایسا آدمی پھر نہ دیکھا۔
ہمیں خبر ہے بڑے علم و آبرو والے
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں
پچاس روپے کا ایک نوٹ بڑے بھائی مجھے دیا، پندرہ روپے میں تھرڈ کلاس کا ٹکٹ خرید لیا جائے گا کہ انٹر ویو میں ناکام رہا تو واپسی کا کرایہ باقی ہو۔ قربان انجم بولے: پاگل ہوئے ہو، تم تھرڈ کلاس میں سفر کرو گے؟ بائیس روپے پچاس پیسے اٹھ گئے۔ دوپہر کا کھانا ریل گاڑی کی ڈائننگ کوچ میں کھایا اور کشتی جلا دی۔
لاہور کے ریلوے سٹیشن سے اخبار کے دفتر کا کرایہ ایک روپے تھا۔ ایک روپیہ فی سواری مگر اس ناقابلِ علاج تنہائی پسند کو یہ گوارا نہ تھا۔ پانچ روپے مزیداٹھ گئے۔ کشتی کا ملبہ بھی خاک ہوا۔
سرخ و سفید، جواں سال مدیر نے میری طرف الجھن سے دیکھا اور پاکستان ٹائمز میری طرف بڑھا دیا، ترجمے کے لیے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ ایف اے کا نتیجہ ابھی نہ آیا تھا اور دو برس میں زیادہ سے زیادہ بیس ہفتے کالج میں گزارے ہوں گے۔ ترجمہ پڑھا تو ایڈیٹر صاحب کے چہرے پر اطمینان اترا اور یہ کہا:تنخواہ 150روپے، رہائشی کمرے کا کرایہ 25روپے ماہوار۔ کل صبح گیارہ بجے دفتر آجانا۔
اللہ کو منظور ہوا اور ایک دوسری کتاب لکھی جا سکی تو اس کے بعد صحافت کے 53برسوں کی روداد بھی انشاء اللہ رقم کریں گے۔ ؎
ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
یہ 1995ء کا موسمِ بہار تھا، جب عارف سے ملاقات ہوئی۔ نو برس ہوتے ہیں، ایک سیاستدان، جو وزیرِ اعلیٰ رہ چکے، اب بھی ایک بلند منصب پر فائز ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ناچیز کو طلب کر رکھا تھا۔ فرمایا: ان کی بات سن لیجیے۔ عرض کیا: گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟ آپ اس دروازے پر آپہنچے ہیں، جہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا؛لہٰذا مروّت برتنے کی کوشش کریں گے۔ سبب یہ ہے کہ ماں باپ سے بڑھ کر ان کے احسانات ہیں۔
برسوں سے آرزو تھی کہ وہ اپنے گھر سے نکلیں اور یہ ناچیز اپنے غریب خانے سے۔ بیچ میں کوئی ٹھکانہ ہو۔ دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔ تمام نہیں تو کچھ شامیں وہاں بسر ہوں۔ اب بالآخر دروازہ کھلا ہے۔ گل پارااس دیار کا نام ہے۔ عرض کیا: کیا اس میں کوئی معنویت ہے؟ خوش دلی سے ہنسے:جی ہاں! گجر خان، گل پارہ، گیلان۔ ایک۔ اس کے سوا بھی ہے، جو پھر کبھی آشکار ہو جائے گا۔ آواز ٹوٹنے لگی۔
اتنے میں فون کی سکرین روشن ہوئی۔"آپ کہاں ہیں ہارون صاحب" فریاد کرتی ہوئی ایک آواز نے کہا "آپ کو آج میرے ساتھ پروگرام میں شریک ہونا تھا۔ آج؟ آپ نے تو کسی اور دن کو کہا تھا۔ جی نہیں، آج Wednesdayکو"۔ اب میری بلا جانے، Wednesdayکس چڑیا کانام ہے۔ بدھ کہا ہوتا۔ میں چک نمبر42جنوبی سرگودہا کا رہنے ولا ہوں۔ Wednesday، کا مجھے کیا پتہ۔
ابھی ابھی صمد مرسلین کو فون کیا تو عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز سنائی دی۔
ککڑا دھمّی دیا کیں ویلے دتّی ہئی بانگ
ماہیا ٹور بیٹھی میکوں پچھوں لگّا ارمان
مرغِ سحر، بے وقت تو نے اذان دی۔ شب اسے رخصت کیا۔ اب حسرت میں درماندہ ہوں۔
یادیں ہجوم کرتی چلی آتی ہیں۔ منفرد گلوکار سے وعدہ کیا تھا کہ کسی شام ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ ایک شام ان کے ساتھ بتاؤں گا۔ موسیٰ خیل میں، کھیتوں میں گھرے ان کے گھر میں۔ اشجار اور پھولوں کے سائے میں ان کی رودادسنوں گا۔ جی چاہا تو اپنی پسند کا کوئی گیت بھی گا دیں۔ کچھ مہلت میسر ہوئی تو دریائے سندھ کے کنارے بیتے ہوئے ایام کو یاد کریں گے۔ کچھ اپنی کہیں گے، کچھ ان کی سنیں گے۔ عیسیٰ خیلوی اب علیل ہیں۔ اب بھی ملاقات کو جی بے قرار ہے، مگر تاب کہاں۔ اسی نواح میں اس عظیم شاعر اسد الرحمٰن سے بھی، جس نے کہا تھا:
تم نے دیکھا ہی نہیں جیت کے ہارا ہوا شخص
تخت کے بخت سے یک لخت اتار ا ہوا شخص
ہمہ وقت جو کھیتوں میں بسر کرتاہے۔ حتیٰ کہ مکان بھی کھیتوں میں۔ صبحوں، شاموں اور کرنوں سے باتیں کرتا ہے۔ پھر اس گداز کو اپنی شاعری میں گھولتا ہے۔
بیس برس ہوتے ہیں، لاہور کے دانا سے عارف نے یہ کہا تھا:آپ کو شاعری کرنی تھی، افسری نہیں۔ اس آدمی کا نام شعیب بن عزیز ہے اور اس کا ایک شعر یہ ہے ؎
دیارِ شب کی مسافت نے کیا دیا ہم کو
ہوائے شام ہمیں اب گھروں میں رہنے دے